ترے افق میں نئے رنگ ڈھالنے آیا
میں اب کے اور ہی شیشے اچھالنے آیا
اسی کے وار نے ہشیار تر کیا مجھ کو
مرا عدو ہی مری تیغ اجالنے آیا
میں گر چکا تھا کہ نصرت کا رہوار لیے
مجھے مصاف سے کوئی نکالنے آیا
پھر اک رفیق ملا بے اماں مسافت میں
ہوا کا جھونکا بدن کو سنبھالنے آیا
میں شب اداس بہت تھا تو مہرباں موسم
گلے میں بازوئے مہتاب ڈالنے آیا!