Home خواتین واطفال حضرت زینب کی حضرت زید سے علیٰحدگی اور رسول اللہ ﷺ سے نکاح کا قضیہ:اعتراض کا جائزہ-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

حضرت زینب کی حضرت زید سے علیٰحدگی اور رسول اللہ ﷺ سے نکاح کا قضیہ:اعتراض کا جائزہ-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

 

رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے آپ کے نکاح کا واقعہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی پھوپی زاد بہن حضرت زینب کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ سے کردیا تھا ، لیکن نباہ نہ ہوسکا اور حضرت زید نے انہیں طلاق دے دی تو ان سے آپ نے خود نکاح کرلیا ۔ اس سیدھے سادے واقعہ میں مخالفینِ اسلام نے خوب خوب رنگ آمیزی کی ہے اور آں حضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔ سطور ذیل میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی جارہی ہے ، تا کہ حقیقت واضح ہو سکے ۔

حضرت زید کون تھے؟

حضرت زید کا تعلق قبیلۂ کلب سے تھا ۔ بچپن میں ایک مرتبہ ان کے قبیلے کے پڑاؤ پر دشمنوں نے حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن لوگوں کو غلام بنا کر لے گئے ان میں زید بھی تھے ۔ پھر انہوں نے انہیں عکاظ کے بازار میں بیچ دیا ۔ حکیم بن حزام نے انہیں خرید کر اپنی پھوپی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا ۔ پھر جب حضرت خدیجہ کا نکاح آں حضرت ﷺ سے ہوا تو انہوں نے زید کو آپ کی نذر کر دیا ۔ اس وقت حضرت زید کی عمر آٹھ سال تھی ۔ حضور کے یہاں انہیں ایسی محبت ملی کہ وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے اور بعد میں ایک موقع پر جب ان کے باپ اور چچا انہیں ڈھونڈتے ہوۓ آپہنچے اور آپ کی اجازت سے انہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور آزادی پر حضور کی غلامی کو ترجیح دی ۔ یہ دیکھ کر آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور انہیں اپنا متبنّیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا لیا ۔ یہ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ (اسد الغابۃ :281/2)

آں حضرت ﷺ کی جانب سے دعوئ نبوت سنتے ہی جن چار ہستیوں نے بغیر کسی ادنیٰ شک و تردّد کے اسے فوراً تسلیم کر لیا تھا ، حضرت زید ان میں سے ایک تھے ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے منظورِ نظر اور معتمدِ خاص تھے ۔ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کرائی تھی ۔ اس موقع پر آپ نے استثنائی صورت میں حضرت زید اور اپنے محبوب چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ( دونوں مہاجر) کو بھائی بھائی قرار دیا تھا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام : 124/2) غزوۂ بدر سے قبل غزوۂ سفوان ( غزوہ بدر الاولی) میں آں حضرت ﷺ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے تو انہی کو مدینہ کا عامل (گورنر) بنایا تھا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام : 138/2) غزوۂ بدر میں جب اللہ تعالٰی کی تائید ونصرت سے مسلمانوں کو فتحِ عظیم حاصل ہوئی تو اہلِ مدینہ کو اس کی خوش خبری دینے کے لیے آں حضرت ﷺ نے انہی کو بھیجا تھا ۔ (سیرۃ ابن ہشام : 285/2) غزوۂ بدر کے بعد آں حضرت ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت زینب کو مکہ سے لانے کے لیے حضرت زید ہی کو مامور کیا تھا ۔(سیرۃ ابن ہشام : 297/2) متعددمواقع پر آپ نے ان کی سربراہی میں سرایا روانہ کیے تھے( 429/2 ، 284/4 ، 285 ، 290 ، 312 ) بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو یہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کو جس سریہ میں بھی بھیجا اس کی سربراہی انہی کے حوالے کی – ( اسد الغابۃ : 283/2) آں حضرت ﷺ نے ان کا نکاح اپنی دایا ام ایمن رضی اللہ عنہا سے کر دیا تھا ۔ ان سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تھے ۔ ( اسد الغابۃ ، حوالہ سابق)

حضرت زینب کا حضرت زید سے نکاح اور علیٰحدگی :

حضرت زید کی عزت افزائی کے لیے آں حضرت ﷺ نے چاہا کہ ان کا نکاح حضرت زینب سے کر دیں ۔ حضرت زینب کے عزیزوں کو یہ رشتہ پسند نہ تھا ، لیکن آپ نے اصرار کیا تو تیار ہو گئے اور نکاح ہو گیا ۔ آپ نے حضرت زید کی طرف سے مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ضروری ساز و سامان بھی فراہم کیا ۔ حضرت زینب نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اس رشتے کو منظور تو کرلیا تھا ، لیکن حسب ونسب میں اپنی برتری کے احساس کو وہ اپنے دل سے کسی طرح نہ مٹاسکی تھیں ۔ عین ممکن ہے کہ منافقین کے برپا کردہ فتنہ انگیز ماحول میں ان کے اس احساس میں اضافہ ہوا ہو ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زوجین کے درمیان خوش گوار معاشرت قائم نہ رہ سکی اور کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ حضرت زید نے ارادہ کرلیا کہ طلاق دے کر اس قضیہ کا خاتمہ کر دیں ۔ چوں کہ یہ نکاح حضور ﷺ کے مشورہ اور ایما سے ہوا تھا ، اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ارادہ کا اظہار کیا ۔

آں حضرت ﷺ نے حضرت زید کو ان کے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ آپ نے یہ نکاح اعلیٰ وارفع مقصد کے لیے کروایا تھا ، اس لیے آپ کی خواہش تھی کہ وہ قائم رہے ۔ آپ نے حضرت زید کو اللہ کا خوف دلاتے ہوۓ ارادۂ طلاق سے روکنے کی کوشش کی _ (الاحزاب : 37) یہ آپ کا حکم نہیں ، بلکہ ناصحانہ مشورہ تھا ، جسے قبول کرنے یا نہ کرنے میں وہ آزاد تھے ۔ حالات کے دباؤ کی بنا پر وہ خود کو اس پر آمادہ نہ کر سکے اور انہوں نے طلاق دے دی ۔

حضور کا حضرت زینب سے نکاح :

حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب کی دل جوئی کی صورت یہ رہ گئی تھی کہ آپ خود ان سے نکاح کر لیں ، لیکن آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ ایسا کرنے سے مخالفین کو فتنہ برپا کرنے کا موقع ہاتھ آجاۓ گا ۔ آپ کے لیے یہ امر بھی پریشانی کا باعث تھا کہ عام مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھنے کا حکم نازل ہو چکا تھا اور اس وقت آپ کے نکاح میں بھی چار ازواج تھیں _ (اس وقت تک اس حکم سے آپ کو مستثنیٰ کرنے والی آیت نازل نہیں ہوئی تھی _ ) ان وجوہ سے آپ حضرت زینب سے نکاح کے سلسلے میں متردّد تھے ۔ سورہ احزاب کی آیت : 37 وَ تُخْفِى فِي نَفْسِكَ مَا اللّہ مُبْدِيْهِ وَ تَخْشَى الـنَّـاسَ وَاللّه أحَقُّ أنْ تَخْشَاهُ ( اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپاۓ ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا ۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالاں کہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو _ ) میں اس کی طرف اشارہ ہے ۔ بالآخر وحی الٰہی نے آپ کا تردّد ختم کردیا اور صاف الفاظ میں حکم دے دیا گیا کہ لوگوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر آپ یہ نکاح کر لیں ۔

مخالفین کا فتنہ:

اس واقعہ پر عہدِ نبوی میں بھی مخالفینِ اسلام نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی تھی اور بعد میں بھی اس کو بنیاد بنا کر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ حضرت زینب سے حضرت زید کے نکاح پر عہدِ نبوی میں منافقوں اور دوسرے اسلام دشمنوں نے یہ فتنہ برپا کیا کہ ایک آزاد کردہ غلام ، جو سماجی اعتبار سے فروتر حیثیت رکھتا ہے ، اس کا نکاح ایک معزز خاندان سے کرکے اس خاتون کے وقار اور عزّتِ نفس کو پامال کر دیا گیا ہے ۔ پھر جب حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب سے آں حضرت ﷺ نے نکاح کرلیا تو ان بد باطنوں نے اس کو بھی آپ کے خلاف شرانگیزی کا ذریعہ بنایا اور کہا کہ محمد(ﷺ ) نے تو اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ کے ساتھ نکاح کرلیا ہے ، جو عرب ساج کی معروف روایت کے خلاف ہے ۔ حالاں کہ دونوں موقعوں پر حضرت زینب کے نکاح سے اسلام کی اہم اور بنیادی تعلیمات کا اظہار ہوا ۔

رسول ﷲﷺ نے جاہلیت کی غلط رسوم کو ختم کیا :

اسلام میں عہدِ جاہلیت کی بعض رسوم اور اقدار کو باقی رکھا گیا ہے ، لیکن اس عہد میں جو تصوّرات و افکار اور رسوم و اقدار اسلام کے بنیادی احکام اور تعلیمات سے ٹکراتے تھے ان کی اصلاح بھی کی گئی ۔ نکاحِ زینب کے ذریعے بھی بعض جاہلی تصورات اورسوم کی اصلاح کی گئی ۔

عرب معاشرہ میں غلاموں اور موالی ( آزاد کردہ غلاموں) کو سماجی حیثیت سے پست مقام حاصل تھا ۔ اسلام نے انسانوں اور انسانوں کے درمیان سارے امتیازات باطل قرار دیے اور اعلان کر دیا کہ تمام انسان ایک ماں باپ سے پیدا ہوۓ ہیں ، اس لیے سب برابر ہیں اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزّز وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو _ (الحجرات : 13) اللہ کے رسول ﷺ نے بھی برسرِ عام اعلان فرمایا : ’’عر بی ، عجمی ، کالے ، گورے ، کسی شخص کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، اگر ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر _ “ آپ چاہتے تھے کہ غلاموں کے بارے میں لوگوں کے اس تصور میں تبدیلی آۓ ۔اس لیے آپ نے باصرار حضرت زید سے حضرت زینب کا نکاح کروایا تھا ۔

اسی طرح عہدِ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے کو صلبی بیٹے کا درجہ دے دیا گیا تھا ۔ میراث میں اس کا حصہ لگایا جا تا تھا اور دیگر سماجی معاملات میں بھی اس کے ساتھ صلبی بیٹے جیسا برتاؤ کیا جا تا تھا ۔ چناں چہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کا منہ بولا بیٹا اگر وفات پا جاۓ ، یا طلاق دے دے تو اس کی (سابقہ) بیوی سے وہ نکاح کر سکے ۔ اسلام کی نظر میں یہ ایک غلط جاہلی رسم تھی ، کیوں کہ یہ فطری عائلی نظام کے برعکس تھی ۔ منھ بولے بیٹے صلبی بیٹوں کے مثل نہیں ہو سکتے ۔ قرآن کہتا ہے :
وَ مَا جَعَلَ أدْعِيَاءَكُمْ أبْنَاءَكُمْ (الأحزاب : 6)
”اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے ۔“

حضرت زید کو رسول اللہ ﷺ نے منھ بولا بیٹا بنالیا تھا ۔ جب انہوں نے حضرت زینب کو طلاق دے دی تو اس غلط جاہلی رسم کی اصلاح کا ایک موقع ہاتھ آ گیا ۔ چناں چہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو ہدایت کی کہ لوگوں کے اعتراضات اور شر انگیزیوں کی پروا کیے بغیر حضرت زینب سے نکاح کر لیں ، تا کہ آپ کے عمل کے ذریعہ اس غلط رسم کی اصلاح ہو جاۓ ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآئِهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا (الأحزاب:۳۷)
” پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس ( مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا ، تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے ، جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں ۔“

ایک اعتراض اور اس کی نامعقولیت

بعض لوگوں نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ایک افسانہ یہ تراشا ہے کہ نعوذ باللہ محمد (ﷺ ) بہو کو دیکھ کر اسے دل دے بیٹھے تھے اور اس پر ریجھ گئے تھے ۔ سعادت مند بیٹے کو کسی طرح اس تعلقِ خاطر کا علم ہوگیا تو اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔اس کے بعد باپ نے بہو سے شادی رچالی ۔

یہ کہنا سراسر بے بنیاد ہے ۔ حضرت زینب آں حضرت ﷺ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحب زادی تھیں ۔ بعثت سے 17 برس قبل ان کی ولادت ہوئی تھی ۔ ان کا بچپن اور جوانی سب رسول اللہﷺ کی نگاہوں کے سامنے تھی ۔ وہ ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے تھیں ۔ انہوں نے اپنے بھائی عبد اللہ بن جحش کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تھی ۔ (اسد الغابۃ : 125/7 ،سیرۃ ابن ہشام : 81/2) اگر حضور ﷺ کے دل میں واقعی حضرت زینب کی طرف میلان ہوتا تو حضرت زید کے لیے نکاح کا پیغام دینے ، پھر بہ اصرار اس رشتے کو طے کرانے کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے بجاۓ آپ شروع ہی میں ان سے نکاح کر سکتے تھے ۔ اگر آپ ایسا کرتے تو ان کے گھر والے بخوشی تیار ہو جاتے اور اسے اپنی سعادت سمجھتے ۔

[ ماخوذ از : حقائقِ اسلام ، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی _
یہ کتاب ویب سائٹ kitabosunnat.com پر اپ لوڈ ہے ، وہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے _ ]

You may also like

Leave a Comment