حرمتِ حرف اور توقیر ادب کی پاسداری میں زندگی وقف کردینے والے حقانی القاسمی دبستانِ ادب میں اپنے تخلیقی تیوراور تحریری تمازت سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ شناخت ریاضت چاہتی ہے۔انہوں نے علمی وادبی اکتشافات وانکشافات کے نئے جہاں سے ادب علم کو روشناس کیا ہے۔ نئے لفظیات کے تجربے کیے ،نغمگی کے تاثر آفریں سحر انگیزسخن سے قاری کی ملاقات کرائی۔ اپنے باطن کی ہلچل کو اپنی فنی نگارشات میں سمو دیااور سچائیوں کے اظہار بھی پیش نظر رہے۔ ان کا ادبی ذوق و اسلوب لفظوں کی گلپوشی کے ہزار ہارنگوں سے سجا سنورا نظر آتا ہے۔ مطالعہ ومشاہدہ کی بے کرانی ، فکر خیال میں شادابیت، تحریرکی جامعیت وجاذبیت ہی ہے کہ ان کی صلاحیت کے اعتراف میں ہر صنف کے ادب نگاروں کی صفوں میں پذیرائی ہوئی۔ تخلیق وتحقیق کے باب میں متعدد نئی راہیں دریافت کیں اور نئی منزلوں کے نشاںتلاش کیے۔روایتی ادب کے زندہ وتابندہ اقدار کو شگفتگی ودلآویزی سے مالا مال رکھا۔ اپنے قاری کو ادب کی گمنام ،ناآشنا ،نئے جہان کی سیر کرائی، کارگہہ حیات سے ہر وہ موضوع منتخب کیا جو لائقِ اعتنا ہیں۔ کسی بھی تخلیق کار کو اپنے فن کو زندہ رکھنے کے لیے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور مختلف اصناف پر طبع آزمائی سے تخلیق کار کی ذہانت و بلاغت کا پتہ بھی چلتا ہے۔دوسرے یکسانیت کی بوریت اسے مضمحل نہیں کرتی ۔
حقانی القاسمی کے عمیق مطالعے اور تخلیقی وتحقیقی فکر ونظر کا کمال ہے کہ تحریریں رواں، پُرکار، تہذیب یافتہ اور دنیا شناس بھی ہیں کہ بس پڑھتے جائیے اور پڑھتے جائیے۔ جادو بیانی کے در کھلتے جائیں گے…
اپنے ایک انٹر ویو میں،ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں…
’’میلا آنچل والے بھنیشور ناتھ رینو کے شہر ارریا کاایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ بگڈہرہ ، میری آنکھوں میں اسی مٹی کی پہلی صبح ، پہلی شام ، پہلی بارش ، پہلی دھوپ ہے۔ پہلا لمس اور پہلا ہجر بھی اسی کا ہے۔ تتلیاں ،جگنو،چرندپرندسب منظر اسی گاؤں کے ہیں۔ بچپن سے ہی پاؤں آوارگی آشنا تھے۔ اسی لیے کسی ایک مقام پر ٹھہراؤ نصیب نہیں ہوا…‘‘
گویا حقانی صاحب کا یہ تعارف بھی اور عکس تحریر بھی ہے۔ اردو کی ترقی وترویج کی خاطر جو کام انہوں نے کئے وہ معیار،وقاراور مقدار ہر اعتبارسے غیر معمولی ہے۔ ادبی صحافت سے وابستگی کے ساتھ بلند پائے ادیب ،شاعر،افسانہ نگاراور تخلیقی نقاد کے درجے پر فائز ہیں۔
ان کا ادبی ذوق دیوبند اور بنارس میں پروان چڑھا، علی گڑھ کی زبان دانی اور جدیدیت نے ادب کی بنیاد مستحکم کی، مدرسے کی تعلیم نے خود اعتمادی اور حوصلے کی نعمت عطا کی، عربی فارسی ہندی اور انگریزی کے درک نے نکتہ رسی سکھا دی، مادری زبان اردو نے قلم کوقوت اظہار اور ذہن کو وسعت وتوانائی بخش دی۔ وہ بیشک ادیب، نقاد،شاعر ،صحافی ہیں مگر سب خوبیوں میں جو سب سے افضل خوبی ہے وہ ہے ان کی نرم گفتاری اور دلنوازی،ایک سادہ لوح ،خوش اخلاق ،سیدھے سچے مسلمان اور عالم دین ہیں۔ساتھ ہی انسانیت سے بھرپور شخصیت جو توجہ طلب ہے وہ زندگی کے تئیں حوصلے سے بیباک بھی اور پُرشکوہ بھی ہے۔
موصوف کی زرنگارفکر، دل کو موہ لینے والا لہجہ، لفظیات وتراکیب ، نئے شگفتہ وسادہ زبان جوعام آدمی کی سمجھ کی سطح پر براجمان ہوسکے،لکھتے ہیں…
’’نظمیں وہی زندہ اور سدا سہاگن رہتی ہیں جنہیں پورا آدمی میسر ہوتا ہے۔ ایسا پورا آدمی جو اس کا بناؤ سنگار کرے، اجلے سپنوں کی سرسوتی میں اشنان کرائے، سوچوں کی مکمل ساڑی لپٹاکر مخمل کی کنگھی سے بال سنوارے، پیشانی پر جلتے سورج کی بندیا دہکائے اور عشق چنار آتش کے تھوڑے پیڑ اگائے… پھر چاہت کا منگل سوتر پہنائے۔ تب یہ عجیب سی محبوبی نظم بدلے میں تاثر اور زندگی عطا کرتی ہے۔ ‘‘ ( تنقیدی اسمپلاژ)
حقانی صاحب کا ادبی کینواس وسیع ،دلپذیراور زندگی آمیز ہے کہ اپنی تحریروں میں خوابوں میں وہی معنی خیزی ،وہی طرزِ اظہاراپنایا جو مہذب با ذوق تخلیق کار کا خاصا ہوا کرتا ہے۔ انہوں نے اپنی سبک رواں جادو بیانی سے ادب کے دریائے طلسمات میں ہلچل سی پیدا کررکھی ہے۔
اردوادب میں ایک اہم اور معتبر نام فاروق ارگلی کا ہے۔ انھوں نے حقانی القاسمی کی تحریروں سے متاثر ہوکر جو کچھ لکھاوہ توجہ کا متقاضی ہے۔لکھتے ہیں…
’’ نئی نسل کے نامور قلم کار، منفرد نقاد،صحافی ومبصر حقانی القاسمی کو بیس بائیس برسوں سے جانتا ہوں مگر سچے دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ انھیں آج تک پہچان نہیں سکا۔ راقم تو خیراردو کا ایک ادنیٰ سا تذکرہ نگار ہے ، خبر نویس کہہ لیجیے لیکن عہدِ حاضر کے اس عبقری کو پوری طرح پہچان سکنے کا دعویٰ تو اسناد ومناصب کی زرکار خلعتوں میں ملبوس دانشوری کے لیے بھی آسان نہیں۔ اس دور صارفیت میں علم وفضل کی سیلزمین شپ ، برانڈ نگ اور مارکیٹنگ کی فضاؤں میں حقانی شاید اردو دنیا کے واحد شخصیت ہیں جو ڈاکٹری اور پروفیسری کے طرّہ ہائے امتیاز کے بغیر علم وآگہی کے عصری خانقاہوں کے ایسے بوریہ نشیں درویش ہیں جن کے علمی ،فنی اور فکری تصرفات وتخلیقی کمالات کے سامنے اقلیم ادب کی دنیا ساز سلطانی وتاجداری سرنیازِ خم کرنے پر مجبور ہے۔‘‘ (مضمون : حقانی القاسمی)
مشرقی تنقید،ارتقا کی ایک صدی سے زائدمسافت طے کرچکی ہے۔بات جب حقانی القاسمی جیسے تعمیرپسند نقاد کی ہوتوبرجستہ یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ موصوف کا تنقید ی اظہار وامتیاز اوروں سے مختلف بصیرت افروز ،پائے درازاور توجہ طلب ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تخلیقی پیمانے کو اپنے تنقیدی عمل کا وسیلہ بنایا۔ تنقید کو یک رخے پن سے نجات دلائی،مستعار لی فارمولائی حصار میں نہ خود کو مقید کیااور نہ اس سے مستفید ہوئے۔ جو برسوں سے ہمارے نقادوں کے پیش نظر فارمولا گردش کرتا رہا۔
حقانی صاحب کا یہ وصف ہے کہ وہ ادب دوست رہے تو اس کا حق بھی ادا کیا۔نئی روش اور طور سے ادب کو آشنا کیا۔ تخلیق کاجراع کیا تو اسے تخلیقی ادب کے زمرے میںشامل کردیا۔ اس کی وسعت ،پروازکے مختلف دریچے وا کردیے ۔ بوسیدہ روزن سے جھانکناان کی فطرت نہیں اور نہ مروجہ روایات کی تقلید انہیں گوارا ہے۔ سو اپنی طرزِ نگارش کو معتدل ومثبت انداز میں قاری کی نذر کیا۔ جو غیر معمولی مطالعے سے مشروط قوتِ مشاہدہ اور تخلیقی وتعمیری ذہن کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی تھی اور جو منصفانہ فکرونظر کی بھی متقاضی ہے۔ اس خوبی کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے تنقیدی مقالات طوالت کے شکار نہیں ہوتے۔ تخلیقی وجدان میں ایک جہاں کو متاثر کرنے کی صلاحیت اور تخلیق کا حسن وجمال بھی پنہاں ہے۔
موصوف کی نگارش ایسی کہ گویا لفظوں کا دریاکاغذ کے سینے پر رواں ہو،، الفاظ ذہن پر ترتیب وار وارد ہو رہے ہوں۔ تنقید ی مضامین لکھتے وقت مشرقی مراجع و مآخذ کی طرف رجوع کرنا اور یہی مشورہ وہ زیر بحث تخلیق کاروں کو بھی دیتے ہیں۔ ادب کے ہر نقاد کا اپنااپنا زاویہ نظر ہوتا ہے،اس کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ نقاد کی مثال اس مالی کی سی ہے جو کاہل اور سست ہو یا سرے سے وہ موجود ہی نہ ہو تو باغ ،باغ نہیں جنگل بن جاتا ہے۔ فی زمانہ تنقید کے معنی دوسروں پر کیچڑ اچھالنا ،حوصلہ شکنی کرنا، تخلیق کا سوتہ خشک کرنا،جو تنقیدبرائے تضحیک کو واضح کرتی ہے۔کسی زمانے میں نقاد اپنی ذمہ داریوں کے تئیں بڑے بیدار اور مستعد ہوا کرتے تھے ۔کسی افسانہ نگار کا کوئی افسانہ کہیں شائع ہو ا،اس پر گفتگو اور بحثیں شروع ہوجاتیں۔ سرحد پار کے مشہور افسانہ نگار اشفاق احمد کا افسانہ ’’گڈریا‘‘ شائع ہوا اور نقاد اسے قاری تک پہنچانے اور اپنی رائے دینے کو بے چین ہوگئے۔پھر ایسا بھی ہوا کہ احمد ندیم قاسمی کا ایک افسانہ ’’بین‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس افسانے کا شمار احمد ندیم قاسمی کے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے لیکن کسی پرچے نے ،کسی نقاد نے ایک لفظ بھی افسانے کے تعلق سے نہیں لکھا۔حالانکہ افسانہ ’بین‘ کئی جگہ چھپا۔ افسانے کے تعلق سے ناقد ین میں جمود طاری رہا۔ ایسی بہت سی قیمتی تخلیقات بھی نقادوں کے گروپ بندی کا شکار ہوکر ضائع ہوتی رہی ہیں۔ یوں فن تنقید پر اظہار تعزیت درست نہیں۔
تنقید ی ادب میں مثبت رائے تعمیری تنقید کاایک خوشگوار پہلو ہے۔ تنقید برائے تنقید ہر نئے خیال وفکر کو دفن کردیتی ہے جبکہ تنقید برائے تعمیر نئے خیالات کو جلا بخشتی ہے۔تنقید کے بغیر تخلیق کے نہ اسرارورمو ز کھلتے ہیں اور نہ ذائقہ۔ تنقید کو تعصبات کا مجموعہ بننے سے حقانی القاسمی جیسے اعلیٰ ومنفرد فکر، نقاد وتخلیق کار کی ادب وتنقید کو سخت ضرورت ہے۔
موصوف کا تنقیدی وصف توانااور صحت مند ہے۔ ناقدین ومبصرین نے ان کی سوچ وفکر کو مرکز توجہ جانااور مطالعے ومشاہدے کے بعد انہیں تخلیقی نقاد قرار دیا۔ تحریر میں تخلیقیت بھی ہے اور تخلیق کار کے درد کو سمجھنے کا جذبہ بھی۔ انہوں نے کم وقت میں ادبی دنیا میں اپنی شناخت مستحکم کی۔
معروف ادیب،ناقداور صحافی ڈاکٹر سید احمد قادری نے درست فرمایا…
’’حقانی القاسمی کا جو تنقیدی مزاج اورآہنگ ہے اور صحافت میں جو گہرائی وگیرائی ہے اس سے فیصلہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ حقانی القاسمی دراصل کس صنف میں قابل قدر ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کا فن خواہ وہ تنقید میں ہو یا صحافت میں منفرد واعلیٰ ہے۔ادب وصحافت کے امتزاج سے دونوں میں خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنے صحافتی سفر میں ہفتہ وار ’اخبارنو‘ میں اور ’نئی دنیا‘ دہلی جیسے مقبول اخبارات میں بھی تجربات حاصل کیے اور صحافتی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا…‘‘
ان کی تحریروں کے تعلق سے برصغیر ہندوپاک میں بار بار گفتگو ہورہی ہے اور منفرد تخلیقی نقاد قرار دیا جارہاہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے۔انور سدید لکھتے ہیں…
’’حقانی القاسمی نے اپنی تنقید کو تخلیقی قرار دیا ہے جو اس حقیقت کااظہار ہے کہ وہ فن پارے کا صرف تفریحی مطالعہ نہیں کرتے بلکہ مصنف کے باطن میں اتر کر اس کرب کو بھی محسوس کرتے ہیں جو تخلیق کے لمحے میں اس نے محسوس کیاتھااور پھر حقانی القاسمی تخلیق مکرر کے عمل سے گزرتے ہیں اور مصنف کے تخلیقی عمل کا حصہ بن جاتے ہیں۔ حقانی القاسمی کی نکتہ آفرینی خلیل الرحمن اعظمی جیسا ،نوک خار سے لکھنے کاانداز،فضیل جعفری جیسا اور دوٹوک بات کرنے کا طریقہ وارث علوی جیسا ہے لیکن مجموعی فضا گوپی چند نارنگ کی طرح استوار ہوتی نظر آتی ہے۔وہ اپنے گمبھیر مطالعہ کی اساس پر اپنی انفرادیت منواتے اور اپنی ٹکسال کا سکہ جاری کردیتے ہیں…‘‘
حقانی القاسمی کااندازِ بیان سادہ اور کشش انگیز ہے۔ خود کو پڑھوالینے کی صلاحیت بھی تحریر میں موجود ہے۔ اسی وصف سے وہ بھیڑ سے الگ نظر آتے ہیں ورنہ آج ادب کی تخلیق کے نام پر ایسی ایسی بوجھل اور نافہم تحریر یں بھی شائع ہو رہی ہیں کہ دوچار صفحات کے بعد قاری اسے پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ موصوف نظم ونثر دونوں کی تنقید پر یکساں قدرت رکھتے ہیں۔ یہ عمیق مطالعے کا ہی کرشمہ ہے کہ علم وآگہی اور علمی وادبی شغف نے خوب تر انداز بیان کی ہنر مندی سے انھیں آراستہ کیا۔ تخلیقی سرمائے پر معتدل نگاہ رکھی۔ تخلیق کو مطالعے کے سمندر میں ڈبوکر جب باہر نکالا تو اس کا چہرہ مہرہ، روپ رنگ ، سیرت صورت سب قابل ستائش نظر آنے لگا۔یہاں تک کہ اس کے باطن کے آبدار موتی تک رسائی حاصل کرلی اور تخلیق کار کو تخلیق کی صحت کی ضمانت بھی مل گئی۔
حقانی القاسمی کی تخلیقی عمر اتنی دراز بھی نہیں مگر تحریر کی پختگی انہیں زبان وادب کا عالم بناتی ہے۔ حوصلہ اور جہد مسلسل ہوتو ذوق کے مرحلے بآسانی طے ہوجاتے ہیں۔ اردو ادب کا ایک بڑا طبقہ ان کی تنقیدی بصیرت کااسیر ہے جبکہ معاصر انہ چشمک کے وہ بھی شکارہیں۔ لفظوں کو ترتیب سے برت کر چند جملوں میں قاری کے ذہن تک رسائی پانے والی بات بآسانی کہہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے تجربات اور باشعور وباخبر ادبی، سماجی، تہذیبی ،فکری ارتکاز میں حصہ لینے والے تخلیق کار سے بار بار تحریری حوالوں سے احساس رفاقت پیدا ہوتا ہے۔
موصوف نے بہت سارے مضامین جن میں شہروں کو موضوع بناکرمطلوبہ شہر کے تاریخی حوالوں کے ساتھ وہاں کی تہذیب وروایات کو اس طرح واضح کیا ۔ ایک غیر ادبی موضوع کو ادب کے ساتھ فنکارانہ جلو میں پیش کرنے کا ہنر وہ جانتے ہیں، لکھتے ہیں…
’’ مادّیت صارفیت نے شہروں کے مزاج بدل دیے ۔ اب شہروں میں شعور نہیں، شور نہیں، حدِ نگاہ تک ہجوم اور اس میں گم ہوتی تہذیبی وثقافتی قدریں ، یہ ہے شہر کا نیا شناخت نامہ۔ شہر کی بدلتی ہوئی سائیگی میں اب صبحوں کا جمال، شاموں کی ملاحت کون تلاش کرے۔ جاں نثار اختر کی طرح اپنے شہر کے عہد بہاراں، شاداب تمنا کے مہکتے ہوئے خواب، محفل کا فسانہ ، خلوت کا فسوں ، نغموں کی پکار، گیتوں کا سنگھار کون یاد رکھتا ہے۔ اس مصروف ترین عہد میں گل کدہ پارینہ کے بارے میں سوچنے کی فرصت کس کے پاس ہے…؟ اختر شیرانی کی طرح یہ پوچھنے والے بھی تو نہیں رہے…!‘‘
’’کیا شام پڑے گلیوں میں وہی دلچسپ اندھیرا ہوتا ہے
اور سڑکوں کی دھندلی راہوں پر سایوں کا ڈیرا ہوتا ہے
باغوں کی گھنیری شاخوں میں جس طرح سویرا ہوتا ہے
کیا آم کے اونچے پیڑوں پر اب بھی پپی ہے بولتے ہیں
شاخوں کے گھنیرے پردوں میں نغموں کے خزانے کھولتے ہیں
ساون کے رسیلے گیتوں سے تالاب میں امرت گھولتے ہیں
حقانی القاسمی کے تخلیقی ہنر، ناقدانہ اور جمالیاتی شعورکا یہ شناخت نامہ ہے کہ ان کی جدت وندرت اور بصیرت نے ایک ایسا اسلوب خلق کیا جس میں ہجرت کا دکھ ہے ، روایتوں کے مٹنے کا کرب ہے، گاؤں کی مٹی کی خوشبو انہیں لوٹ آنے کا نیوتا دیتی ہے، وہ شہروں کے شور ،بھیڑ بھاڑ سے اکتائے نظر آتے ہیں۔ پرانی یاد بھی دل کو کچوکے لگاتی ہے۔ان کی طرز نگارش ایسی کہ مختلف مزاجوں خیالوں کو اپنے قلم کے حصار میں لے کر ان کی روح کو مدوجزر کی کیفیات میں مبتلا کردیتے ہیں۔
موصوف کا دائرہ فکر وفن نقد وتحقیق تک محدود نہیں، ان کا تخلیقی وژن بہت وسیع اور قابل قدر ہے۔ اس کا ثبوت ان کی متعدد معرکۃ الآرا تصانیف اور ا ن کی زبان سے ہوتا ہے۔ ’رینو کے شہر میں‘ ایک ایسا شاہکار جو مصنف کے دلی احساسات وجذبات کا خوبصورت منظر نامہ ہے۔ اپنے مادر وطن سے جذباتی لگاؤ، روح کی وابستگی اپنے آبائی گاؤں ،ارریہ کی عظمتوں کا بیان جس انداز میں اردو دنیا کے سامنے پیش کیا ،ہر اس آدمی کے دل کی یہ آواز ہے جو ہجرت نصیب ہے۔
بنارس پر لکھے اپنے ایک مضمون میں بنارس کا تعارف کچھ اس انداز میں پیش کیا…
’’شیو کا بسایا ہوا پانچ ہزار سال پرانہ یہ وہ شہر ہے جس کا ذکر ہندوؤں کے مقدس صحیفوں رگ وید،اسکندپران،مہابھارت میں بھی ہے۔ شاد عباسی نے نبی احمد سندیلوی کی کتاب مرقع بنارس کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک انگریز کا خیال ہے کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ بنارس کب آباد ہوا تھا تو ہمالیہ پہاڑ کے عالم وجود میں آنے کا زمانہ معلوم کرنا آسان ہوگااور یہ بھی کہ ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ طوفان نوح میں اس شہر کو وشوناتھ نے اپنے ترشول پر اٹھا لیا تھااور جب قیامت آئے گی تو یہ شہر محفوظ رہے گا…‘‘
حقانی صاحب قابل مبارک بادہیں کہ و ہ شہر کی تاریخ وسیاحت پر نظر رکھتے ہیں اور پھر تاریخ کے ساتھ ادبی پہلو کو بھی ملحوظ رکھتے ہیں۔ ہر صنف ادب میں ان کے تخلیقی جوہر نمایاں نظر آتے ہیں اور باکمال بھی ہیں۔
ان کی صحافت کے سفر کا پہلا پڑاؤ، م۔افضل کے مقبول عام ہفت روزہ ’اخبار نو‘ تھا۔ بعد ازاں شاہد صدیقی کے مقبول ترین ہفت روزہ ’نئی دنیا‘ سے وابستہ ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ برس تک صحافت کی خار دار وادیوں کی سیاحت کی اور قلم کی جادو بیانی سے اردو داں طبقے کو مسخر کیا۔ نئی دنیا میں ’تکلف برطرف ‘کے عنوان سے تہذیبی ،علمی اور سیاسی موضوعات پر جو کالم لکھے وہ ان کی ذہنی وفکری وسعت اور علمی بصیرت کا اول ثبوت ثابت ہوا۔اردو دنیا میں ان کے نام وکام کا دبدبہ قائم ہوا اور ملک بھر سے پذیرائی ملی۔ ان کی ذہنی وقلمی صلاحیت اور علمی بصیرت کا پہلا ثبوت انہوں نے صحافت کے میدان کو پیش کیا۔ نئی دنیا میں لکھے گئے ان کے کالموں کا مجموعہ ’تکلف برطرف ‘ 2005 میں شائع ہوا۔ 2003میں صلاح الدین پرویز کی ادبی دوستی اور ذہنی مفاہمت کے نتیجہ میںرسالہ ’ استعارہ‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ ادبی دنیا میں اس رسالے کو قابل قدر پذیرائی ملی۔ حقانی القاسمی اس کے شریک مدیر تھے۔ استعارہ کے مشمولات میں ’’حقانی تبصرے ‘‘نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ ساتھ ہی ’باب عشق‘ یہ دو ایسے موضوع تھے جو ہنگامہ خیز ثابت ہوئے۔ہندوستان میں یہ تب تک کا سب سے ضخیم سب سے منفرد ادبی جریدہ اول تا آخر حقانی القاسمی کے قلمی جادوگری اور تحریر کا کرشمہ تھا۔افسوس کہ ’استعارہ‘ لمبی حیات نہ پاسکا۔ موصوف کی ادارت میں نکلنے والے چوبیس شمارے جو اہم ادبی دستاویز کی صورت ،اردو دنیا میں ناقابلِ فراموش بن گئے۔ استعارہ کی مقبولیت اور مشمولات ان کے صحافتی سفر کا ایک کامیاب پڑاؤ ثابت ہوا۔تخلیق کے جوہر کھلے اور تنقید کے تخلیقی منظر نامے پر وہ چھا گئے۔ عالمی فضائے ادب میں اپنے نام اور اپنی محنت سے انہوںنے جگہ بنائی۔ 2007 میں وہ سہارا گروپ سے وابستہ ہوئے اور ادارے سے شائع ہونے والے ماہنامہ’بزم سہارا‘ کی ادارت سنبھالی تو اردو کے معیاری علمی ادبی اور تنقیدی صحافت کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ یہ اردو کا پہلا بین الاقوامی جریدہ تھا۔عزیزبرنی جیسے جید صحافی کے خوابوں کی تعبیر اور سہارا کمپنی کی اردو دوستی کے جلو میں حقانی القاسمی کی صحافتی مہارت نکھر کر سامنے آئی اور بزم سہارا کواردو دنیا کا ممتاز ترین جریدہ بنادیا۔ انہوں نے جریدے کے ذریعے ادب وتہذیب کے جو چراغ جلائے وہ کامیاب تجربہ ثابت ہوا۔ ’شہر سخن‘ اور ’جہانِ دانش‘ جیسے سلسلوں کے ذریعہ ملک کے متعدد شہروں کے،قصبوں کے اردو کے شاعروں ، ادیبوں،اسکولوں، کالجوں اور ثقافتی ادبی انجمنوں کی صورتحال اور سرگرمیوں کا بھرپور جائزہ پیش کیا۔ پانچ سال کے عرصے میں ’بزم سہارا‘ نے علم وادب کے فروغ میں ایسا تاریخ ساز کارنامہ انجام دیا جسے آج بھی اس کے قارئین یاد کرتے ہیں۔
حقانی القاسمی نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں ارریہ میں حاصل کی، اس کے بعد جامعہ اسلامیہ بنارس میں داخل کرائے گئے۔ 1984سے دارالعلوم دیوبند میں دو سال کی تعلیم کے بعد دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے۔ 1986میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی آگئے اور دو سال بعد اس عظیم درسگاہ سے ایم اے اور ایم فل سے آراستہ ہوئے۔ حقانی القاسمی عرف عبدالحق 1970کو موضع بگڈیرہ ،ضلع ارریہ (سابق پورنیہ بہار) کے ایک معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔
سچے اور مخلص تخلیق کار کی پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ ادب کے سارے اصول وضوابط اس کی مٹھی میں ہوتے ہیں۔ ادب میں ایسی شخصیتیں کم ہی ہیںجو بیک وقت اتنے اوصاف کی حامل ہوں۔ انہوںنے خاموشی میں ادب سے سرگوشی کی،اپنی ہی دھن میں اپنی تحریروں کے خدوخال سنوارے، نام ونمود سے قطعی بے نیاز اپنے قلم سے حرف وصوت کی آبیاری کرتے رہے ہیں۔
کتابیں :
فلسطین کے چار ممتاز شعراء(1995) ، طواف دشتِ جنوں(2003) ، لاتخف(2004) ، تکلف برطرف (2005) ، دارالعلوم دیوبند کا ادبی شناخت نامہ (2006) ، رینو کے شہر میں(2007) ، خوشبو روشنی رنگ(2009) ، بدن کی جمالیات(2010) ، شکیل الرحمن کا جمالیاتی وجدان(2010) ،
ان کتابوں کے وہ خالق ومالک ہیں۔علاوہ اس کے دیگر بہت سی کتابیں مرتب وتالیف کردہ ہیں۔
بقول حقانی القاسمی…
’’ میرے مضامین اور کتابوں کی تعداد خاصی ہے لیکن میں مطمئن نہیں ہوں۔ ابھی مجھے ایسی کتاب کاانتظار ہے جو قاری کے وجود کا حصہ بن جائے۔ میں مضطرب ہوں اوریہی اضطراب شاید مجھے زندہ رکھے ہوئے ہے۔میں قلم کی جنبش اور ان جزیروں کی جستجو میں ہوں جو میری دنیا سے غائب ہوتے جارہے ہیں…!‘‘