اسرائیلی پروپیگنڈہ ہے جو ساری دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے بہت سی حکومتیں جو غیر جانبدار بھی ہوں، لیکن وہ غلط فہمی میں مبتلا ہوں۔ بعض اوقات یہ سوال خود مسلمانوں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ حماس کو کیا پڑی تھی کہ وہ اسرائیل پر راکٹ داغ کر اس جنگ کو کھڑا کرتا۔ جبکہ اسے معلوم تھا کہ اسرائیل کی طاقت اس سے سو گنا سے بھی زیادہ ہے، یہ بھی معلوم تھا کہ اس کی پشت پر امریکہ کھڑا ہے، برطانیہ کھڑا ہے۔ تو وہ چند راکٹ داغ کر کیسے اس جنگ میں فتح حاصل کرسکتا ہے، لہذا بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ حماس نے یہ خودکشی کا اقدام کیا ہے اور یہ کوئی عقل کی بات نہیں تھی کہ اتنی بڑی طاقت کو اس طرح للکار کر ایسے حالت میں جب کہ حماس کے پاس نہ کوئی فضائی طاقت ہے نہ اس درجے کے ہتھیار ہیں جیسے اسرائیل کے پاس ہیں، امریکہ او ربرطانیہ ان کی مدد کےلیے کھڑے ہیں تو یہ ایک طرح سے خودکشی کا اقدام ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل اپنے ذات میں کوئی قوت نہیں ہے، یہ ساری قوت دے کر اسے کھڑا کیاگیا ہے عالم اسلام کے بیچ و بیچ، اور اس کا مقصد درحقیقت صرف فلسطین نہیں بلکہ پورے عالم اسلام کےلیے ان کے خیال میں ناقابل تسخیر قوت پیدا کردینا ہے۔ میں نے عرض کیا تھا پچھلے جمعہ کو سن ۱۹۴۷ میں پاکستان قائم ہوا، اور سن ۱۹۴۸ میں اسرائیل کی حکومت کا اعلان کیاگیا اور اس کا قیام عمل میں آیا۔ ہزاروں لوگوں کا خون بہاکر دیر یاسین کے اندر مسلمانوں کو ذبح کرکے، ظلم وستم کی انتہا کرکے ان کو اپنے گھروں سے نکال کر ۱۹۴۸ میں یہ قیام عمل میں آیا اسی وقت قائداعظم محمد علی جناح نے یہ کہا تھا کہ ’مغربی طاقتوں کا ناجائز بچہ ہے‘۔ ایک طرف پاکستان ایک اسلامی قوت کے طو رپر ابھر رہا تھا اسی وقت عالم اسلام کے بیچ میں ایک ناسور پیدا کردیاگیا جس کا نام اسرائیل ہے اور پھر طرح طرح کے حیلے بہانوں سے مسلمان ملکوں کو اس بات پر آمادہ کیاگیا کہ وہ یہودی ریاست کے طو رپر تسلیم کریں۔ کچھ ریاستیں دبائو میں آکر انہیں تسلیم کرچکی ہیں، مصر ہے، اردن ہے انہوں نے بطور ریاست اسے تسلیم کرلیا، اب صورت حال ایسی بن رہی تھی کہ اس کو تسلیم کروانے کےلیے مسلمانوں کے مرکز یعنی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات استوار کرانے کی کوشش کی جارہی تھی، ایک مرتبہ سعودی عرب اگر اسرائیل تسلیم کرلے تو پھر دوسرے مسلمان ملکوں کےلیے مشکل ہوجاتا کہ وہ اس کو تسلیم نہ کرے، لہذا اس کے ذریعے یہ سازش کی جارہی تھی کہ اسرائیل سارے مسلمان ملک اس کو ایک یہودی ریاست کے طو رپر تسلیم کرلے، اور ایسا نہیں ہے کہ حماس نے اچانک حملہ کردیا ہو، اس کی پوری تاریخ ہے، کہ اسرائیل کے قیام سے لے کر فلسطینیوں کے اوپر ظلم وستم اور بربریت کی ان اقدامات کی ایک تاریخ ہے، جس کو ہر باخبر مسلمان جانتا ہے، ہر کچھ عرصے کے بعد فلسطین کے کسی نہ کسی حصے میں فلسطینیوں کو ذبح کیا جاتا تھا۔ تو حماس نے محسوس کیا ہوگا واللہ اعلم اگر ایک مرتبہ اسرائیل کو سارے عالم اسلام نے تسلیم کرلیا تو پھر یہ ناسور پوری طاقت سے وجود میں آئے گا اور صرف فلسطین نہیں بلکہ ان کا جو منصوبہ ہے گریٹر اسرائیل وہ وجود میں آجائے گا، اس لیے انہوں نے یہ سوچا کہ اس موقع پر اگر کوئی کاری ضرب نہ لگائی گئی تو یہ تعلقات جو اسلامی ملکوں سے قائم ہورہے ہیں، کم از کم وہ رک جائیں گے، اور ایسا ہی ہوا ان کے اقدام کی وجہ سے الحمدللہ مسلمان ملکوں میں ایک شعور پیدا ہوا اور وہ جو معاہدات ہونے جارہے تھے وہ ختم ہوگئے پہلی کامیابی انہوں نے یہ حاصل کی۔انہوں نے سوچا کہ مرنا تو ہے ہی تو عزت کی موت کیوں نہ مرے، ایک مسلمان مجاہد کی موت کیوں نہ مریں ، لہذا انہوں نے یہ اقدام کیا اگرچہ یہ اقدام عقل پر نہ آئے لیکن جس کے پیش نظر اللہ کی راہ میں شہید ہونا ہوتا ہے شہادت جس کی منزل مقصود ہوتی ہے اس کے لحاظ سے یہ بالکل درست اقدام تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے اس نے اسرائیل کی شوکت پر، اس کے دبدبے پر اور اس کے ذہنوں پر جو رعب چھایا ہوا تھا اس رعب کے اوپر کاری ضرب لگائی ہے ،اور اگر یہ استقامت کے ساتھ جنگ جاری رہے، او رجو مسلمان ملک ہیں وہ اپنے فرائض ادا کریں تو کچھ اللہ کی رحمت سے بعید نہیں ہے کہ یہ ایک فیصلہ کن معرکہ ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں اس ناسور سے نجات عطا فرمائے۔
نوٹ: یہ تحریر مولاناتقی عثمانی کے نماز جمعہ جامع مسجد جامعہ دارالعلوم کراچی کے اکتوبر ۲۰ تاریخ کے طویل خطاب سے مقتبس ہے۔