Home نقدوتبصرہ ہندتو انتہا پسندی ، نظریاتی کشمکش اور مسلمان پر ایک نظر – نہال صغیر

ہندتو انتہا پسندی ، نظریاتی کشمکش اور مسلمان پر ایک نظر – نہال صغیر

by قندیل

ہندوستان کے موجودہ حالات سے مسلمانوں میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے مسلمانوں میں خوف ہراس پھیل رہا ہے ، حالانکہ یہ درست نہیں ہے کہ مسلمان خوف و ہراس میں مبتلا ہیں ۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ملت کی قیادت کا دعویٰ کرنے والوں میں انتشار اور فساد جیسی صورت حال ہے اور ملت کے وہ قائد جنہوں نے لیڈری سے اچھی خاصی دنیا بنا رکھی ہے وہ حب مال و جاہ کے چلے جانے کے خوف سے لرزیدہ ہیں ۔ ایسے ماحول میں جبکہ امت کی ناؤ گرداب میں پھنسی ہوئی ہے اور کوئی اس کی رہنمائی کرنے والا نہیں ہے سید سعادت اللہ حسینی کی تحقیقی کتاب ’’ہندتو انتہا پسندی ، نظر یاتی کشمکش اور مسلمان‘‘ ان حالات سے نکلنے میں رہنمائی کرتی ہوئی نظرآتی ہے اور مسلمانوں کو راہیں بھی دکھاتی ہے۔مصنف کتاب کے دیباچہ میں لکھتے ہیں ’’فرقہ پرست طاقتوں کی پید اکردہ خرابیاں اور شر انگیزیاں مستقبل قریب میں ، ملک میں دیر پا اصلاحات کا ذریعہ بنیں گی ۔ اہل اسلام کو بھی اس میں اہم رول ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے ۔آج کے حالات پر نوحہ و ماتم میں اپنی ساری توانائی ضائع کرنے کے بجائے ہم آنے والے کل کا اندازہ کریں اور ان بحثوں کو اٹھانے کی کوشش کریں کہ ملک کے تمام لوگوں کو عدل و انصاف اور مساوی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے فرقہ پرستوں کی شر انگیزیوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کیلئے ہمارے ملک میں مزید کیا اصلاحات درکار ہیں ؟‘‘۔واضح ہو کہ مصنف سید سعادت اللہ حسینی جماعت اسلامی ہند کے موجودہ امیر ہیں اورقرآن و سنت کے ساتھ ہی تاریخ و سماجیات پر بھی ان کی گہری نظر ہے ۔
کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے (۱) نظریات و نظام فکر (۲) مقابل قوتیں اور ان کی ناکامیاں (۳) عدل پر مرکوز متبادل بیانیہ (۴) آگے کی راہ ۔ مصنف نے حصہ سوم کو کتاب کا سب سے اہم حصہ قرار دیا ہے جس میں عدل پر مرکوز متبادل بیانیہ کو عام کرنے سے متعلق گفتگو کی گئی ۔ لیکن میری نظر میں کتاب کا سب اہم حصہ آخری یعنی حصہ چہارم ہے جس میں اس بات پر توجہ مرکوز کرائی گئی ہے کہ ان حالات میں مسلمانوں کو کرنا کیا ہے؟ ویسے کتاب کاہر حصہ اپنی گفتگو کے حساب سے اہم ہے ۔ جیسے کہ پہلے حصہ میں نظریات و نظام فکر کے عنوان سے موجودہ حکومت کے نظریات ان کے فکری نظام کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ۔ یہ بات اپنی جگہ پر مسلم ہے کہ جب تک ہم اپنے مقابل قوتوں اور نظریات کے تعلق سے آگاہ نہیں ہوں گے ان سے مقابلہ نہیں کرسکتے اور نا ہی ان کے حملوں سے خود کو یا اپنی قوم کو بچا سکتے ہیں ۔ دوسرے حصہ میں ہندتوا کی مقابل قوتوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے کہ آخر وہ ہندوتوا نظریات کے سامنے کیوں ڈھیر ہوگئیں ۔ ان میں دو اہم تحریکیں اول دلت اور دوئم اشتراکی تحریکیں ہیں ۔ مصنف نے مقابل قوتوں کی بے اثری یا ناکامی کی اہم وجہ ان کا اپنے اہداف سے منھ موڑنا بتایا ہے ۔ جیسے کہ انہوں نے نظریاتی لڑائی کو بعد میں حصول اقتدار کا ہدف بنالیا اور ان کی گرفت تحریک پر کمزور ہوتی گئی، جبکہ ہندوتوا نظریات والوں نے اپنی چالاکیوں سے انہیں اقتدار میں شامل تو کیا مگراسی راستے سے انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرکے ریزہ ریزہ کردیا اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ آر ایس ایس نظریات والی پارٹی مسلسل پیش قدمی کر رہی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا مد مقابل کوئی نہیں ہے ۔ جن لوگوں سے ہندوتوا کا مقابلہ تھا ان کے بارے میں بتایا ہی جاچکا ہے کہ وہ ریزہ ریزہ ہوچکے ہیں اس کے لئے ایک مثال کافی ہوگی خود ڈاکٹر امبیڈکر کی بنائی ہوئی پارٹی درجنوں حصوں میں منقسم ہوچکی ہے ۔مصنف نے اس حصہ میں مسلم سیاست کے عنوان سے بھی گفتگو کی ہے مسلمانوں کی حیثیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’مسلمانوں کو جوڑنے والی چیز ان کی نسل نہیں ہے بلکہ ان کے اصول و عقائد ہیں ۔ اصول و عقائد کی بنیاد پر سیاست کا مطلب صرف جئے شری ۔۔۔۔ اور وندے ۔۔۔۔۔۔کی سیاست کا دفاع نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان عدل ، انسانی مساوات ، اعلیٰ اخلاقی اقدار وغیرہ کے نمائندے بن کر ابھریں اور یہ ان کی سیاست بنے ۔ یہی ان کو جوڑ سکتی ہے‘‘۔اسی مضمون کے آخر میں سعادت اللہ حسینی مسلمانوں کو ماضی کوتاہی کے نتائج میں موجودہ سیاسی منظرنامہ پر لکھتے ہیں ’’ایک طرف ہندوتوا کی حامل قوتیں ملک کے سیاسی انتظام کے بہت ہی بنیادی پہلوئوں پر عام ہندوئوں کی سوچ میں تبدیلی لارہی تھیں ،حتیٰ کہ دیہی عوام کو بھی ایک متبادل ہندوستان کا خواب دکھارہی تھیں ،اور دوسری طرف مسلمان صرف اپنے محدود مسائل کے دائرے میں محدود تھے‘‘۔ مصنف نے اسے ماضی کی بات بتائی ہے مگر حالت یہ ہے کہ مسلمان اب بھی صرف اپنے محدود مسائل میں ہی گھرے ہوئے ہیں ۔ سب سے اندوہناک پہلو یہ ہے کہ آج بھی مسلمانوں میں مسلکی عصبیت شباب پر ہے، اس کےخلاف جو آواز ہے بہت کمزور ہے۔
تیسرے حصہ کا عنوان ہے ’’عدل پر مرکوز متبادل بیانیہ‘‘ ، موجودہ حکومت جس کی سربراہی ہندوتوا وادی نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کررہی ہے ۔اس نے اپنے مقصد کے حصول کیلئے سو سال سے زائد عرصہ محنت کی ہے اور یہ ہمہ جہت ہے ۔ انہوں نے تعلیم ، سیاست ،معیشت اور معاشرت سمیت سبھی کو اپنا ہدف بنایا ۔ اس کے مد مقابل جو بھی اس مقصد سے آئے گا کہ اس نظریہ کی تباہ کاری سے ہندوستانی عوام کو نجات دلانا ہے اور ایک ایسی حکومت کے قیام کو یقینی بنانا ہے جو ملک کے سبھی فرقوں اور علاقوں کی ترقی کےلیے یکساں کام کرنے والی ہو، اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک ایسا بیانیہ ملک کے عوام کے سامنے پیش کیا جائے جو انہیں اپیل کرے اور یہ بیانیہ عدل پر مرکوز بیانیہ ہی ہو سکتا ہے ۔ اسی مقصد سے مصنف نے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ضخامت کے حساب سے اس عنوان کو انہوں نے پچاس فیصد جگہ دی ہے ۔مصنف نے قرآن کے حوالہ سے بتایا ہے کہ عدل و قسط مسلمانوں کا مشن ہے ۔ انہیں دنیا میں عدل و مساوات کے قیام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ۔ہم سب یہ جانتے ہیں کہ اس ملک میں ظلم و ناانصافی کا راج صدیوں سے قائم ہے ۔ آج کی اس جمہوری حکومت میں بھی پسماندہ طبقہ اعلیٰ ذات کی جانب سے ظلم و درندگی کا شکار ہے ۔ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری تھی وہ قرآن کے حکم کے مطابق انصاف کے علمبردار بنتے اور اللہ کے ان مظلوم بندوں کو عدم مساوات کے اس ماحول سے نکالتے ۔تیسرے حصہ کے بارے میں خود مصنف کی رائے ہے ’’ مسلم سیاست کو پورے ملک کیلئے ایک بہتر پالیسی اور نظریے کا وکیل اور علمبردار بن کر سامنے آنا چاہئے ، اس لئے ہم نے اس پالیسی اور نظریے کو تفصیل سے واضح کرنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
ہمارے یہاں موجودہ حکومت جو اپنے دوسرے ٹرم کے اختتام پر ہے اس کے تعلق سے عام خیال یہ ہے کہ احتجاج و مظاہرہ اور حکومت کو نظریاتی طور پر سپورٹ کرنے والی تنظیم آر ایس ایس اور اس کی دوسری تنظیموں کےخلاف احتجاج نیز ان کی بے تکی مخالفت سے انہیں اقتدار سے بے دخل کردیں گے۔لوگوں کے اس رویہ پر تعلیمی نظریات و نظام تعلیم کے باب میں مصنف اپنے خیالات کایوں اظہار کرتے ہیں ’’جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے وسیع اثرات کا وقتی احتجاجوں اور مزاحمت سے مقابلہ کرلیں گے وہ کتنی سادہ لوحی کے شکار ہیں۔ تعلیمی محاذ پر ایک لمبی اور صبر آزما جد و جہد کے بغیر اس تحریک کا اور اس کے پیش کردہ چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں ہے‘‘۔ موجودہ ماحول اور موجودہ حکومت سے نجات کیلئے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت ہے ۔ جیسے انہوں نے اپنی صد سالہ محنت کے بعد ہندوستان کا اقتدار حاصل کیا ہے ، اسی طرح سنجیدہ کوشش اور طویل صبر آزما جد و جہد کے بعد ہی اس سے نجات ممکن ہے ۔مصنف کی ساری تحقیق اور ان کے مشوروں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے، مگر ایک بات جو انہوں نے پہلے حصہ ’’نظریات و نظام فکر‘‘ میں لکھی ہے کہ آر ایس ایس اور وائس آف انڈیا دو الگ الگ تنظیمیں ہیں جس میں وائس آف انڈیا کو زیادہ سخت گیر قرار دیا ہے جو صحیح بھی ہے لیکن یہ درست نہیں ہے کہ آر ایس ایس اور وائس آف انڈیا جیسی تنظیمیں الگ الگ ہیں ۔ قانونی و ظاہری طور پر تو وہ علیحدہ ہوں گی مگر یہ ساری تنظیمیں نظریاتی طور پر سنگھ سے ہی تعلق رکھتی ہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھی اس طرح کے افراد ہیں جو خرابی کی اصل جڑ اسلام کو قرار دیتے ہیں ۔ یوٹیوب پر ان کے تجزیے اور تبصرے موجود ہیں ۔ یہ تنظیمیں اپنا علیحدہ علیحدہ وجود دکھاتی ہیں تاکہ زیادہ خوف پیدا کرکے مسلمانوں کو اپنے دام میں پھنسایا جاسکے۔ یہ ان کے کام کرنے کا ایک طریقہ ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل ایک اردو روزنامہ کو انٹر ویو دیتے ہوئے وشو ہندو پریشد کے صدر نے ہجومی تشددکے مجرموں سے لاتعلقی کا اظہارکیا تھا اور بظاہر بہت نرم لہجہ اپنایا تھا ۔
کتاب کا آخری حصہ’’ آگے کی راہ‘‘ میں مصنف نے عملی اقدام کی جانب توجہ دلائی ہے ۔کسی بھی حالت میں مسلمان کسی خوف میں مبتلا نہیں ہوسکتا ، حالات خواہ کیسے بھی ہوں مسلمانوں کا ایمان اللہ پر ہوتا ہے اور وہ اسی کے بھروسہ سارے کام کرتا ہے ۔مصنف نے کچھ نکات کی جانب توجہ دلائی ہے جو مشورہ بھی ہے اور مستقبل کا روڈ میپ بھی (۱) اندیشوں کی زبان نہیں بلکہ عمل کی زبان (۲) الزامات کی زبان نہیں بلکہ مطلوب نتائج کی زبان(۳) ردعمل کی زبان نہیں بلکہ پیش قدمی کی زبان ۔یعنی خوف الزام تراشی سے باہر آکر کچھ عملی اقدام کرنے کی ضرورت ہے ۔کتاب کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے مصنف نے اپنی رائے پیش کی ہے کہ ’’ملک کے عوام کو بہترمتبادلات کے خواب دکھانے چاہئیں اور متبادلات ہی کو ہماری سیاسی تحریکات کا اصل حوالہ بننا چاہیے ‘‘۔ کتاب اپنے عنوان کے حساب سے بہت اچھی ہے ۔ یہ یقینی طور سے ہندوستانی مسلمانوں کو موجودہ دور سے نکلنے میں رہنمائی کرے گی ۔۴۷۶ صفحات پر مشتمل عمدہ کاغذ اور طباعت سے آراستہ ایسی کتاب جو آپ کو تحقیق کے ذریعہ ایسی شاہراہ دکھائے گی جس کے ذریعہ ملت شاندار ماضی پھر لوٹ سکتا ہے۔ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی نے شائع کی ہے ۔قیمت پانچ سو روپئے ہے اور ممبئی میں مکتبہ اسلامی چونا بھٹی مسجد ،بھنڈی بازار اور مکتبہ جامعہ، پرنس بلڈنگ ،نزد جے جے ہسپتال میں دستیاب ہے ۔

You may also like

Leave a Comment