حسیں تو ہے ، مگر حسنِ وفاداری نہیں ہے
وہ لڑکی لاکھ اچھی ہو ،مگر پیاری نہیں ہے
ہے اس کا کام لوگوں کے لیے تالے بنانا
کہ جس کی اپنی کوئی چار دیواری نہیں ہے
مرا لہجہ ترے لہجے سے اب کڑوا رہے گا
تری چاہت مرے اعصاب پر طاری نہیں ہے
وہ اپنے ہاتھ سے منہ نوچ کر جو رو رہی ہے
ستم پرور ہے صاحب کوئی بیچاری نہیں ہے
اسی باعث تو ہم ٹھکرائے جاتے ہیں مسلسل
ہمارے پاس تو فن ہے اداکاری نہیں ہے
اسے جب چاہو اپنالو اسے جب چاہو توڑو
یہ میرا دل ہے کوئی چیز بازاری نہیں ہے
یہ جو آ کر کے اب میت پہ میری رو رہے ہیں
اداکاری ہے یارو یہ عزاداری نہیں ہے
جنابِ شوق کو سن کر یہ اندازہ ہوا کہ
بغاوت کا یہ سر ہے راگ درباری نہیں ہے