Home اسلامیات حرام کمائی سے بچو! -محمد طارق بدایونی

حرام کمائی سے بچو! -محمد طارق بدایونی

by قندیل

عَنِ النَّبيِّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ قالَ: يَأْتي علَى النَّاسِ زَمانٌ لا يُبالِي المَرْءُ ما أخَذَ منه؛ أمِنَ الحَلالِ أمْ مِنَ الحَرامِ۔ (صحيح البخاري۔ ۲۰۵۹)
(اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی کو کوئی پرواہ نہیں ہوگی کہ وہ مال کہاں سے کما رہا ہے؛ آیاحلال راستے سے یا حرام طریقے سے۔)
اسلام میں حرام کمائی سے روکا گیا اور حلال کمائی کی تاکید کی گئی ہے؛ کیوں کہ حلال رزق کشادگی اور برکت لاتا ہے، حرام رزق سے بلائیں آتی ہیں، دل سخت ہو جاتا ہے، ایمان کا چراغ گل ہو جاتا ہے، دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ اخلاق میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، چوری چکاری،ڈاکہ زنی، غصب، رشوت، دھوکہ دہی، ناپ تول میں کمی، یتیموں کا مال کھانا اور عام لوگوں کا مال نا حق ہڑپ جانا وغیرہ کی عادت ہو جاتی ہے۔ حرام، حرام نہیں لگتا اور حلال بھی حرام طریقہ اختیار کر کے کھانے کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے۔ پیٹ کی فکر میں انسان ایسا پھنس جاتا ہے کہ حقوق تلفی، قتل و غارت گری جیسے کالے کارناموں کو ہنر سمجھنے لگتا ہے۔ یہ سب کچھ شیطان کے دکھائے ہوئے سنہرے خوابوں کی وجہ سے ہوتا ہے، وہ شیطان کو اپنا مسیحا سمجھنے لگتا ہے۔ حالاں کہ شیطان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:﴿ يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِين ﴾ [البقرة: 168]۔ (اے لوگو!اپنے رب کا عطا کیا ہوا رزق کھاؤ، جسے زمین سے تمھارے لیے پیدا کیا ہے؛ مگر حرام چیزوں اور طریقوں سے اجتناب کرنا، اُسے مت کھانا جسے اللہ نے حرام کیا ہے۔ اور نہ غصب، چوری، سود اور رشوت سے مال حاصل کر کے کھانا کہ اللہ نے ان سب کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح خبیث و گندی چیزوں؛ خون، خنزیر اور ان تمام چیزوں کے قریب بھی مت پھٹکنا، جنھیں اللہ اور اس کے رسولﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ حلال و پاکیزہ اشیاء استعمال کرو، زندہ رہنے بھر غذا کا حصول تم پر واجب ہے۔ حرام کو حلال اور حلال کو حرام کرنے میں شیطان کے راستے پر مت چلو۔ تم پر اللہ کی شریعت پر چلنا لازم ہے۔ شیطان تو دشمن ہے وہ برائی ہی کا حکم دیتا ہے، ہر خیر سے روکتا ہے، ہلاکت کی ہی طرف لے جاتا ہے، ہدایت سے باز رکھتا ہے۔ شیطان کی دشمنی اور اس کا مکرو فریب اور دھوکہ دہی بالکل واضح اور ظاہر ہے۔)
بجا طور پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ زمانہ آ گیا ہے کہ انسان کو بالکل شعور نہیں ہے کہ وہ مال کیسے اور کہاں سے کما رہا ہے۔ فراڈ، دھوکہ بازی عروج پر ہے۔ فردِ واحد سے لے کر عوام اور عوام سے لے کر حکومت تک اس فراڈ میں مبتلا ہے۔ اب تو باضابطہ ایسی کمپنیاں بنائی جا چکی ہیں، جن کا صرف اور صرف فراڈ بازی، دھوکہ دہی اور حرام راستے سے مال کمانا کام اورمقصد ہے اور ان میں مسلمانوں کی بھی خاصی تعداد ملوث ہے۔ مسلم لڑکے لڑکیاں آنلائن بزنس کے نام پر خوب فراڈ بازی کر رہے ہیں۔جوا کھیلنے کے نئے ذرائع آ گئے ہیں، بعض لوگ تو بعض ذرائع کو حلال کہنے پر مصر ہیں ۔ لیکن جب اس پر تفصیلی بحث کی جائے تو پتہ چلتا ہے وہ صریح حرام ہیں۔
آج کل حرام ٹریڈنگ کا رواج عام ہے۔ بعض کم فہم علماء تک اس طرح کی چیزوں میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ اسی طرح کرکٹ کا اس قوم پر ایسا جنون چڑھا ہے کہ اللہ کی پناہ! سال میں مارچ اپریل/اپریل اور مئی کے مہینے تو صرف سٹّہ بازی اور جوّا بازی میں گزرتے ہیں۔ انڈین پریمیر لیگ (آئی پی ایل) اور پاکستان میں پاکستان سُپر لیگ (پی ایس ایل)نامی کرکٹ ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے آن لائن نہ جانے کتنے سٹّے ایپ ہیں، جنھیں لوگ کھیلتے ہیں، بعض لاکھ پتی و کروڑ پتی بن جاتے اور بعض روڈ پر آ جاتے ہیں۔ اللہ محفوظ فرمائے۔
ایک اور حدیث میں اللہ کے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’قیامت کے دن بندوں کے قدم اپنی جگہ سے نہیں ہٹ پائیں گے یہاں تک کہ ان سے چار چیزوں کے بارے میں سوال کر لیا جائے، ان میں سے ایک سوال مال کے بارے میں بھی ہوگا کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔ (جامع ترمذی،حدیث:۲۴۱۷)
اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مال کو کمانے اور خرچ کرنے میں کس قدر احتیاط کی ضرورت ہے کہ قیامت کے دن اس کے بارے میں الگ سے سوال کیا جائے گا۔ کیا کوئی دانا اس شدید وعید کے بعد بھی حرام مال کو حاصل کرنے کا سوچے گا بھی، ہرگز نہیں! ہاں وہ شخص ضرور اس قبیح عمل کی کوشش کرےگا، جس کے اندر سے خوف خدا نکل چکا ہو اور وہ اپنے رب کی ملاقات پر یقین نہ رکھتا ہو۔
اس حدیث کے تحت کچھ چیزیں جاننا ضروری ہیں:
۱- اللہ کا خوف اور حیا حرام کمائی کے نتیجے میں نکل جاتی ہے۔
۲- حرام کمائی سے لالچ پیدا ہو جاتی ہے، قناعت سے دور ہو جاتا ہے، اور لالچ موت کے منھ میں دھکیل دیتی ہے۔
۳- کمانے کے حرام طریقوں کا استعمال اور انھیں فروغ دینا قیامت کی نشانی ہے۔
۴- حرام ذریعے سے کمایا گیا مال اللہ تعالیٰ کے عذاب آنے کا سبب ہے۔
۵- اگر انسان کوشش کرے تو حلال کمائی کے ذرائع کبھی ختم نہیں ہوتے۔
۶- عمل صالح کی توفیق چھن جاتی ہے اور دعا قبول نہیں ہوتی۔
۷- رزق اور عمر کی برکت اٹھ جاتی ہے۔
۸- حرام کمانے والے کا دل اللہ تعالیٰ کے خوف سے خالی ہوجاتا ہے۔

You may also like