ترجمہ : ڈاکٹر ثنا کوثر
برہمہ لوک میں’’ دیو رشی نارد‘‘ عمیق فکر میں مبتلا ہیں۔گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے نارد زمین پر ہو رہے تغیرات سے متعلق خود سے ہی باتیں کر رہے ہیں۔ـ’’آجکل دنیا میں کوئی وباء پھیلی ہوئی ہے۔آہ۔ ایسی چھوت کی بیماری پہلے کبھی نہیں پھیلی۔‘‘ فکر کی اسی حالت میں نارد، برہمہ جی کے مراقبے میں حاضر ہوتے ہیں۔برہمہ جی کی توجہ اپنی طرف ہونے سے متعلق نارد سوچتے ہیں کہ : یہ تو اس دنیا کے خالق ہیں ان کی فکر کی اساس ضرور ہی زندگی سے جڑی ہوئی ہے۔پورے عالم میں پھیلی اس وباء اور عوام کی تباہی سے متعلق نارد فکر میں مبتلا برہمہ جی کے سامنے ایک نظر لگائے دیکھتے ہیں ، تبھی برہمہ دیو کا خیال یکایک نارد کی طرف آتا ہے۔برہمہ دیو کودیکھتے ہی نارد سجدے کی حالت میں بیٹھ جاتے ہیں ۔برہمہ ، نارد کو اٹھنے کے لیے کہتے ہیں ۔ تبھی نارد جی بول پڑتے ہیں:
’’آپ کی تخلیق کی ہوئی اس دنیا میں انسانیت چیخ رہی ہے۔عوام کرونا وائرس سے ڈری ہوئی ہے،روز سیکڑوں لوگ موت کے منھ کا نوالا بن رہے ہیں۔آپ ، عالم میں پھیل رہی اس وباء کو ختم کیجیے۔‘‘
برہمہ دیو ، نارد کی دماغی حالت سمجھ کر آہستہ سے کہتے ہیں:’’ نارد تم فلسفی ہو، ذرا سوچو۔ قدرتی قوتیں سبھی کے لیے یکساں ہیں۔سورج کی روشنی پورے عالم کے لیے خوبیوں کا خزانہ ہے۔آگ کا مذہب جلانا ہے، پانی کا مذہب ٹھنڈی نرمی دینا ہے اور زمین کا مذہب اپنے اندر سمانے کا ہے۔ اسی لیے اس کا نام ’’دھرتری‘‘ بھی ہے۔انسان جو بھی کام کرتا ہے ۔اسے وہی بھوگنا ہوتا ہے۔آج دنیا میں انسان اپنے غرور میں مبتلا ہے۔اسی میں پھنسا ہوا ہے۔ ایسے میں وہ نہ تو سائنس کا ماننے والا ہے اور نہ ہی روحانیت کا۔‘‘
نارد۔’’بھگون‘‘ آپ نے مجھے راستہ دکھا کر مجھ پر احسان کیا ہے۔برہمہ جی : کیا کام اور فعل ایک ہی ہیں یا ان میں کوئی فرق ہے؟
برہمہ دیو اس صورت حال کو دیکھ کر کہتے ہیں:
نارد، ’’تمہاری حکمت عملی فلسفیانہ رہی ہے ۔ کام اور فعل کا معنی سمجھنا تمہارے جیسے عالم برہمہ رشی کا ہی جواز ہے۔دماغ سے جو ہم فکرو خیال کرتے ہیں ،وہ کام کے زمرے میں آتا ہے اور کام ہمیشہ رہنے والا ہے۔کیوںکہ ان کا محور روح ہے۔اسی لیے ہماری فکر کی کڑیاں ہی ہمیں پھل دیتی ہیں ۔دوسری طرف فعل کی قوت محدود ہیں۔وہ کام کے برابر نہیں ہیں۔انسانی فکر کا مادّہ ہی اس سے صحیح اور غلط کام کراتا ہے۔ہمارے جسم کی قوّت بھی محدود ہے۔لیکن روح کی قوّت لا محدود ہے۔‘‘
نارد۔’’ بھگون‘‘ مجھے احساس ہوا کہ کام کا برا اور اچھّا بھوگنا لاحق ہے۔آپ نے میری فکر کو فلسفی زاویوں سے جوڑا ہے۔مجھے دنیا کے لوگوں کے فنا ہونے کی فکر ہے۔آپ نے مجھے اچھے اور برے سے متعلق اپنے خیالات پیش کرنے کا حق دیا ہے۔میں پورے عالم میں پھیل رہی،انسان کو فنا کرنے والی وباء سے محفوظ کرانے کے لیے آپ سے گزارش کرتاہوں۔‘‘
تبھی برہمہ دیو، اپنی قوّت عملی سے چمگادڑ، چوہے، سانپ وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے جسموں میں قوت گویائی بھر دیتے ہیں۔ان چھوٹے جسموں کا وجود بھاری ہونے لگتا ہے۔تبھی چمگادڑ کی دیوی اپنے غموں کا بیان کرنے لگتی ہے:
’’بھگون، ماحولیاتی علاج کے لیے آپ نے ہماری تخلیق کی اور دنیا کی ترقی میں مدد کرنے کو کہا۔ ایسا کبھی نہیں دیکھا سنا گیا ہوگا کہ انسان ہمارے جوس اور ہڈیوں سے مزہ لیں۔اس دنیا میں چین ملک میں ہمارا رس نکال کر انسان جوس بنا رہا ہے۔ہمارے پاس بھی کرونا وائرس کے چھوٹے چھوٹے جراثیم موجود ہیں۔جو چھوت کی بیماری کی وجہ ہیں۔جب ہمیں تباہ کیا گیا تو ہم نے کرونا وائرس کو وہان شہر میں پھیلا دیا۔آج وہیں سے یہ عالمی وباء کا روپ لے چکا ہے۔یہ ہم چمگادڑوں کا بدلا ہے۔‘‘
برہمہ دیو سب سمجھ رہے ہیں۔تب نارد چمگادڑ کی دیوی سے کہتے ہیں کہ’’اے دیوی؛ جب وہان (چین) سے تم نے بدلا لیا ، تب یہ وباء پورے عالم میں کیوں پھیل رہی ہے؟
دیوی کہتی ہیں؛ رشی ور، عالمی وباء ہم نے نہیں پھیلائی۔یہ برے لوگوں نے پھیلائی ہے۔ جیسے ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے، ویسے ہی کچھ برے لوگوں نے ہمیں اپنا کھانا بنایا۔ تب ہم نے بھی اپنے وائرس کی قوت سے انھیں نقصان پہنچایا۔پھر انھیں لوگو ں نے اسے عالمی وباء بنایا ہے۔‘‘
چمگادڑ کا روپ غائب ہوا۔تبھی یکایک سانپوں کے چھوٹے روپ ظاہر ہوئے اور بولے۔’’ دیو رشی ؛ آپ سب کے لیے یکسانیت کا پیغام دیتے آئے ہیں۔ بھگوان شنکر تک نے ہمیں گلے کی مالا بنایا ہے۔ماحولیاتی علاج کے لیے ہم نے سب کچھ قربان کر دیا۔اس کے باوجود چینی باشندے ہمیں زندہ کھا جاتے ہیں۔کیا یہ ہماری سانپ قوم کے ساتھ ظلم نہیں ہے؟
نارد حیران ہیں ؛ تبھی اچانک چوہوں کا روپ سامنے آ کھڑا ہوا۔بولا، دیو رشی ہمارا کیا قصور تھا ۔ ہم تو برہمہ دیو کی اجازت سے ماحولیاتی علاج میں کام کرتے آئے ہیں ۔اس کے بعد بھی ہماری قوم خطرے میں ہے۔چین کے لوگ ہمیں ختم کر رہے ہیں۔’’یہ سننے کے بعد نارد سہمے ہوئے، الجھے ہوئے، پریشان ، آنکھ بند کر لیتے ہیں ۔‘‘ چھوٹے چھوٹے یہ روپ غائب ہو گئے ،تب برہمہ دیو نے نارد سے کہا،تمام رشیوں میں شریشٹھ نارد ؛ تمیں تمہارے سوالوں کا جواب مل گیا۔ اب تم ہی بتاؤ ، پورے عالم میں پھیل رہی کرونا وائرس کی وجہ روحانی قوت ہے یا شیطانی تہذیب؟ انسان اپنے کاموں کی سزا خود ہی جھیل رہا ہے۔(یہ سن کر نارد قبول کرنے میں سر ہلا رہے ہیں)نارد اپنی تخیلی فضا سے باہر آتے ہیں۔ ان کا تمام فلسفی علم ان چھوٹے جسموں کے سامنے گم ہو جاتا ہے۔برہمہ لوک میں نارد کا روحانی علم اس لیے سست ہو رہا ہے کہ آج انھیں انسانی تہذیب و تمدّن کی خوفناک سچّائی کا علم ہو گیا۔اب انھیں کرونا وائرس کے پھیلنے کی وجہ سمجھ میں آگئی۔’’دانشمندانہ انداز میں نارد کہہ رہے ہیں کہ زندگی ہی افضل ہے۔‘‘