Home نقدوتبصرہ حیاتِ جاوید کا سرسید اکیڈمی ایڈیشن – شکیل رشید

حیاتِ جاوید کا سرسید اکیڈمی ایڈیشن – شکیل رشید

by قندیل

انگریزی زبان کا ایک محاورہ A Feather In Cap ’ سرسید اکیڈمی ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ‘ کے ڈائریکٹر پروفیسر شافع قدوائی پر مکمل طور پر صادق آتا ہے ۔ مذکورہ محاورے کا مطلب ہے ’ ایسا کارنامہ جس پر فخر کیا جا سکے ‘ ۔ اور انہوں نے بلاشبہ کارنامہ کر دکھایا ہے ۔ جس کارنامے کی بات ہو رہی ہے ، وہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی معرکتہ الآراء تصنیف ’ حیاتِ جاوید ‘ کا ، جو مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کی سوانح ہے ، سرسید اکیڈمی سے شائع ایڈیشن ہے ۔ ایک تصحیح شدہ ایڈیشن ۔ بات صرف اتنی نہیں ہے ، اس ایڈیشن میں مکمل حواشی ، تعلیقات ، تخریج اور اشاریے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اور مولوی ذکا اللہ ، مولوی وحید الدین سلیم ، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی ، سر عبدالقادر اور مولانا ابوالکلام آزاد کے ’ حیات جاوید ‘ پر تبصرے بھی شامل کیے گئے ہیں ۔

یہ ایڈیشن کیوں اہم ہے ، اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ یہ سرسید کی سوانح ہے ، وہی سرسید جنہوں نے ایک ایسے تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالی جو آج ہندوستان میں مسلمانوں کی عزت و ثروت کا امین ہے ۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ ’ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ‘ کا وجود ہندوستانی مسلمانوں کے وجود سے پیوستہ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہو چکے ہیں ۔ اسی لیے فرقہ پرستوں کی نظرِ بد اس پر جمی ہوئی ہے ۔ یہ ایڈیشن اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ سرسید کے حوالے سے مسلمانوں کی ایک ایسی تاریخ سامنے لاتا ہے ، جو جدوجہد اور مسائل کے سدّباب کے لیے کوششوں سے پٹی ہوئی ہے ۔ چاہے علی گڑھ کے تعلیمی ادارے کے قیام کے لیے جدوجہد رہی ہو یا مسائل کے حل کے لیے کوششیں ، یہ ہمیں حوصلہ بخشتی ہیں اور اپنی وراثت کی حفاظت کے لیے عزم و ارادے پر مائل کرتی ہیں ۔ یہ ایڈیشن اس لیے بھی اہم ہو جاتا ہے کہ بغیر کسی غلطی کے تمام حقائق سامنے رکھ دیتا ہے ۔ ماضی میں حالی کی اس تصنیف کو سرسید کی مداحی سے تعبیر کیا گیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا سرسید جیسی عبقری شخصیت کی مداحی کوئی عیب ہے ! یقیناً نہیں ، سرسید کو حق تھا کہ ان کی مداحی کی جائے ، ان کے گن گنوائے جائیں ، حالیؔ نے یہی کیا ۔

اس ایڈیشن میں پروفیسر شافع قدوائی کا ایک وقیع ’ پیش لفظ ‘ شامل ہے ، جس میں انہوں نے ’ حیاتِ جاوید ‘ ، سرسید اور حالی سے متعلق اٹھنے والے سوالوں کے جواب بھی دیے ہیں اور اس ایڈیشن کی اہمیت پر روشنی بھی ڈالی ہے ۔ آئیں ’ پیش لفظ ‘ پر ایک نظر ڈال لیں ۔ شافع قدوائی لکھتے ہیں : ’’ برصغیر کے مسلمانوں کی علمی اور تہذیبی نشاۃ ثانیہ کے نقیب اور انیسویں صدی کے پہلے مسلمان عوامی دانشور سرسید احمد خاں ( ۱۸۱۷ء – ۱۸۹۸ء ) کے سوانحی کوائف ، علمی کمالات ، تحقیقی امیازات ، ادبی اکتسابات ، صحافتی دستیابیوں ، قانونی مہارت ، سرکاری اداروں سے سرگرم وابستگی کے باوجود قومی اور ملکی حمیت کی پاسداری ، سیاسی تدبر ، تعلیمی اور اصلاحی خدمات سے کماحقہ آگاہی کا سب سے معتبر اور جامع حوالہ خواجہ الطاف حسین حالیؔ ( ۱۸۳۷ء – ۱۹۱۴ء ) کی شہرۂ آفاق تصنیف ’ حیاتِ جاوید ‘ ( ۱۹۰۱ ء ) ہے جس کی تابندگی پر مرورِ ایّام کا کوئی اثر نہیں ہوا ہے ۔‘‘ شافع قدوائی اس تصنیف کو سرسید شناسی میں ’’ حرفِ اول اور حرفِ آخر ‘‘ قرار دیتے ہیں ۔ وہ یہ تو مانتے ہیں : ’’ حالیؔ نے ارسید کو محض ایک اہم کردار کے طور پر نہیں بلکہ ایک نامیاتی کُل کے طور پر پیش کرکے ۱۹ ویں صدی کے مسلم معاشرہ کا ایک ہمہ جہت رویا (vision) خلق کیا ہے ‘‘ ، لیکن وہ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں : ’’ کیا حیاتِ جاوید سرسید کا حرفِ آخر ہے ؟ ‘‘ ، اور جواب بھی دیتے ہیں ۔ وہ بتاتے ہیں کہ حالیؔ کے پیشِ نظر منشی سراج الدین کا ، سرسید کی سوانح کا ایک غیر مطبوعہ مسودہ ( تقریباً سو صفحات کا ) اور کرنل گراہم کی حیاتِ سرسید پر انگریزی کتاب بھی تھی ۔ شافع قدوائی لکھتے ہیں : ’’ سرسید کے سوانحی اور دیگر کوائف کے اندراج میں حالیؔ نے بسا اوقات صحت کا خیال نہیں رکھا ہے ، شاید اس کا سبب یہ رہا ہو کہ سرسید نے خود اپنے متعلق معلومات فراہم کرنے سے معذرت کر لی تھی ۔‘‘ ’ پیش لفظ ‘ میں شافع قدوائی نے ’ حیاتِ جاوید ‘ کے تسامحات کی نشاندہی کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں : ’’ ’ حیاتِ جاوید ‘ پاکستان اور ہندوستان میں تواتر کے ساتھ شائع ہو رہی ہے ۔ ’ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ، نئی دہلی ‘ کا ایڈیشن سب سے زیادہ مقبول ہے ۔ منشی رحمت اللہ رعدؔ نے ’ نامی پریس ، کانپور ‘ سے اسے ۱۹۰۱ء میں شائع کیا تھا جس میں حواشی اور تعلیقات اور صحتِ متن کا زیادہ خیال نہیں رکھا گیا تھا ۔ قرآن شریف کی آیتوں کی تخریج بھی نہیں ہے ، اشاریہ بھی نامکمل ہے ۔ بعد کی اشاعتوں میں بہت سی عبارتیں حذف کر دی گئیں ۔ فارسی اور اردو کے اشعار میں وزن کا خیال نہیں رکھا گیا ۔ حالیؔ کا متن بھی تسامحات سے خالی نہیں ۔‘‘ ’ سرسید اکیڈمی ‘ کا ڈائریکٹر بننے کے بعد شافع قدوائی نے جہاں سرسید سے متعلق اردو اور انگریزی کی کتابیں شائع کرنے کے لیے کمر کسی ، وہیں انہوں نے ’ حیاتِ جاوید ‘ کا مکمل تصیح شدہ ایڈیشن شائع کرنے کا بھی قصد کیا ۔ یہ وہی ایڈیشن ہے ۔ اس ایڈیشن کی تیاری میں ڈاکٹر محمد مختار عالم اور ڈاکٹر اسعد فیصل فاروقی نے ان کی معاونت کی ہے ۔ یہ ایڈیشن دو حصوں پر مشتمل ہے ، صفحات ۷۹۲ ہیں ۔ کتاب میں جو تبصرے شامل ہیں ان میں سے چند سطریں ملاحظہ کریں : ’’ یہ کتاب سرسید کی حیاتِ جاوید نہیں ہے بلکہ اسلام کی زندگانی جاودانی ہے جو مسلمانوں کو دین و دنیا کی خسارت سے بچاتی ہے اور سعادت دارین پر پہنچاتی ہے ۔‘‘ ( ذکاء اللہ ) ، ’’ سرسید کی کامیابی کے لیے جو امور بطور اسباب کے مولانا نے بیان کیے ہیں ، وہ سب سرسید میں بیشک موجود تھے اور انہیں جاننے کی ضرورت اس کتاب کے ہر مطالعہ کرنے والے کو تھی ۔‘‘ ( مولانا وحید الدین سلیم ) ، ’’ ہماری یہ رائے ہے کہ سرسید کی لائف ایک ایسے آزاد نگار قلم کا کام ہے جو نفرت و محبت دونوں سے بَری ہو اور امید ہے کہ اگر مسلمانوں میں تعلیم کی اصلی ترقی ہوئی تو سرسید کی متعدد لائفیں لکھی جائیں گی اور ان کے واسطے ’ حیاتِ جاوید ‘ بنیاد کا کام کرے گی ۔‘‘ ( مولوی حبیب الرحمٰن شروانی ) ، ’’ یہ اوراق سالہا سال کی جگر کاری کا نتیجہ ہیں ۔ اور مدتوں مولانا حالیؔ اس دھن میں رہے کہ سرسید کی سوانح عمری لکھیں جب کہیں جا کر یہ جلد تیار ہوئی ہے ۔‘‘ ( شیخ عبدالقادر ) ، ’’ مولانا خواجہ الطاف حسین صاحب ’ حالیؔ ) کا دراصل قوم پر اور قوم کی زبان پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے برسوں کی جانکاہ محنت سے ’ حیاتِ جاوید ‘ جیسی بیش بہا کتاب تیار کرکے اردو زبان میں ایک علمی اضافہ کیا ۔‘‘ ( مولانا ابوالکلام آزاد ) ۔

سرید اکیڈمی کا یہ ایڈیشن ’ پبلیکیشنز ڈیویژن ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ‘ سے اور آمیزون سے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ قیمت ایک ہزار روپے ہے ۔

You may also like