وانم باڑی،موبائل: 9894604606
جیسا کہ اُن کا خاصا ہے، جناب بہت تپاک سے ملے، سلام دعا کے بعد چائے کا پوچھا اور بچوں کو چائے لانے کا کہہ کر میری طرف متوجہ ہوئے۔
” بہت دنوں بعد تشریف آوری ہوئی ہے، ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے اتنی بیگانگی اچھی نہیں ہوتی محترم! اور کیا حال ہے؟ ” جناب کے لہجے میں خلوص کی بوچھاڑ تھی۔
” آپ کی دعائیں ہیں جناب، آپ تو جانتے ہیں میری مصروفیات اور آج کل کرونا کی وجہ سے کہیں بھی آنا جانا نہیں ہورہا ہے۔” میری بات کاٹتے ہوئے جناب پھر گویا ہوئے، ” بے شک، بے شک،اس وبا نے تو ہمارے شب و روز ہی بدل دیے ہیں ” اس سے پہلے کہ وہ اپنی گفتگو طویل کرتے، میں مطلب پر آنا بہتر سمجھتے ہوئے بول اُٹھا ” جی جناب! آپ سے کچھ معلومات چاہئے تھیں، شہر کی چنندہ تاریخی شخصیات پر میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں، اس میں آپ کے والد، چچا اور دادا کا ذکر بھی آرہا ہے، تعلیمی میدان میں، سماجی بہبودی اور ترقی میں اُن کی خدمات قابل قدر رہی ہیں۔ اُن کے تعلق سے بہت ساری باتیں میں نے اکٹھا کر لی ہیں، صرف اُن کی ٹھیک تاریخ پیدائش اور تاریخ وفات چاہئے تھیں، میں نے سوچا یہ صرف آپ کے پاس ہی مل سکتی ہیں اگر آپ یہ مہیا کرادیں تو مہربانی ہوگی۔” میں نے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کردی۔
” ماشا ء اللہ! ماشاء اللہ! آپ بہت اچھا کام کررہے ہیں محترم، اس سلسلے میں مجھ سے جو ممکن ہوگا میں کرونگا، ” جناب نے مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا اورمڑ کر آواز دی، ” بیٹا وہ میری پرانی والی ڈائری لانا۔” اور پھر میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے، ”میں نے اپنے خاندان کے تمام افراد کی پیدائش اور جو لوگ وفات پاچکے ہیں ان کی تاریخ وفات ایک ڈائری میں لکھ رکھی ہیں۔” اتنے میں اُن کا بیٹا ڈائری لے کر آگیا۔
جناب ڈائری لے کر اس کی ورق گردانی کرتے ہوئے کہنے لگے ” میرے والد کی تاریخ پیدائش 12 اکتوبر 1944 ہے اور اُن کی وفات 16 جنوری 2009، چچا مرحوم اُن سے چار سال چھوٹے تھے، اُن کی تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1948 اور تاریخ وفات 26 فروری 2017 ہے، آپ تو والد اور چچا مرحوم کے جنازے میں شریک تھے شاید اور دادا مرحوم کی تاریخ پیدائش 23 مارچ 1919 ہے اور تاریخ وفات 23 نومبر1986 ہے۔”
میں نے جلدی سے اپنا موبائل نکالا اور ان کی فراہم کردہ معلومات نوٹ کرنے لگا۔
”جزاک اللہ، شکریہ جناب، لگتا ہے آپ کی یہ ڈائری تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔” میں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔
” اس میں شکریہ کی کیا بات ہے محترم، آپ جب اتنا بڑا کام کر رہے ہیں تو ایسے میں آپ کے کام آنا میرا بھی تو فرض بنتا ہے، رہی یہ ڈائری
ہاں محترم! اس میں ہمارے خاندان کے پانچ جنریشن کے تعلق سے معلومات ہیں، نام، تاریخ پیدائش، تاریخ نکاح، مرحومین کے تاریخ وفات وغیرہ۔” یہ کہتے ہوئے جناب کے چہرے پر تفاخر کی ایک چمک اُتر آئی۔
”بہت خوب جناب، اب مجھے اجازت دیں،” میں نے اٹھتے ہوئے کہا، ” ایک اور بات، میں آتے ہی آپ کو سال نو کی مبارک باد دینا بھول گیا، ہیپی نیو ائیر جناب۔”
” لاحول! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں محترم!” جناب کے لہجے میں ناراضگی نمایاں تھی،” ہم مسلمان ہیں، ہمارا اسلامی سال محرم سے شروع ہوتا ہے، یہ آپ عیسائیوں کی عیسوی سال نو پر ہم مسلمانوں کو مبارکباد دے رہے ہیں!! مجھے آپ سے اس کی توقع نہ تھی۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی تاریخ اور سال کو رواج دیں، اسلامی سال نو پر مبارکباد دیں۔” پتہ نہیں وہ اور بھی کیا کیا کہہ رہے تھے، اُن کے اس اچانک بدلتے لہجے پر میں اتنا حیران ہوگیا کہ مجھے ان کی باتیں کہیں دور سے آتی ہوئی لگنے لگیں۔ میں تعجب سے کبھی ان کے چہرے کو دیکھتا جہاں ایک عجیب قسم کی تاریکی اُتر آئی تھی، کبھی ان کے لہجے اور بات پر غور کرتا اور کبھی اُس ڈائری کو دیکھتا جو انہوں نے بہت مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔(جس میں بقول اُن کے، اُن کی فیملی کے پانچ جنریشن کے تعلق سے اہم معلومات درج تھیں، عیسوی تاریخ کے حساب سے)۔