عبدالرحمن قاسمی ، ایڈیٹر ’ نگارشات ڈاٹ کام ‘ اور مصنف ’ سی اے اے ، این آر سی اور تحریک شاہین باغ ‘ کی کتاب ’ حیاتِ فصیحؒ ‘ مجھے مل تو بہت پہلے گئی تھی ، لیکن اِس پر لکھنے کی توفیق اب ہو رہی ہے ۔ کیَا کیا جائے اخبار کے کاموں میں اکثر کچھ کام ٹلتے ہیں تو ٹلتے چلے جاتے ہیں ۔ اگر اس کتاب کا تعارف دو لفظوں میں کرانا ہو تو میں کہوں گا ’ کتابِ محبت ‘ ۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ ’ کیا ہے اس کتاب میں کہ اسے محبت کی کتاب کہا جائے؟‘ تو جواب ہوگا کہ ’ علاقے کے ایک شفیق استاذ کی یاد میں لکھی گئی تحریر محبت کی تحریر کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے !‘ عبدالرحمن قاسمی کے ایک پیارے استاذ محمد نوشاد نوری ( دارالعلوم وقف دیوبند) نے اس کتاب کے بارے میں اپنی مختصر تحریر میں ( جسے کتاب کے پس ورق پر شائع کیا گیا ہے) کچھ ایسی ہی بات لکھی ہے : ’’ ’ حیات فصیحؒ ‘ میں عقیدت و محبت کی چاشنی ، خلوص و وفا کی حرارت ، اسلوب بیان کی سادگی اور پرکاری سبھی کچھ ہے ۔‘ یہ کتاب فخرِ چمپارن حضرت مولانا و حافظ محمد فصیح الدین صاحب قاسمیؒ ، بانی و ناظم مدرسہ منبع العلوم مادھو پور مشرقی چمپارن ، بہار کی حیاتِ مبارکہ اور خدماتِ جلیلہ کا تذکرہ ہے ۔ استاذ دارالعلوم وقف دیوبند حضرت مفتی محمد سجاد حسین صاحب قاسمی کتاب کی تقریظ میں لکھتے ہیں : ’’ برگزیدہ اور بافیض ہستیوں میں سے ایک عظیم ہستی حضرت مولانا محمد فصیح الدین صاحب قاسمیؒ کی تھی ، جنہوں نے اپنے روحانی اور علمی فیضانات سے پورے خطۂ چمپارن کو مستفید کیا اور علمی و اصلاحی حلقوں میں اپنی بے مثال خدمات اور قابلِ تقلید کاوشوں سے اپنا ایک منفرد اور ممتاز مقام پیدا کیا ۔‘‘ وہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’ یہ کتاب مرحوم کی ہمہ جہت شخصیت ، ان کی خدمات جلیلہ اور عظیم کارنامے کے اچھوتے نقوش کا ایک جامع عکس ہے ، جس کے آئینہ میں ان کی علمی و عملی ، اصلاحی و تربیتی زندگی کو دیکھا جا سکتا ہے ۔ کتاب مشمولات اور مواد سے لبریز اور معلومات سے پر ہے ، کتاب کا اسلوب سادہ ، شگفتہ ، رواں اور سلیس ہے ، کتاب کی ترتیب اور عناوین قابلِ تعریف اور قابلِ ستائش ہیں ۔‘‘
عبدالرحمن قاسمی نے حالانکہ مولانا مرحوم سے شرفِ تلمذ حاصل نہیں کیا لیکن چونکہ مرحوم سارے چمپارن کے لیے استاذ کی حیثیت رکھتے تھے اس لحاظ سے ان کے بھی استاذ ہوئے ، روحانی استاذ ۔ عبدالرحمن قاسمی لکھتے ہیں : ’’ سرزمین چمپارن کی علمی ، ادبی ، عبقری شخصیت ، سیرت و سنت کے پیکر ، باکمال ناظم اور بے مثال استاذِ چمپارن حضرت مولانا محمد فصیح الدین صاحب قاسمیؒ کے حالاتِ زندگی اور کارناموں کو نسلِ نو کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ان کے انتقال کے بعد ہی سے محسوس ہو رہی تھی تاکہ نسلِ نو اس سے روشنی حاصل کرکے اپنی زندگی گزارے اور اپنی منزلِ مقصود طے کرے ۔‘‘ کووڈ کے دوران انہوں نے مولانا مرحوم کی سوانح مکمل کرلی تھی ، گویا کہ یہ کتاب شاہین باغ والی کتاب سے پہلے تیار ہوئی تھی ، لیکن اس کی اشاعت کسی سبب بعد میں ہوئی ۔
کتاب کو سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ، پہلا باب ’ مختصر حالاتِ زندگی ‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں پیدائش ، تعلیم ، رفقائے درس ، بیعت و سلوک ، اساتذۂ کرام اور عہدے و مناصب کا تفصیلی ذکر ہے ۔ دوسرے باب میں مولانا مرحوم کے اوصاف و کمالات اور مزاج و دین داری کا ذکر کیا گیا ہے ۔ باب سوم میں امتیازات و خصوصیات پر بات کی گئی ہے ۔ اس باب میں مرحوم کی قناعت ، علماء نوازی ، مہمانانِ رسول ﷺ کے لیے مہربانی ، بدعات سے تنفر وغیرہ کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پانچویں باب میں مرحوم کے اخلاق کا تذکرہ ہے ۔ اس باب میں طلبۂ مدارس کی اعانت کے چند واقعات بھی دیے گیے ہیں ۔ ایک واقعہ یہ ہے کہ کسی طالب علم نے مولانا مرحوم سے کہا کہ وہ تخصص فی الحدیث کرنا چاہتا ہے لیکن والد صاحب مالی حالت کمزور ہونے کی وجہ سے اجازت نہیں دے رہے ہیں ۔ مولانا مرحوم نے دریافت کیا کہ سالانہ اخراجات کتنے ہوں گے؟ بتایا کہ چھ ہزار روپیے ۔ کہا کہ چاہو تو یک مشت پوری رقم لے لو یا وقتاً فوقتاً لیتے رہو ۔ دو سال تک اس طالب علم کو رقم دیتے رہے ۔ باب پنجم میں عبادت و ریاضت کے ذوق پر بات کی گئی ہے ۔ چھٹے باب میں عادات و معمولات کا ذکر ہے ۔ اس باب سے پتا چلتا ہے کہ مرحوم زبردست خطیب تھے ۔ اس باب میں مادھو پور میں منبع العلوم کے قیام کی تفصیلات ہیں ، یہ مدرسہ مولانا مرحوم کا ایک بڑا کارنامہ ہے جس سے سارا علاقہ فیض پا رہا ہے ۔ یہ مدرسہ مرحوم نے اپنے پیر و مرشد قاری صدیق احمد باندویؒ کی ایما پر قائم کیا تھا ۔ آخری باب سفر آخرت کا ہے ۔ مولانا محترم اکل کوا کے مدرسہ جا رہے تھے کہ گاڑی پلٹ گئی اور آپ شدید زخمی ہو گیے ، آپ کو ممبئی کے ایک بڑے اسپتال میں داخل کرایا گیا لیکن آپ روبصحت نہ ہوسکے، وہیں انتقال فرمایا ۔ عبدالرحمن قاسمی نے یہ باب بڑے ہی دلگداز انداز میں تحریر کیا ہے ۔ کتاب کے آغاز میں مولانا محمد سفیان قاسمی ، مہتمم دارالعلوم وقف دیوبند ، محمد راشد اعظمی ، دارالعلوم دیوبند اور مولانا محمد بہاالدین ، ناظم منبع العلوم کے تاثرات اور دعائیں ہیں ۔ اس 80 صفحے کی کتاب کے ناشر ’ مکتبہ وحیدیہ ، مادھو پور ، مشرقی چمپارن ‘ ہیں اور اس کی اشاعت ’ مرکزی پبلیکیشنز ، نئی دہلی ‘ کے زیر اہتمام ہوئی ہے ۔ مصنف نے کتاب کا انتساب نورانی قاعدہ کے اپنے استاذ حضرت مولانا معین الدین صاحب مفتاحی اور دوست مولانا ارشاد صاحب مظاہری و اپنی تعلیم گاہوں مدرسہ اسلامیہ ، سمرا ، مغربی چمپارن ، مدرسہ منبع العلوم مادھو پور ، جامعہ عربیہ ہتورا ، جامعۃ العلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف دیوبند کے نام کیا ہے ۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے 8791519573 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔