Home تجزیہ ہند-چین سرحدی تنازعہ:بائیکاٹ پر حکمت کو ترجیح دی جائے-عبد السلام عاصم

ہند-چین سرحدی تنازعہ:بائیکاٹ پر حکمت کو ترجیح دی جائے-عبد السلام عاصم

by قندیل

چینی روزنامہ گلوبل ٹائمز کی ایک تازہ رپورٹ میں حالیہ ہند چین سرحدی تنازعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندستان کو مشورہ دیا گیا ہے کہ وہ امریکہ اور چین کے بڑے تصادم میں شامل نہ ہو۔ تبصرے میں اس مشورے کا رُخ منظم طور معیشت کی طرف موڑا گیا ہے اور اُسے ایک انتباہ کی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ذو قطبی سمت میں بظاہر نئی سرد جنگ کی طرف بڑھتی ہوئی دنیا میں ہندستان کا امریکی محاذکا حصہ بننا اس کی معیشت اور خطے میں اس کے مفادات کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ تبصرہ کتنا حقیقت پسندانہ یابھرم پیدا کرنے والا ہے اس سے قطع نظرہندستان اور چین کے اقتصادی تعلقات پر ایک طائرانہ نظر ڈال کر بھی اُس عدم توازن کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے چین کی سوچ میں جارحیت کو فروغ ملا ہے اور ہندستان کو اپنی حکمت کو بہتر بنانے کو تحریک ملی ہے۔ یہ اسی تحریک کا نتیجہ ہے کہ ہندستان نے درون ملک خاص طور پر الیکٹرانکس کی صنعت کو تیزی سے آگے بڑھایاہے۔ باوجودیکہ ابھی ایک لمبے سفر کے بعد ہی ہندستان دیگر صنعت یافتہ ملکوں بشمول چین کی ہمسری نہیں تو کم ازکم ایک دوسرے پر متوازن انحصار کا متحمل ہو پائے گا۔
ہندستان کی الیکٹرانکس کی صنعت اس سلسلے میں بالکل سامنے کی ایک مثال ہے جو ایک طرف تو بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن دوسری جانب اس صنعت کے کوئی تیس فیصدہی کل پرزے اور آلات درون ملک تیار کئے جاتے ہیں۔بہ الفاظ دیگر اس محاذ پر ہندستان کا 70 فیصدانحصار درآمد پر ہے اور یہ ضرورت بڑی حد تک چین پوری کرتا ہے۔حالیہ سرحدی کشیدگی اور اس کے منطقی نتائج کی روشنی میں یہ عدم توازن پہلے مرحلے میں کیسے کم اور پھر مرحلہ وار ختم ہوگا، اس رُخ پرجذباتی سیاست اور فوجی مہم جوئی سے زیادہ حکومت ہند کی متعلقہ وزارتوں اور قومی صنعتی و تجارتی اداروں کے ذمہ داروں کو زیادہ سے زیادہ غور و فکر سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ملک میں اس وقت چینی ساز وسامان کے بائیکاٹ کا جوجذباتی شور برپا ہے وہ اس عام تاثر کا نتیجہ ہے کہ اگر ہمارا تجارتی عدم توازن ختم نہیں ہوا تو نوبت چینی کمپنیوں کی ہندستانی منڈیوں تک بلا روک ٹوک رسائی تک پہنچ سکتی ہے جو ہندستانی صنعت کو ختم کردے گی اور پورا ملک صارف بن کر رہ جائے گا۔ پیداواری سطح پر عدم مطابقت مصنوعات کی قیمتوں کے معاملے میں ہندستان کو چین یا کسی بھی ایسے صنعت یافتہ ملک کا مقابلہ کرنے کا متحمل نہیں چھوڑے گی جو اپنی مصنوعات کی تیاری کے ابتدائی سے انتہائی مرحلے تک درآمدات پر انحصار نہیں کرتے۔اس رخ پر جہاں تک چین کا معاملہ ہے تو اُس پر کرنسی میں ہیرا پھیری کا بھی الزام ہے۔ وہ مبینہ طور پر یہ چال اپنی مصنوعات کی ارزانی کو یقینی بنانے کیلئے کرتا ہے۔
ایسا نہیں صنعت و تجارت کا محاذ صرف ہندستان کیلئے آزمائشوں سے بھرا ہوا ہے۔ایک سے زیادہ اقتصادی سروے بتاتے ہیں کہ چینی معیشت کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے جس میں کووڈ 19 ایپی سوڈ نے نئی پریشانیاں کھڑی کر دی ہیں۔ چین کی ایک سے زیادہ بڑی کمپنیاں یا تو دیوالیہ ہوچکی ہیں یا بند ہونے کے دہانے پر ہیں۔صنعت یافتہ ممالک اس صورتحال کا نوٹس لے کر جہاں محتاط ہو جاتے ہیں وہیں ہندستان کو اس بحران سے (محدود لیکن غیر منفی) فائدہ اٹھانے کی سمت میں غور کرنا چاہئے۔ خلائی اور مواصلاتی تیکنالوجی کے محاذ پر چین کے غیر صحتمند رویے کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے جس چوکسی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے بھی چین کو جھٹکا لگا ہے۔ایسے میں دانشورانہ املاک کے حقوق کے تحفظ کے ذریعہ چین کو ایشیا میں بے لگام سرپٹ دوڑنے سے، براہ پاکستان مرکزی ایشیاکی منڈیاں ہڑپ کرنے سے اور براہ راست مشرق وسطیٰ میں ساہوکارانہ طور پر قدم جمانے کے ساتھ عالمی سطح پرایشیا کی طرف سے تنہا شامل مقابلہ رہنے کی ضد سے روکا جا سکتا ہے۔
عملی طور یہ سب کیسے ہوگا! یہ سوچنا عام آدمی کی سوچ اور جذبات کے دائرے سے باہر ہے۔ عام آدمی کی خفگی اور ناراضگی توڑ پھوڑ کی شکل اختیار کر کے چین کے بجائے ہندستانی معیشت کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بائیکاٹ کا جذبہ غلط نہیں ہے، لیکن باہمی انحصار اور گلوبلائزیشن کے موجودہ عہد میں وقت کی رفتار ایسی سوچ سے آگے بڑھ چکی ہے۔اب دنیا میں کہیں بھی درآمد شدہ کوئی چیز دوسرے کی چیز نہیں ہوتی۔ایسے میں ہمیں چین کا مقابلہ سرحدی وقار پر کسی طرح کے سمجھوتے کے بغیر دانشمندی کے ساتھ کرنا ہے۔اس حوالے سے سر دست جو ذہنی ورزش جاری ہے اس میں صرف ہندستان نہیں، چین بھی شامل ہے اور حالیہ ہلاکت خیز سرحدی کشیدگی لازمی طور اسی کا حصہ ہے۔
چین سے ہماری دشمنی کی نوعیت پاکستان سے مختلف ہے۔ ہم دونوں فرقہ وارانہ دشمن نہیں۔کل تک ہمارا جھگڑا زمین کیلئے تھا، جو آج بھی ختم نہیں ہوا، لیکن اب بڑا مقابلہ معاشی نوعیت کا ہے۔ ہندستان حالیہ برسوں میں اپنی مشرق رخی پالیسی اور دیگر اقدامات کے ذریعہ جس طرح عالمی توجہ کا مرکز بنا ہے چین اس سے قطعی مطمئن نہیں ہے۔ یہ کہا جائے تو بالکل غلط نہیں ہوگا کہ چین ہندوستان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے پریشان ہے۔چینی قیادت حالات کے موجودہ موڑ پر ہرگز نہیں چاہے گی کہ ہندوستان باقی دنیا کی نظر میں ایک علاقائی طاقت بن کر ابھرے۔عجب نہیں کہ اسی لئے وہ ہندوستان کو سرحدی خدشات میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔
ایسے میں درونِ ملک حزب اختلاف کا رول سیاسی حساب چکانے یا برابر کرنے والا نہیں ہونا چاہئے۔اپوزیشن کا ایکدم سے حکومت کے خلاف صف بندہوجانا کسی بھی طرح قومی مفاد اور ہندستان کی بین اقوامی آزمائشوں سے نبرد آزمائی کے حق میں نہیں۔ عام آدمی کو چیخنے اور چلانے کے لئے صرف نعروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بائیکاٹ، احتجاج اور مخالفت کے مسلسل نعرے سے ہم اپنا نقصان تو کر سکتے ہیں، اس خطرے کو نہیں ٹال سکتے جو چین ہمارے سر منڈلاتا دیکھنا چاہتا ہے اور اس کی آڑ میں وہ ہمیں ترقی کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے سے محروم رکھنا چاہتا ہے۔
چین کے برعکس ہم اپنے ملک میں ایک سے زیادہ تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ہماری طاقت بھی اور کمزوری بھی۔طاقت اس لحاظ سے اپنی اس گونا گونی کی وجہ سے ہم دنیا کے مہذب اور جمہوری ملکوں میں اپنی بہترین شناخت رکھتے ہیں۔ کمزوری اس لحاظ سے غیر صحتمند فرقہ وارانہ ذہنیت رکھنے والے ایک ہمساے کی وجہ سے ہمارا معاشرہ بگڑتا چلا جارہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بر صغیر کے بڑے حصے میں معاشرہ صرف جسمانی اور جذباتی طور پر پختہ ہے۔ ذہنی طور پر، زیادہ تر لوگ غیر سائنسی نظریات کے غلام ہیں۔ایسے میں معمولی سا عدم توازن بھی ماحول خراب کردیتاہے۔چین جیسے ملک کو جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا، پڑوسیوں کی ایسی خامیاں اور کمیاں راس آتی ہیں۔ پاکستان اس کی زندہ مثال ہے جو برطانوی کالونی کے بعد اب چینی کالونی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ایسے میں ہمیں حب الوطنی کے تقاضوں کو دانشمندی کے ساتھ پورا کرنا چاہئے تاکہ کسی قسم کی جلد بازی سے بعد میں پچھتاوا نہ ہو۔
اس جمہوری اور غیر جمہوری فرق کے باوجود ہندستان کیلئے چین کے ساتھ صنعتی عدن توازن کو ختم کرنا اب ایک اہم قومی ضرورت ہونی چاہئے۔ اس رخ پر میڈیا کو بھی شعور سے کام لینا چاہئے تاکہ عام لوگوں کو بھی جذبات سے ہٹ کر سنجیدہ غور و فکر کی تحریک ملے۔متعلقہ سرکاری محکموں کے علاوہ صنعت و تجارت کے ماہرین کو خوب پتہ ہے کہ ہمارے یہاں ہر، گھر میں ائیر کنڈیشنر، مکسر، موبائل فون، ٹی وی، ائیر پیوریفائر، ڈیجٹل والٹ وغیرہ کی شکل میں چینی ساز و سامان ہی بھرے پڑے ہیں۔ کچن اور ٹائلٹ کے بھی بیشترضرورت کے سامان چین کے ہی بنے ہوتے ہیں۔یہ جس عدم توازن کا نتیجہ ہے اسی کے سبب ہندستان میں مجموعی چینی سرمایہ کاری کوئی چھ ارب ڈالر کی ہے۔
ایسا نہیں کہ اس کے ادراک سے کبھی کام نہیں لیا گیا اور صورتحال کو یکسر بدلنے سے پہلے اس پر قابو پانے کیلئے سرے سے کوئی قدم اٹھایا ہی نہیں گیا کورونا لاک ڈاون اور معیشت کے ٹھپ پڑ جانے سے متاثر ماحول میں حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘ لوکل کے لیے ووکل’ یعنی دیسی طور پر تیار کردہ ساز و سامان استعمال کرنے کا نعرہ دیا تھا۔ فلپ کارٹ اور ایمیزون نے عملاً اس کا نوٹس بھی لیا۔ اس طرح درون ملک تیار کردہ سازو سامان کی فروخت میں تھوڑا اضافہ بھی ہوا لیکن جو تبدیلی درکار ہے اس کے لئے ابھی ہندستان کے اشیا سازگھرانے اتنے منظم نہیں۔ کم خرچ بالا نشین کا جوہم آئے دن ورد کرتے رہتے ہیں، اب وقت آگیا ہے کہ اسے عمل میں لایا جائے۔
ہندستان میں چین کی سرمایہ کاری کا دائرہ بھی اس طرح محدود کرنا ہے کہ اس سے ہندستانی صارفین کو کوئی نقصان نہ ہو اور درون ملک دستیابی کا دائرہ وسیع ہو۔ گیٹ وے ہاؤس نامی ایک تھنک ٹینک کے مطابق ہندستان میں 75 ایسی کمپنیاں ہیں جن میں چین نے سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ کمپنیاں ای کامرس، فٹ نیٹ، میڈیا/سوشل میڈیا، ایگریگیشن سروس، اور لوجسٹک جیسی سہولتیں فراہم کرتی ہیں۔
غیر ملکی راست سرمایہ کاری کا ہندستان تادیر متحمل نہیں رہ سکتا۔حالیہ دنوں میں اس رخ پر کام ہوا ہے اور حکومت کی بیداری اور صنعت و تجارت کے اداروں کی فعالیت سے چیزیں ایک حد تک قابو میں آئی ہیں۔اب راست غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے ان ملکوں کی بے لگام چھوٹ جو ہندستان کے ساتھ ہم سرحد ہیں، اس طرح ختم کر دی گئی ہے کہ انہیں ایک معاہدے کے تحت اس کی پیشگی منظور لینا ہوگی یعنی محض شفاف کاغذی کارروائی کے ذریعہ اطلاع دینا کافی نہیں ہو گا۔
بہر حال منظر نامہ بدلنے سے پہلے یکطرفہ ٹریفک پر قابو پانے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ ابھی بھی تکنیکی شعبے میں چین ہندستان سے کہیں آگے ہے اور اس کا فائدہ وہ فطری طور پر سرمایہ کاری کا دائرہ بڑھا کر اٹھاتا ہے۔اس کی ایک نظیر ‘بائٹ ڈانس’ ہے جوٹک ٹاک کی چینی پیرینٹ کمپنی ہے۔یوٹیوب کے مقابلے میں یہ ہندستان میں زیادہ مقبول ہے۔ایک دوسری رپورٹ کے مطابق ہندستان کی 30 یونیکورن میں سے نصف میں چین کی بڑی حصہ داری ہے۔اگر ہند چین تعلقات اور کشیدہ ہوئے تو ان اداروں کو بچانے اور سرگرم عمل رکھنے کیلئے امریکہ یا جاپان سے رجوع کرنا پڑ سکتا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment