یورپ میں فرانس بھی ایک ملک ہے جس کی ایک زمانہ تک مغرب،تیونس اور الجزائر وغیرہ مسلم ممالک پر حکومت رہی ہے اس زمانہ میں بے شمار مسلمان روزی روٹی کمانے کے لئے فرانس گئے اورہاں بس گئے ان کو وہاں اب شہریت کے حقوق حاصل ہیں، اس کے علاوہ بھی بین الاقوامی قانون کے پیش نظر بے شمار مسلمان اپنے ملکو ں کے تنگ حالات سے عاجز ہوکر جس طرح یورپ اور امریکہ کے بہت سے ملکوں میں گئے اور ٹھہر گئے اسی طرح فرانس بھی گئے اور وہیں بس گئے، ان لوگوں کو خاص طور پر یورپ میں، یورپی لوگوں کی طرح کم وبیش حقوق حاصل ہیں اور اگر ابھی نہیں ہیں تو کچھ مدت کے بعد حاصل ہوجائیں گے،وہاں کی حکومتوں نے ان کو قبول کیا بودوباش کی سہولتیں پورپین لوگو ں کی طرح ان کو مہیا کیں،یہ لوگ اپنے ملکوں میں جس طرح کے کام کا تجربہ رکھتے تھے یہاں دھیرے دھیرے انہوں نے ان ہی کاموں کو شروع کیا اور اس میں ایسی ترقی کی جوو ہاں کے ایک طبقہ کی آنکھوں میں گڑ نے لگی، چنانچہ ان میں فرقہ پرست ذہنیت رکھنے والا ایک عنصر کم وبیش ہرجگہ ملتا ہے جو ایسی چیزوں کو دیکھ کر روزبروز ترقی کررہا ہے کہ کل کے آئے ہوئے اجنبی یا کالے،یہ لوگ ہمارے ملک کی معیشت پر اثر انداز ہوتے چلے جارہے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جو آئے دن مسجدوں کو توڑتے پھوڑتے رہتے ہیں آگ لگاتے رہتے ہیں اور بے قصور نمازیوں کو قتل کرتے رہتے ہیں۔
اس امر واقعی کے بعد قابل غور ہے کہ فرانس میں اس وقت رونما ہونے والا واقعہ نامرضیہ اپنے دورخ رکھتا ہے:ایک تو گورنمنٹ کا موقف ہے، جس میں آزادی رائے کا مطلب زبان اور قلم کی ایسی غیر محدود آزادی ہے جس سے نہ کسی مرد کی عزت و آبرو محفوظ ہے نہ عورت کی نہ کسی بزرگ کی اور نہ کسی پوروج اور سلف کی، دنیا کے کسی بھی پاکیزہ ترین شخص کا جیسا چاہو کارٹون بناکر پیش کردو،اورآزادی رائے کی بناء پر وہ کسی بھی قانون کی گرفت سے باہر اور آزاد ہے، اور پھر مزید برآن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہندوستان جیسا مشکلات میں پھنسا ہوا ملک اسی آزادی رائے کی تائید کرتا ہے،وہ یہ نہیں سمجھ رہا ہے کہ آزادی رائے کا یہ مطلب اگرہندوستان جیسے مختلف المذاہب ملک میں رائج ہوجائے تو کیا ہندوستان کے طول وعرض میں ایک دن بھی امن رہ سکتاہے، مگر براہوتعصب اورنفرت کی ذہنیت کا کہ پیداہونے والے مفاسد اورنتائج سے بالکل غافل ہوکر لامحدود آزادی رائے کی تائید کردی حالانکہ کچھ متعصب میڈیا کی طرف سے لامحدودآزادی رائے کے حق کومانتے ہوئے کسی خاص مذہب کوماننے والوں کی دل آزاری کی بنیاد پر ہندوستان کی کچھ عدالتوں میں پھٹکارپڑچکی ہے اور جمعیۃعلماء ہند کی طرف سے اس سلسلہ میں ایک پٹیشن سپریم کورٹ میں لگی ہوئی ہے توقع ہے کہ اس کا فیصلہ آزادی رائے کے لامحدود ہونے کے خلاف ہی ہوگا، جس کے بعد انشاء اللہ مذہب کو بنیادبناکر مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کا سلسلہ قانونا بند ہوسکے گا۔
اس واقعہ نامرضیہ کا دوسرارخ چاقو کے وہ حملے ہیں جو یکے بعد دیگرے فرانس اوردنیا کے دوسرے ملکوں میں رونما ہورہے ہیں جن میں قصور وار کم اوربے قصورزیادہ مرداورعورت موت کا شکارہورہے ہیں، کیا کسی کی محبت ہی میں سہی ملک کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ اورکیا ناعاقبت اندیش چند مسلمانوں کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا دنیاکے عیسائی ملکوں میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے لئے خیرکا باعث ہوسکتاہے؟اگر اس طرح کے واقعات کے بعد وہ فرقہ پرست تنظیمیں جو ان ملکوں میں پروان چڑھ رہی ہیں مسلم اقلیت کے خلاف سرگرم عمل ہوں، توان کروڑوں مسلمان اور ان کے بچوں کا کیا ہوگا جوان ملکوں میں زندگی گزاررہے ہیں، جبکہ فرانس میں کم وبیش 57/لاکھ (تقریبا۹ فیصد) اور اس سے ملے ہوئے ملک جرمنی میں 50 /لاکھ(تقریبا6 فیصد)اوربرطانیہ میں 41/لاکھ(تقریبا 6.3فیصد) اور سویڈن میں 8/لاکھ،(تقریبا 8.1فیصد) آسٹریامیں 7/لاکھ (تقریبا8فیصد) اٹلی میں 29/لاکھ(تقریبا 5فیصد) ہالینڈمیں کم وبیش 8لاکھ سے زیادہ (تقریبا 5.1فیصد) (ماخوذویکی پیڈیا:Islam By Country)مسلمان آباد ہیں، اب ایک مرتبہ نہیں دس مرتبہ سوچنے کی بات ہے کہ اگرچند مغلوب الغضب لوگوں کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے نتیجہ میں وہاں کی فرقہ پرست طاقتوں کو قوت مل گئی اور اگر خدانخواستہ پس پردہ وہاں کی حکومتوں کی سرپرستی بھی ان کو حاصل ہوگئی تو پورے یورپ میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کا مستقبل کیا ہوگا میں یہ نہیں کہہ رہاہوں کہ آپ اس کالے قانون یا ٹیچر یا کسی کمپنی کے قابل نفرت نظریہ پر احتجاج نہ کریں لیکن میرے خیال میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا بدامنی اورقتل وقتال کوعمل میں لانا نہ اسلام کی ان ملکوں میں صحیح تصویر پیش کرتاہے اور نہ وہاں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے مستقبل کو قابل اطمینان بناتاہے، میں اس بات کو اس لئے کہہ رہاہوں کہ ہم اپنے ملک میں اسی طرح کی سیاست کے پچاسوں سال سے شکار ہیں ہمارے ملک میں ہندوبھائی گائے کی پرستش کرتے ہیں اب مسلمان کے گائے ذبح کرنے کی بناپر یا صرف بہانہ بناکرقانون کو اپنے ہاتھ میں لئے جانے کا واقعہ پیش آتاہے اورمسلمان کاخون کردیا جاتاہے توجب ہم یہاں عوام کے قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی مخالفت کرتے ہیں توہم فرانس میں اس کی مخالفت کیوں نہیں کریں گے، میراخیال یہ ہے کہ جس طرح آج پوری دنیا میں مسلمان فرانس کے خلاف سراپا احتجاج بناہوا ہے اگر آج سے پہلے لامحدود آزادی رائے کے خلاف کھڑا ہوجاتاتووہ ایک بہترین تصویر ہوتی اورسانپ مربھی جاتالاٹھی بھی نہ ٹوٹتی۔
میراخیال ہے کہ بین الاقوامی احتجاج کے نتیجہ میں آج جب فرانس کے صدر بھی یوٹرن کی طرف چل رہے ہیں، توہندوستانی حکومت اور ارباب اقتدار کو بھی اپنے ملک کی آبادی اورحالات کو دیکھتے ہوئے فرانس کے موقف سے پیچھے ہٹناچاہئے اور اربوں مسلمانوں کی دل آزاری سے دورہوجانا چاہئے