Home تجزیہ ہر مسجد مکہ مسجد بن جائے – شکیل رشید

ہر مسجد مکہ مسجد بن جائے – شکیل رشید

by قندیل

 

خبر تشویش ناک ہے، گذشتہ چوبیس گھنٹے کے دوران ملک بھر میں کورونا کے سولہ ہزار سے زائد مریض سامنے آئے ہیں، مرنے والوں کی تعداد تین ہزار سے زائد ہے۔ مہاراشٹر، دہلی اور گجرات میں اس وباء کے متاثرین اور مہلوکین کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔یہ اعداد و شمار ڈرانے والے ہیں۔ لیکن ایک اچھی خبر یہ ہے کہ صحت یاب ہونے والوں کی شرح بھی بڑھی ہے اور مریضوں کے دوگنا ہونے کی معیاد بھی۔ اب ریاستی حکومتیں ازخود اس وباء سے لڑ رہی ہیں، مرکز کی مودی سرکار نے ابتداء میں تالیاں بجوا کر، تھالیاں پٹوا کر اور موم بتیاں جلوا کر، اور اچانک ملک بھر میں لاک ڈاؤن کروا کر کورونا سے لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ مکمل طور پر اس میں ناکام رہی۔اچانک لاک ڈاؤن کے بڑے ہی خراب اثرات سامنے آئے، مہاجر مزدوروں اور غریبوں کا اپنے ٹھکانوں پر واپسی کا ریلہ کورونا کو دور دور تک پھیلانے کا سبب بنا۔ اس سے قبل وزیراعظم نریندر مودی کا نمستے ٹرمپ اور بی جے پی کا مدھیہ پردیش میں اقتدار ہتھیانے کا گندہ کھیل کورونا کی شدت میں اضافے کی بنیادی وجہ رہا۔یہ سب جگ ظاہر ہے لیکن کورونا کے پھیلنے بلکہ پھیلانے کا سارا الزام تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین کے اجتماع پر ڈال دیا گیا اور ملک بھر میں مسلمانوں کی جان پر بن آئی۔ سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف جو الزامات کا سلسلہ شروع ہوا اس سے نفرت پھیلی، اس کے سنگین نتائج سامنے آئے، مسلمانوں کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، خرید و فروخت بند کر دی گئی اور مار پیٹ و مآب لنچنگ کی گئی۔ ان حالات میں بھی مسلمانوں نے مہاجر مزدوروں اور غریبوں و پریشان حالوں کی جو مدد کی، مسلم تنظیمیں جس طرح مدد کو آگے آئیں وہ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ اور لوگوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ شہروں سے دیہاتوں کی طرف جاتے پریشان حالوں کی زبانیں مسلمان مددگاروں کا شکریہ ادا کرتے تھک نہیں رہی تھیں۔ جانے والے، ہندو مسلم فرقہ پرستی پھیلانے والوں کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ یہ بدترین حالات میں مسلمانوں کی جیت تھی۔ اب تو وہ لوگ بھی جو تبلیغی جماعت پر انگلیاں اٹھا رہے تھے جماعتیوں کے پلازمہ ڈونیشن پر اپنی شرمندگی چھپا رہے ہیں۔ خدمت خلق اسلام کا بنیادی سبق ہے اور لاک ڈاؤن کے دوران جہاں جہاں مسلمانوں نے اپنے اس بھولے ہوئے سبق کو یاد کر کے اس پر عمل کیا وہاں وہاں دوسروں کے دل پسیجے ہیں۔ حالانکہ اب بھی سوشل میڈیا بالخصوص ٹوئٹر پر مسلمانوں کے خلاف وہ زہریلے پروپیگنڈے ٹرینڈ کرتے نظر آتے ہیں جو کورونا کے حوالے سے کئے گئے تھے مگر تلنگانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس وجیہ سین ریڈی نے اس معاملے میں ایک عرضی کی شنوائی کرتے ہوئے مرکزی سرکار، مرکزی وزارت داخلہ اور ٹوئٹر اور تلنگانہ و حیدرآباد پولیس سے جواب طلب کر لیا ہے کہ کورونا سے متعلق ٹوئٹ اب تک کیوں حذف نہیں کیئے گئے۔عرضی گزار ایڈوکیٹ حجازالدین کے مطابق یہ سارے ٹوئٹ اسلام مخالف ہیں۔ اس معاملے کا ایک خوشگوار پہلو یہ ہے کہ چیف جسٹس نے پولیس سے یہ سخت سوال بھی دریافت کر لیا کہ لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کے معاملے میں مسلمان ہی کیوں سب سے زیادہ گرفتار ہوئے کیا دوسروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی نہیں کی تھی؟ اور اعلیٰ افسران کو ہدایت کی کہ خاطی افسران پر کارروائی کی جائے۔ اگر اسی طرح سے دیگر ریاستوں خاص کر یوپی اور دہلی میں عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں تو نتائج اچھے برآمد ہو سکتے ہیں۔ مسلم جماعتیں اس کام کو آگے بڑھا سکتی ہیں۔ جمعیتہ علماء کے دونوں دھڑے تو اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں دوسری مسلم جماعتوں کو بھی قانونی محاذ پر سرگرم ہونے کی ضرورت ہے۔ ویسے خدمت خلق میں ساری مسلم جماعتیں بلا لحاظ مسلک سرگرم رہی ہیں۔ مہاراشٹر کے مسلمانوں نے آئی سی یو کے قیام کے لیے رقم فراہم کی ہے جس کا وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے شکریہ ادا کیا ہے۔ ایسی سرگرمی کے برادران وطن پر مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ مساجد سے بھی خدمت خلق کا کام ہوا ہے، بہت سی مساجد میں کووڈ 19 سینٹر کھلے ہیں جن میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی رکھے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی ہند نے، جس نے لاک ڈاؤن کے دوران کروڑوں روپے لوگوں کی خدمت پر خرچ کیئے، بھیونڈی میں مکہ مسجد میں کورونا متاثرین کی مدد کے لیے مفت آکسیجن کے سیلنڈروں کی فراہمی کا کام شروع کیا ہے۔ اس وقت بھیونڈی کورونا سے شدید متاثر ہے، مریض بڑھ رہے ہیں، مرنے والوں کی تعداد 88 سے زائد ہوچکی ہے، اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے، پرائیویٹ اسپتالوں میں لوٹ کھسوٹ مچی ہوئی ہے، ایسے میں مکہ مسجد میں پانچ بیڈ لگا کر ان کورونا مریضوں کو رکھا جا رہا ہے جنہیں آکسیجن سلینڈر کی ضرورت ہے۔ اب تک جن 113 مریضوں کو وہاں آکسیجن سلینڈر فراہم کیے گئے ہیں ان میں 27 ہندو ہیں۔ گھروں کے لیے بھی مفت آکسیجن سلینڈر کی فراہمی کا کام کیا جا رہا ہے، جن 35 گھروں میں آکسیجن کے سلینڈر دیئے گئے ہیں ان میں سے 9 گھرانے ہندو ہیں۔ مین اسٹریم میڈیا نے مکہ مسجد سے آکسیجن سلنڈروں کی فراہمی کے کام کو سراہا ہے۔ اس طرح کے عمل سے جہاں غلط فہمیاں دور ہوتی ہیں وہیں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار کی ہوا بھی نکلتی ہے۔ یہ کام ہر جگہ ہونا چاہیے۔ ہر وہ مسجد جو ان دنوں کورونا کے سبب بند ہو مکہ مسجد کے طرز کو اپنا لے۔خدمت خلق سے دلوں کو فتح کرنا آسان ہے۔

 

 

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment