نئی دہلی:اترپردیش کے ہاتھر س میں دلت خاتون کے ساتھ مبینہ طور سے کی گئی عصمت دری اور وحشیانہ سلوک پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرتے ہوئے جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے سرکار اور پولس ا نتظامیہ کے کردار پر سوال اٹھا یا ہے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش سرکار کی ترجیحات الگ ہیں، اسے ریاست میں بنیادی مسائل، عوامی ضروریات اور لاء اینڈآرڈر سے دل چسپی نہیں ہے۔جس کی وجہ سے سماج دشمن عناصر آزادگھوم رہے ہیں اور وہ قانون کی پکڑ سے خود کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ ہاتھرس میں جو کچھ بھی ہوا، اس کی مذمت کے بقدر ہمارے پاس کوئی لفظ نہیں ہے اور اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اہل خانہ کی مرضی اور اجازت کے بغیر پولس نے متاثرہ کی لاش کو خود سپرد آتش کردیا، اس سے زیادہ خاندان کے لیے اذیت کی بات کچھ اور نہیں ہو سکتی،یہ انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔
مولانا مدنی نے کہا کہ اترپردیش میں ایسے واقعات مسلسل ہورہے ہیں جو ایک مہذب سماج کے لیے بدنما داغ ہیں۔ یہ واقعات ریاست میں لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال پر بھی سوال کھڑا کرتے ہیں۔ کمزورطبقات، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کی حفاظت کے لیے علیحدہ قوانین موجود ہیں، لیکن یہ اسی وقت موثر ہوسکتے ہیں جب کہ قانون کے رکھوالے اسے ایمانداری سے نافذ کریں۔مذکورہ معاملے میں یوپی پولس نے شروع میں اسے ہلکا معاملہ بنا کر پیش کیا اور کہتی رہی کہ گاؤں والوں کی آپسی لڑائی ہے، اور اس نے ایسی حالت کے باوجود پانچ دن تک اس کی ایف آئی آر تک درج کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کی، اس لیے ایسے پولس افسران پر سخت کارروائی کی جائے جو دلت اور غریب خاندان کا معاملہ دیکھ کر یا طاقتوروں سے ہاتھ ملا کر اس معاملہ کو دبانے میں ملوث پائے جائیں۔
مولانا مدنی نے کہا کہ متاثرہ کو انصاف دلانے کے لیے فاسٹ ٹریک کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے اور مجرموں کو کیفرکردار تک جلد پہنچا کراسے نشان عبرت بنایا جائے۔
ہاتھرس سانحے پر مولانا محمود مدنی کا ردِ عمل:اترپردیش سرکار کی ترجیحات الگ ہیں،اسے لا اینڈ آرڈر سے کوئی دل چسپی نہیں
previous post