Home تجزیہ ہاں تلخیِ ایام ابھی اوربڑھے گی!

ہاں تلخیِ ایام ابھی اوربڑھے گی!

by قندیل

مولانااحمدحسین قاسمی
معاون ناظم امارتِ شرعیہ
حکومت نے اپنی اکثریت کی طاقت کے بل پر ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بدترین سٹیزن شب بل(CAB) دونوں ایوانوں سے پاس کراکرایک منحوس اورجمہوریت کا قاتل ایکٹ (قانون)توبنالیا،مگروہ ہندوتوا کے زعم میں یہ بھول گئی کہ اس سرزمین نے ماضی کی تمام تاریخی واقعات اورسیاسی انقلابات میں اپنی پشت پر تشدد،انسانیت سوز مظالم اورناانصافی کو کبھی قبول نہیں کیاہے، خواہ وہ رام اورراون کے درمیان حق وباطل کی جنگ ہویا کوروؤں اورپانڈوکے درمیان کا معرکہ یامظلوم ہندوستان اورانگریزوں کے مابین کی عظیم جنگ آزادی ہو،یہاں کے تاریخی دستاویزات ہمیں بتارہے ہیں کہ اس بھارت نے ظلم کو کبھی برداشت نہیں کیاہے، یہ خوبی مادروطن کے ذرے ذرے میں ہے اوراس زمین سے اٹھنے والی ہرنفس ہرجان کے اندر قدرت نے یہ خوبی ودیعت کی ہے۔
ادھرچندروز قبل پارلیامنٹ اورراجیہ سبھا سے بل پاس ہواورادھر شمال مشرق بھارت جل اٹھا،پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی اکثر ریاستوں میں ملک گیرسطح پراس قانون کی چوطرفہ مذمت کے ساتھ پرتشدد احتجاج کا وہ سلسلہ شروع ہوا، جواب رکنے کا نام ہی نہیں لے رہاہے، جامعات،کالجز اوراسکول ومدارس کے طلبہ وطالبات کے ساتھ سیکولر پارٹیاں اورتمام سیاسی اپوزیشن ومذہبی جماعتیں پرجوش اورآئینی جذبات سے لبریز ہوکر پولس کے تمام وحشیانہ مظالم کی پرواہ کئے بغیر رات ودن انقلاب آفریں مظاہرے اوراحتجاج کررہی ہیں، ملک کی چھ ریاستوں نے اس سیاہ قانون کو مستردکرتے ہوئے اپنے یہاں نافذ نہ کرنے کا اعلان کردیاہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے بڑی عیاری کے ساتھ اس قانون میں مسلمانوں کے علاوہ تمام مذاہب کو شمولیت دی تھی،مگربھارت کے دانش مندلوگوں نے حکومت کی مکاری وفریب کوآشکاراکردیا اورزیادہ ترمظاہروں میں مسلمانوں سے آگے بڑھ کر ملک کے آئین ودستور کی حفاظت کا عظیم کارنامہ عام برادران وطن نے انجام دیا، اورحکومت کے فاشسٹ اورہندوراشٹرپر مبنی اس زہریلے اقدام کو سرے سے نکاردیا،پوری دنیا کے اہم اورعظیم ممالک سے بھی بڑے پیمانے پراس سیاہ قانون کی مذمت ہورہی ہے،کیوں کہ ۹۱/ویں صدی سے لے کر اب تک تمام ممالک میں غیر معمولی طورپر سیکولر زم کو فروغ حاصل ہواہے اورخصوصیت کے ساتھ ۱۲/ویں صدی سیکولرزم کی صدی ہے،جوہندوتوا کے بڑھتے ہوئے سایے کی فکری وعملی نفی ہے۔
مئی۴۱۰۲ء میں برسراقتدارآنے کے بعد مودی نے نمایاں طورپراپنی پہلی میعاد حکومت میں ملک کو دوتحفے دیے تھے، ایک نوٹ بندی دوسرا جی ایس ٹی(GST)،ان کی کاری ضرب سے یہ ملک ایسامعاشی واقتصادی بحران کا شکارہواکہ اس ملک کی جی ڈی پی کی شرح نیپال سے بھی نیچے گرتی جارہی ہے، ملک کی اکثر مصنوعات شوروم اورفیکٹریوں کی زینت بن کر رہ گئیں، جس کی دہائی پورا ملک دے رہاہے۔ اس کے ساتھ اس حکومت کو ترقی کے کئی محاذ پر بڑی ناکامیوں کاسامنا کرناپڑا،تواس نے اپنے تمام عیوب کو چھپانے کے لئے بھارت کے سیدھے سادے عوام کے مذہبی جذبات اورفرقہ وارانہ منافرت کو ہوادینا شروع کیا؛چنانچہ اس نے اپنی دوسری میعاد حکومت میں ووٹ بینک کی حفاظت کے پیش نظربالترتیب صرف اورصرف منفی ایشوز کوہوادیا، خواہ وہ ۳/طلاق مخالف بل ہویاکشمیر میں آرٹیکل ۰۷۳ کے خاتمے کا اندوہناک مسئلہ ہو یا بابری مسجد قضیہ میں عدالتی فیصلہ ہو،اب مرکزی حکومت ہندوراشٹرکاپہلا دروازہ CAA کی تشکیل کے ذریعے کھولناچاہ رہی ہے، ان چارناکامیوں کے علاوہ اس حکومت نے کیاکارنامے انجام دئے ہیں اورملک کی ترقی کے لئے کون کون سے اقدامات کیے ہیں عوام ان کی تفصیلات جانناچاہتی ہے، عام برادران وطن مثبت سوچ کے ہیں، انہیں اس ملک کادستور بے پناہ پسند ہے، وہ صدیوں سے ایک ساتھ مل جل کررہتے آئے ہیں، جمہوریت پران کا پختہ ایمان ہے، CAA کے خلاف اس ملک کے ساتھ دنیا بھر میں ہورہے احتجاجات نے اب باضابطہ ایک تحریک کی شکل اختیارکرلی ہے، اس طوفان میں حکومت کا چراغ بھی گل ہوسکتاہے، مگراس کے لیے یہاں کے تمام باشندوں کو مذہب ودیگرتمام تعصبات سے اوپر اٹھ کر جنگ آزادی کی طرح یہاں کے جمہوری دستور اورسیکولرزم کی حفاظت کے لیے جدوجہدجاری رکھنی ہوگی۔
اس لیے کہ اس قانون نے آئین کے بنیادی آرٹیکل سے چھیڑچھاڑ کی ہے یہ خالص ملک کے جمہوری دستور کا معاملہ ہے، حکومت ہرگز اسے سرسری طورپر نہ لے، طلبہ اورعوام کی قربانیاں اوریونیورسیٹیوں کے ساتھ عوام کا روڈ پر آجانا حکومت کو باہر نکلنے کی دستک دے رہاہے، فوری طورپر حکومت اس بل کو واپس لے یا اس قانون میں دوسرے مذاہب کی طرح مسلمانوں کو بھی شامل کرکے اس ملک کی صدیوں پرانی گنگاجمنی تہذیب کو اپنے حال پہ باقی رہنے دے، ورنہ ڈر ہے کہ کشمیرکی طرح پورے ملک میں معمولاتِ زندگی معطل نہ ہوجائیں اوریہ اندھاقانون برسراقتدارحکومت کے زوال کا سبب نہ بن جائے:
ہاں تلخیِ ایام ابھی اوربڑھے گی
ہاں مشق ستم اہل ستم کرتے رہیں گے

You may also like

Leave a Comment