Home نقدوتبصرہ حواشی: نظم اور فکری تفہیم کا ایک معمہ -عبید حارث

حواشی: نظم اور فکری تفہیم کا ایک معمہ -عبید حارث

by قندیل

میرے لیے مسئلہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ میں سہل پسند واقع ہوا ہوں۔ جب آسان راستے سے منزل تک پہنچا جا سکتا ہے تو بلاوجہ کٹھن راہوں کا انتخاب کیوں کیا جائے؟ آخرکار، آسانی کسے ناپسند ہوتی ہے؟ مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں سہولت پسند زندگی راس نہیں آتی۔ وہ مشکلوں کو چنتے ہیں، پیچیدگیوں میں دلچسپی لیتے ہیں، اور دشوار گزار راہوں کو ہی اظہار کا اصل وسیلہ سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی مشکل پسندوں میں ایک نمایاں نام شہرام سرمدی کا ہے۔

شہرام نے محض اظہار کے لیے مشکل زبان کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ ان کے ہاں موضوعات بھی معمول سے یکسر مختلف اور فکری طور پر الجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ وہ بات کہتے ضرور ہیں، مگر جانے کتنے تاریخی، طلسماتی اور فکری راستوں سے گزرتے ہوئے، کسی خوبصورت اور غیر متوقع موڑ پر اسے حال سے جوڑ دیتے ہیں۔ وہ کبھی سیدھے انداز میں کان نہیں پکڑتے، بلکہ اپنے ہاتھوں کو یوں گھما پھرا کر لے جاتے ہیں کہ دیکھنے والا ان کے ہاتھوں کی حرکات میں الجھ کر رہ جائے۔ اور پھر ان حرکات کی رمز کو سمجھنے میں عمریں کھپا دے۔ وہ اپنے خیال کے کمروں کی دیواروں پر کچھ تصویری خاکے بنانے کی کوشش کرتا ہے، اور جب کوئی تصویر نہ بن پائے تو بس سر دھنتا رہ جاتا ہے۔

شہرام سرمدی کی تخلیقات پر کچھ لکھنے کی سعی میں ایک عرصہ بیت گیا۔ جب بھی قلم اٹھایا، انگلیاں ساکت ہو گئیں۔ یوں محسوس ہوتا جیسے قلم نے خود انکار کر دیا ہو کہ وہ کہاں سے بات شروع کرے اور کہاں ختم کرے۔ ایسے میں بارہا خیال آیا کہ پہلے مجھے مزید پڑھنا چاہیے۔ اور میں پڑھنے لگتا۔ کچھ دیر پڑھنے کے بعد ذہن کی الجھن پھر سے گہری ہونے لگتی، اور میں کتاب سرہانے رکھ کر سو جاتا، دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتا کہ شاید کل جب دماغ تازہ ہو گا تو کچھ سمجھ میں آ جائے گا۔ شہرام کے ساتھ میرا یہی رشتہ قائم رہا، اور یہ محسوس ہی نہ ہوا کہ اس عمل میں ایک دہائی گزر چکی۔

ابھی ایک الجھن پوری طرح سلجھی بھی نہ تھی کہ ان کا ایک اور نظموں پر مشتمل شعری مجموعہ حواشی میرے سامنے آ گیا — ایک اور فکری معمہ۔ اس مجموعے نے گویا میری زبان کو پتھر، اور ذہن کو جمود کا شکار بنا دیا۔

ایک روز فون پر عبداللہ ندیم سے گفتگو ہو رہی تھی۔ دورانِ گفتگو میں نے کہا، "یار، شہرام سرمدی کی نظمیں سمجھنا واقعی ایک دشوار عمل ہے۔ ان کی بیشتر نظمیں ذہن کے اوپر سے گزر جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے مداحوں کی جو واہ واہ سننے کو ملتی ہے اور نظموں کو سمجھنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ سب خودفریبی کے سوا کچھ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کی نظمیں عام قاری کی گرفت سے باہر ہیں۔ ان کی تحسین اکثر رسمی ہوتی ہے، گہری نہیں۔”

شہرام کی نظمیں نہ تو محمد علوی کی نظموں کی طرح قاری کو چونکا دیتی ہیں، اور نہ ہی کسی افسانوی موڑ پر پہنچا کر ذہن میں کوئی تصویری خاکہ چھوڑ جاتی ہیں۔ شہرام کی شاعری کو سمجھنے کے لیے ایک باشعور، کئی علوم سے آشنا، تاریخ اور حال سے باخبر، اور تخلیقی وجدان سے معمور ذہن درکار ہے۔ صرف ایسا قاری ہی ان کی نظموں پر سنجیدہ اور بصیرت افروز گفتگو کر سکتا ہے۔

ان کے مجموعے حواشی کا عنوان بھی خاصا دقیق اور معنی خیز ہے۔ میری دانست میں بیشتر قارئین کو صرف اس عنوان کو سمجھنے میں ہی دشواری پیش آئی ہو گی۔ اگر کوئی "حواشی” کے لغوی و اصطلاحی معنی سے ناواقف ہو تو لغت بھی اس کی مکمل تشریح فراہم نہیں کرتی۔ "حواشی” عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے بنیادی معانی میں نوکر، چاکر، مرید، مصاحب وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ایک وسیع تر ادبی مفہوم میں "حواشی” کا مطلب وہ شروحات، حوالہ جات یا فٹ نوٹس ہوتے ہیں جو کسی متن کے حاشیے میں درج ہوں — یعنی وہ مواد جو اصل تحریر سے الگ ہو کر بھی اس کی تفہیم کا کلیدی ذریعہ بن جائے۔

اسی تناظر میں اگر ہم نظم چند حواشی فتح نامہ سے کو غور سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظم ایک عام قاری کے لیے قابلِ فہم ہی نہیں۔ نظم کے اندر جو فکری کثافت، تاریخی حوالہ اور شعری ایجاز پوشیدہ ہے، وہ ایک تربیت یافتہ، مابعدالطبیعیاتی ذوق رکھنے والے ذہن کا مطالبہ کرتا ہے:

چند حواشی فتح نامہ سے

فتح نامہ کا نادر و نایاب ایک نسخہ

جو دسترس میں ہے، بیشتر کرم خوردہ ہے

لیکن قابلِ ذکر بات یہ ہے

یہاں آخری صفحے سے ذرا پہلے

مہرِ شاہی ہے

اس کے پہلو میں

اک عبارت بہ خطِ التعلیق

آبِ زر سے لکھی:

"کئی جنگیں

میں نے ہتھیار ڈال کر جیتیں”

یہ دو مصرعے نہایت سادگی سے ایک گہرا فلسفیانہ، اخلاقی اور روحانی نظریہ پیش کرتے ہیں:

کہ بعض فتوحات طاقت سے نہیں بلکہ ہتھیار ڈال دینے، صبر اختیار کرنے اور ضد کو چھوڑ دینے سے حاصل ہوتی ہیں۔ یہ جنگیں محبت کی بھی ہو سکتی ہیں، انا کی بھی، سماجی یا جذباتی سطح پر ہونے والی بھی۔ گویا شاعر صوفیانہ یا درویشانہ حکمت کی روشنی میں انسانی رویے کے ایک نازک پہلو کو آشکار کرتا ہے — اور یہ سب وہ ایک ’حاشیہ‘ میں درج کر کے گویا کہتا ہے کہ اصل متن نہیں، بلکہ اصل معرفت اکثر حاشیوں میں چھپی ہوتی ہے۔

یہ نظم ایجاز میں اعجاز کی درخشاں مثال ہے، جو قاری کو روایت، فکر اور تہذیب پر ایک نیا زاویہ عطا کرتی ہے۔

مجموعے کے ایک اور حصے یہ دشتِ جنوں دیوانوں کا میں شخصیاتی نظموں کا ایک باب شامل ہے، جسے پڑھ کر مجھے عبدالاحد ساز کا شعری اسلوب یاد آ گیا۔ ساز صاحب نے بھی کئی شخصی نظمیں لکھی ہیں جن کی ساخت اور آہنگ میں شہرام کے اسلوب سے مشابہت پائی جاتی ہے۔ اس باب میں ایک نظم شہریار کے نام منسوب ہے۔ شہریار کی شخصیت اور شاعری نے شہرام کو خاصی حد تک متاثر کیا، اور خود شہریار کی شفقتیں بھی انہیں نصیب ہوئیں۔ یہ نظم ایک محبت بھرا محاسبہ ہے، جو شاعر اور شخصیت کے درمیان فاصلے پر سوال اٹھاتی ہے۔

یہ نظم شہریار ہی نہیں، بلکہ ان تمام شعرا کے لیے ایک آئینہ ہے جنہوں نے دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور بیان کرنے میں گہرائی سے کام لیا، مگر شاید خود کو دیکھنے کا وقت یا جرأت نہیں پائی۔ نظم میں شاعر شہریار کی داخلی خاموشی، شعری واہموں اور خود فراموشی پر گفتگو کرتا ہے — نہایت مہذب مگر صراحت آمیز انداز میں۔

اسی مجموعے میں ایک اور مختصر نظم میتریا ہے، جو ظاہری طور پر نہایت سادہ، مگر باطنی طور پر ایک وسیع فکری و روحانی کائنات پر محیط ہے:

میتریا

ڈھائی ہزار سال سے

ایک سکوتِ گو مگو

ایک بدن کی جستجو

میتریا: جانشین گوتم بدھ…

یہ نظم بدھ مت کی اس پیش گوئی سے مربوط ہے کہ گوتم بدھ کے بعد ایک اور بدھ، میتریا، دنیا میں آئے گا جو انسانیت کو ایک نئی رہنمائی عطا کرے گا۔ نظم کا آغاز "ڈھائی ہزار سال سے” جیسے وقت گیر بیان سے ہوتا ہے — جو نہ صرف تاریخی تسلسل کا پتہ دیتا ہے بلکہ ایک روحانی انتظار کو بھی مجسم کرتا ہے۔ "سکوتِ گو مگو” ایک ایسی کیفیت ہے جو امکان و تردید کے بیچ معلق ہے — امید و یاس کی درمیانی سرحد پر کھڑا ہوا ایک ذہنی و روحانی سکوت۔

"ایک بدن کی جستجو” — گویا اب بھی وہ جسم، وہ قالب مفقود ہے جو میتریا کے ظہور کا ذریعہ بنے۔ نظم کا اختتام "جانشین گوتم بدھ…” پر ہوتا ہے — ایک غیر مکمل جملہ، جو اپنے ادھورے پن میں ہی مکمل معنویت رکھتا ہے۔ گویا شاعر نے قاری کو سوال کے دہانے پر چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ جانا مناسب سمجھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب آج کا قاری مطالعے سے دور، اور فکری سطح پر کم آمادہ ہو چکا ہے، تو شہرام سرمدی جیسے شعرا آخر اتنی دشوار راہوں پر کیوں چلتے ہیں؟ اس سوال کا بہترین جواب ان کی نظم اس نے کہا میں موجود ہے:

اس نے کہا

زیرِ خورشید نہیں کچھ تازہ

ہاں، سخن کیجے کہ پہچانے جائیں

There is nothing new under the sun — (Ecclesiastes 1:9)

"فَتَكَلَّمُوا تُعْرَفُوا” — حضرت علی کرم اللہ وجہہ

"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ” — قرآن

یہ محض ایک نظم نہیں، بلکہ شہرام کے طرزِ فکر اور طرزِ اظہار کا بیانیہ ہے۔ شاعر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ دنیا میں کچھ بھی نیا نہیں — نیا اگر کچھ ہے تو وہ اسلوب، آہنگ، زاویۂ نظر اور اندازِ اظہار ہے۔ یہی اسلوب کسی بھی فنکار کو پہچان دیتا ہے، اور یہی اس کی تخلیقی شناخت بنتا ہے۔

اس مفہوم میں شہرام کی تخلیقات، خواہ کتنی ہی مشکل سہی، ان کی انفرادیت، دیانت اور فکری صداقت کی دلیل ہیں۔

شہرام سرمدی کا اسلوب اردو نظم کی روایت میں ایک تازہ مگر پُراسرار دھارے کی طرح داخل ہوتا ہے۔ ایسا دھارا جس کی سطح پرسکون ہے، مگر اس کی تہوں میں نہ صرف فکری پیچیدگی بلکہ جمالیاتی اسرار کی گہری روانی جاری ہے۔ ان کے ہاں نہ صرف زبان کا استعمال غیرمعمولی حد تک پختہ اور نپاتلا ہے، بلکہ ان کا شعری زاویۂ نظر بھی روایتی شاعری سے مختلف ہے۔ وہ شاعری کو محض اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک ادبی معرکہ سمجھتے ہیں—ایسا معرکہ جہاں قاری اور متن کے درمیان ایک ذہنی اور جمالیاتی کشمکش برپا رہتی ہے۔

شہرام کے ہاں سادہ بات کو پیچیدہ بنا کر کہنے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ وہ بات ہی پیچیدہ ہے، جسے وہ پوری ذمہ داری، تہذیبی پس منظر اور فکری صداقت کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے یہاں نہ صرف زبان کی تہذیبی سطح بلند ہے، بلکہ معنی کی تہیں بھی مسلسل تہہ در تہہ کھلتی جاتی ہیں۔ گویا قاری جیسے جیسے نظم میں آگے بڑھتا ہے، ایک نیا دریچہ کھلتا ہے، ایک نئی جہت سامنے آتی ہے، اور ایک نیا فکری زاویہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ شہرام کی شاعری میں مفہوم کبھی سامنے سے نہیں آتا بلکہ قاری کو خود اس کی تلاش میں نکلنا پڑتا ہے۔

ان کے ہاں زبان کا انتخاب محض خوبصورتی یا لسانی نزاکت کے لیے نہیں، بلکہ شعور، دانش، اور تخلیقی تجربے کی نوعیت کے لیے کیا گیا ہے۔ عربی و فارسی الفاظ، اردو کی شعری روایات سے جڑے استعارے، اور فلسفیانہ حوالوں کا امتزاج ایک ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جس میں قاری محض پڑھنے والا نہیں رہتا بلکہ ایک فکری ہمسفر بن جاتا ہے۔ شہرام کی نظموں میں جو ابہام یا گنجلک پن نظر آتا ہے، وہ دراصل ایک شعوری ساخت ہے—ایسا ابہام جو معنی کو محدود کرنے کے بجائے اس کی وسعت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔

ان کی نظموں میں تاریخی شعور، صوفیانہ رموز، بدھ مت، اسلامی روایت، اور جدید انسان کی داخلی کشمکش کا ایسا امتزاج ملتا ہے جو کم کم شعرا کے ہاں دکھائی دیتا ہے۔ شہرام کے ہاں جو تاریخی اشارات، مابعدالطبیعیاتی سوالات، اور ثقافتی حوالہ جات آتے ہیں، وہ محض فضا سازی کے لیے نہیں ہوتے، بلکہ ہر حوالہ نظم کے مرکزی خیال کو ایک نئی گہرائی عطا کرتا ہے۔

یہی وہ اقوال ہیں جو شہرام کی نظموں کا فکری تناظر فراہم کرتے ہیں۔ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں، وہ نیا نہیں — لیکن جس طرح کہہ رہے ہیں، وہی ان کی اصل جیت ہے۔

You may also like