Home نقدوتبصرہ کتاب”حرف شیریں”کی رفاقت میں-ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

کتاب”حرف شیریں”کی رفاقت میں-ابو معاویہ محمد معین الدین ندوی قاسمی

by قندیل

جامعہ نعمانیہ قاضی پیٹ وی کوٹہ آندھرا پردیش

برصغیر ہند وپاک کی عربی زبان وادب کے نامور ادباء کی فہرست میں ایک نمایاں نام "حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ”کا ہمیشہ چمکتا دمکتا رہے گا، آپ رحمۃ اللہ علیہ ایشیاء کی عظیم دینی درسگاہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب کے سب سے بڑے استاذ سے متعارف رہے ، آپ رحمۃ اللہ علیہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند سے شائع ہونے والا عربی ماہ نامہ "الداعی”کے کامیاب "ایڈیٹر”رہے، آپ کی ادارت میں یہ رسالہ "کامیابی کے بام فلک تک پہنچا”(اللہ تعالیٰ اسے سدا باقی رکھے،آمین) حضرت مولانا نور عالم خلیل امینی رحمہ اللہ جہاں عربی زبان و ادب کے ادیب تھے وہیں آپ اردو زبان وادب کے بھی بے مثال اور کہنہ قلم کار تھے۔

آپ کے اشہب قلم سے دونوں زبانوں میں ان گنت کتابیں منظرعام پر آئیں ، ایسے آپ عرصہ تک عربی میں ہی لکھتے رہے، پھر بعد میں اردو میں بھی لکھنا شروع کئے اور خوب لکھ گئے ،انہیں میں ایک کتاب "حرف شیریں”بھی ہے ، اس وقت میرے سامنے یہی کتاب ہے ،راقم الحروف اس کتاب کو دوسری مرتبہ مکمل مطالعہ کیاہے اور ابھی بھی تشنگی باقی ہے (مزید مطالعہ کیا جائے گا ان شاءاللہ) یہ کتاب 130/صفحات پر مشتمل انتیسواں ایڈیشن (رجب المرجب ١٤٤٤/ھ،__فروری، 2023/ء)ہے۔

یہ کتاب در اصل ایک تقریر ہے جو مولانا رحمہ اللہ نے "مدرسہ شاہی مراد آباد” کے طلباء کے سامنے شب جمعرات ١٣/ربیع الاول ١٤١٧/ھ، مطابق 29/اگست 1996/ء کو کی تھی، بعد میں اسی تقریر کو حک و تہذیب کے بعد کتابی شکل دی گئی ہے اور توقع سے زیادہ مقبول و معروف ہوئی ،مولانا رحمہ اللہ کی کتابوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی بھی یہی کتاب ہے جیسا کہ مولانا رحمہ اللہ اٹھارہواں ایڈیشن میں خود ہی لکھتے ہیں:”کتابی صورت میں چھپنے کے بعد ہندوستان کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے بہت سے مدرسوں اور وہاں کے طلبہ و اساتذہ نے الحمدللہ اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا ؛چناں چہ آج یہ راقم کی سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے ۔”

مرتب کتاب کا انتساب اپنے مایہ ناز استاذ حضرت مولانا وحیدالدین کیرانوی رحمہ اللہ (سابق کار گزار مہتمم دارالعلوم دیوبند)کی طرف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"جنھوں نے عربی زبان اور دارالعلوم دیوبند کے عشق لازوال سے عقل کو سرشار ،قلب کو بے تاب اور فکر و نظر کو تاب ناک بنا دیا ۔اور زندہ و تابندہ زبان کی حیثیت سے ،دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان کی لے کو بڑھاکر ،ساری نسل نو اور تاریخ دارالعلوم پر احسان کیا”

کتاب پر مقدمہ (حرف حکایت) مرتب کے خوشبو ریز قلم بارہ صفحات پر محیط ہے جس میں شان نزول کتاب بڑے ہی اچھوتے انداز میں قلم بند کیے ہیں ،جس کے پڑھنے کے بعد قاری کتاب پڑھنے کے لیے بے چین و مضطرب سا ہوجاتا ہے اور اس کا صحیح معنی میں وہی ادراک کرسکتا جو مقدمہ پر نگاہ ڈالے گا، کتاب کا تعارف کرتے ہوئے صاحب کتاب خود لکھتے ہیں:

", عربی زبان و ادب کی ایک بزم میں کی گئی ،ایک اہم اور دراز نفس تقریر؛جس میں عربی زبان کی اہمیت ،اس کو تحریرا و تقریرا سیکھنے کے طریقوں ،جملہ نگاری سے مضمون نگاری تک کی منزلوں ،عربی کو عربوں کے لہجے میں بولنے کی تدبیروں ،خوش خطی کے فوائد ،بدخطی کے نقصانات ،تحریر کی مختلف شکلوں کے حوالے سے علماۓ نفسیات کے اخذ کردہ نتیجوں ،عربی اور اردو میں عصر حاضر میں استعمال کردہ رموز اوقاف ،عربی میں ہمزے کی کتابت کے ضروری قواعد و امثال ،عربی عبارت کو صرفی و نحوی غلطی سے پاک کرنے کی راہوں ؛کی دل چسپ ،پرلطف اور برجستہ انداز میں نشان دہی کی گئی ہے ۔اس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ زبان وادب کے تمام شائقین کے لیے ایک تحفہ ،پیغام اور ناگزیر ضرورت ہے۔”

مذکورہ بالا تعارف کتاب ہر طرح کی مبالغہ آرائی سے پاک صاف ہے، جو کچھ کتاب میں ہے اسی کو تعارف میں دریا بکوزہ کیا گیا ہے ،نیز کتاب کی قدر و منزلت اور اس کی ضرورت و اہمیت کے لیے یہی کافی ہے کہ میرے سامنے جو نسخہ ہے یہ انتیسواں ایڈیشن ہے۔

جہاں تک کتاب کی زبان و بیان کی بات ہے تو اس کے بارے میں کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مانند ہے، اس کی زبان کی چاشنی و شیرینی کا احساس خود قاری کتاب ہی کرسکتے ہیں، الفاظ کے پیکر میں اسے ڈھالا نہیں جاسکتا، یہ کتاب مدارس و جامعات کے نصاب میں شامل کیے جانے کے لائق ہے، بلکہ بعض ادارے میں نصاب میں شامل بھی ہے۔

اللہ تعالیٰ!اس کتاب کو مرتب کتاب کے لیے آخرت میں بلندی درجات کا سبب بنائے ۔(آمین)

You may also like