Home تراجم ہندوستان میں "ٹونیشن تھیوری "نہیں چلے گی- پرسا وینکٹیشور راؤ جونیئر

ہندوستان میں "ٹونیشن تھیوری "نہیں چلے گی- پرسا وینکٹیشور راؤ جونیئر

by قندیل

ترجمہ : مسعود جاوید

مودی حکومت کا شہریت ترمیمی ایکٹ ٢٠١٩، ١٩٨٥ آسام اتفاق کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے بموجب عمل میں آئے نیشنل رجسٹر آف پوپولیشن میں بنگلہ دیش سے آئے ہندوؤں کا نام شامل نہیں ہوا اس کا حل ڈھونڈنے کی اشد ضرورت کے علاوہ ایک نظریاتی محرک بھی ہے۔ وہ محرک ہندو مذہبی تشخص کے نظریہ پر مبنی ہے۔
اس ایکٹ میں بودھ،جین، سکھ، پارسی اور عیسائی کو شامل کرنا ہندو متعصبانہ قانون سازی کی ایک کمزور کوشش ہے۔
وزیر داخلہ امت شاہ نے اپنی دلیل کی بنیاد تقسیم یعنی ہندو بھارت میں اور مسلمان پاکستان(پاکستان اور بنگلہ دیش میں) کی منطق کو بنایا ہے کہ اگر ہندو پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہندوستان آئیں تو انہیں آزادانہ ہندوستان آنے کا حق ملنا چاہیے۔ ١٩٤٧ میں اور اس کے بعد جو ہندو پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے ان کو ایک المناک ضرورت کے تحت قبول کیا گیا تھا اس لئے کہ انہیں اپنا گھر بار اور عزیز واقارب کو چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑا تھا۔
مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے نظریاتی سرپرستوں کے مطابق ہندوستان سےمسلمانوں کے پاکستان اور بنگلہ دیش جانے اور ہندوؤں کے پاکستان اور بنگلہ دیش سے ہندوستان آنے کوطبیعی سمت میں ایک ضروری قدم سمجھا تھا اس لئے کہ تقسیم ان پر مسلط کی گئی تھی کیونکہ جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے اس وقت کسی اور حل کو مشکل بنا دیا تھا۔ تاہم کانگریس نے مذہب کی بنیاد پر ریاست کے تصور کو مسترد کردیا تھا ،اسی کا ثمرہ ہے کہ ہندوستان میں غیر مذہبی بنیاد پر ریاست کی تشکیل دستور کے آرٹیکل ١٤,١٥ اور ١٦ میں لکھا گیا۔
شہریت ترمیمی ایکٹ ٢٠١٩ کے تحت جو کچھ ہوگا، وہ مذہب کی بنیاد پر تفریق ہے۔ شہریت ایکٹ ١٩٥٥ اس کے لئے مبنی بر عقل اساس فراہم نہیں کرتا کہ ہندوستان ہندوؤں کے لئے ایک طبیعی ( نیچرل ) ملک ہے۔ ١٩٨٥ میں آسام معاہدےکے بعد شہریت ایکٹ میں ترمیم ان لوگوں کو راحت دینے کے لئے کی گئی تھی، جو غیر قانونی طور پر ملک میں پائے گئے تھے۔ اس میں ٦ اے(٤) کے تحت ایسے غیر قانونی مہاجرین ( گھس پیٹھیوں) کے لئے تمام حقوق و مراعات تسلیم کیے جائیں گے سوائے اس کے کہ ان کو دس سال تک ووٹ ڈالنے کا حق نہیں ہوگا۔ (١٩٨٥ کے ترمیم شدہ ایکٹ کی موجودگی میں) واقعی حالیہ ترمیم کی ضرورت نہیں تھی اس لئے کہ غیر قانونی طور پر ہجرت کر کے آنے والوں کے مسئلے کی ترمیم ١٩٨٥ میں رعایت رکھی گئی ہے۔
امت شاہ کی یہ دلیل کہ ‘حالیہ شہریت ترمیم ایکٹ مسلمانوں سے ان کا حق شہریت نہیں چھینتا ہے اس لیے اس ایکٹ کو مسلم مخالف ایکٹ نہیں کہا جاسکتا’, ایک کمزور دلیل ہے اس لیے کہ ان سب باتوں کے باوجود نیا ترمیم شدہ ایکٹ بھید بھاؤ والا ہی ہے۔ عدالت کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا ایک بھید بھاؤ والا قانون جو مسلمانوں کی شہریت کے حقوق کو متاثر نہیں کرتا، وہ دستور ہند کے آرٹیکل ١٤,١٥ اور ١٦ کے لئے تسلی بخش ہے؟یہ دلیل نہیں دی جا سکتی کہ مساوات کا حق ان کے لئے ہے، جو یہاں کے شہری ہیں اور یہ حق کہ کسے شہریت دینا ہے اس پر لاگو نہیں ہوتا۔
یہ دلیل کہ افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی مذہبی اقلیتوں کی حیثیت شہریت حاصل کرنے کے بعد دیگر شہریوں بشمول مسلم کے مساوی ہوگی، اصولاً اور قانوناً درست نہیں ہے۔ مذکورہ تین مسلم ممالک کے متاثر مذہبی اقلیتوں کو مظلوم کہے بغیر بھی شہریت دی جا سکتی تھی۔ ان ممالک میں مذہب کی بنیاد پردبائی گئی اقلیتوں کو لینے کی پیچیدگیاں اس سے بہت زیادہ ہے، جتنا بی جے پی کے قانون سازوں نے تصور کیا ہے۔:
١ – یہ ایکٹ ان تین ممالک کی حکومتوں پر ظلم کا الزام لگانے والا ہے، نتیجتاً ان ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم رکھنا مشکل ہوگا۔
٢- ہندوستان ان ممالک کی مذہبی اقلیتوں کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے، جس طرح سری لنکن تمل اور فیجی انڈین کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔
ایسا لگتا ہے یہ پالیسی( اس سے قطع نظر صحیح ہے یا غلط) مصلحت اور مخصوص مفاد پر مبنی ہے اور وہ مفاد آسام میں موجود غیر قانونی طور پر آئے بنگلہ دیشی ہندو مہاجرین کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ مذہب اور نسل کی تفریق کے بغیر تمام غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ یکساں طور پر حل کیا جائے اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا ہے تو یہ کہنا پڑے گا کہ بھارت ہندوؤں کا طبیعی وطن ہے اور یہ کہ ہندوؤں کو ہندوستان آنے کی استحقاقی مراعات حاصل ہوگی جس میں شہریت بھی شامل ہے۔
بی جے پی اور اس کے نظریاتی سرپرست آر ایس ایس ہندو راشٹر میں یقین رکھتے ہیں۔یہ نظریہ کہ ہندوستان ہندوؤں کے لئے ہے نظریاتی طور پر چالیس کی دہائی والی مسلم لیگ کے اس ایقان کے مساوی ہے کہ پاکستان بر صغیر ہند کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ جس دن ہندوستان ان لوگوں کا ملک ہو جائے گا جو ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں اسی دن اصولاً اور قانونی طور پر دوسرے تمام مذاہب( بشمول اسلام) کے ماننے والوں کی حیثیت اس ملک میں غیرملکی پردیسی کی ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ بھی ہوگا کہ ہندوؤں کے علاوہ کسی اور مذہب کے ماننے والے اس ملک میں مخصوص بڑے عہدوں کے اہل نہیں ہوں گے۔
جو لوگ اس نئی ترمیم کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں،ان کی نظر مستقبل میں نمودار ہونے والی انہی ممکنہ پیچیدگیوں پر ہے؛ اسی لئے وہ اس ایکٹ کے خلاف اپنی آواز اٹھا رہے ہیں اور اس قانون کو تفریق اور بھید بھاؤ والا قانون مان رہے ہیں اس لیے کہ بظاہر یہ ایسا ہی نظر آرہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی، امت شاہ اور حکومت کے دوسرے نمایندوں کو اس کی بہت وضاحت کرنی پڑے گی۔ عمومیت کے ساتھ انکار کرنا (اور یہ کہنا کہ اس سے کوئی متاثر نہیں ہوگا) کافی نہیں ہوگا اور محض یہ کہہ کر لوگوں کو مطمئن نہیں کر پائیں گے۔ اس ترمیم کو رد کیاجاناچاہیے اس لیے کہ اس کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ پہلے سے موجود شہریت ایکٹ ترمیم ١٩٨٥ غیر قانونی مہاجرین کے مسئلے کا خیال رکھتا ہی ہے۔
ہندوستان ہندوازم کی جائے پیدائش ہے اور گزشتہ تین ہزار سال کے دوران یہاں اس کا ارتقا ہوا،یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس میں کلام کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے، مگر یہ جدید ریاست میں گفتگو کا حصہ نہیں ہے۔ اس ملک نے ١٩٥٠ میں دستور کو اپنایا اور اس روز سے یہ ایک ماڈرن اسٹیٹ ہے۔ ١٨٥٧ سے ١٩٤٧ تک ہندوستان برطانوی استعماریت کے تحت رہا اور ١٥ اگست ١٩٤٧ سے ٢٦ جنوری ١٩٥٠ تک برطانوی شہنشاہیت کی زیر نگرانی (محروسہ ریاست) رہا۔جدید ریاست کے دستور کا اپنا ایک قانونی اور علاقائی وجود ہے، یہ تہذیبی اور تمدنی روایات سے جڑا ہوا نہیں ہے اور نہ اسے اس سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔

(اصل مضمون ۳جنوری کوروزنامہ ٹائمس آف انڈیامیں شائع ہواہے)

You may also like

Leave a Comment