Home تجزیہ ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

ہمیں یقیں تھا ہمارا قصور نکلے گا

by قندیل

ڈاکٹر عابدالرحمن (چاندور بسوہ)
[email protected]
دہلی فسادات کی جو خبریں اب آرہی ہیں ان کے مطابق مرنے والوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے جلے ہوئے گھر اور لوٹی ہوئی دکانیں بھی تقریباً سبھی مسلمانوں کی ہیں، اپنے بیٹوں باپ یا شوہر کو ڈھونڈنے والے بھی مسلمان ہیں، رو رو کر فسادات کی داستانیں سنانے والے بھی مسلمان ہیں اور رلیف کیمپوں میں پناہ لینے پر مجبور بھی مسلمان ہی ہیں۔ ویسے تو فسادات کے دوران ہی یہ خبریں آئی تھیں کہ یہ فساد نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ اورٹارگیٹیٹ حملہ تھا جس میں چن چن کے مسلمانوں کو اور ان کی پراپرٹی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔لیکن اب پولس کارروائی کی جو رپورٹس آرہی ہیں اس میں بھی ایسا لگتا ہے کہ فسادات ہی کی طرح چن چن کر مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا، حالانکہ ہزاروں لوگوں کی گرفتاری کی خبر ہے جن میں کتنے مسلمان ہیں اور کتنے ہندو اس کی کوئی جانکاری ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے لیکن جو خبریں خصوصیت کے ساتھ میڈیا میں آرہی ہیں ان میں مسلمانوں ہی کی گرفتاری کی باتیں ہیں، مرنے والوں میں مسلمان زیادہ ہیں لیکن جو خبریں آرہی ہیں وہ ہندو مہلوکین کے معاملات میں مسلمانوں کی گرفتاری ہی کی خبریں ہیں، انکت شرما کی ہلاکت کے معاملے میں طاہر حسین اور اس کے ساتھیوں کی، پولس ہیڈ کانسٹیبل کی ہلاکت کے معاملے میں کل سات مسلمانوں کی اور ایک دلبر نیگی کی ہلاکت کے معاملے میں محمد شاہنواز کی۔ اور کہا جارہا ہے کہ ان سب کے خلاف پختہ ثبوت پولس کے ہاتھ لگے ہیں۔یہ تو پولس ذرائع کی خبریں ہیں۔ نیوز پورٹلس کی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسلمانوں کی گرفتاریاں بڑے پیمانے پر ہوئی ہیں، پولس آرہی ہے اور لوگوں کو گھروں سے اٹھا کر لے جارہی ہے،ان سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے یہاں تک کہ وکلاء کو بھی روکا جارہا ہے۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ قاتل کوئی بھی ہو کسی کا بھی قتل کیا گیااسی طرح فسادی کوئی ہو اسنے کسی کے بھی خلاف فساد کیا ہو اس کے خلاف سخت ترین کارروائی ہونی چاہئے،اور فسادات کی سازش کرنے والوں اور فسادات بھڑکانے والوں کے خلاف اس سے بھی سخت کارروائی کی جانی چاہئے لیکن کیا دہلی فسادات میں مسلمان ہلاک نہیں ہوئے، ان کے قاتلوں کی گرفتاری کی کوئی خبر اب تک کیوں نہیں آئی؟ ہندوؤں کی گرفتاریوں کی بھی خبریں ہیں لیکن مسلمانوں کی گرفتاریوں کی خبریں میڈیا میں زیادہ ہائی لائٹ ہورہی ہیں۔ کیا یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ فسادات کی سازش بھی مسلمانوں نے کی فسادات بھی انہوں نے ہی کروائے فسادی بھی مسلمان ہی تھے اور جیسا کہ نقصان کی رپورٹس بتارہی ہیں کہ جانی مالی اور سماجی نقصان بھی مسلمانوں ہی کا ہوا۔ اگر واقعی ایسا ہے تو ان بے وقوف مسلمانوں پر عبرت ناک کارروائی ہونی چاہئے کہ انہوں نے نہ صرف ملک کے حالات خراب کئے مذہبی یکجہتی کو ثبوتاژ کیا بلکہ خود اپنی ہی قوم کا شدید نقصان بھی کیا لیکن اس سے پہلے یہ بھی بتایا جانا چاہئے کہ مسلمان ایسا کیوں کریں گے؟کیا کوئی قوم خود اپنا ہی نقصان چاہے گی؟ پولس کارروائی ہو لیکن ایسی بھی نہ ہو کہ اس کے متعلق بے تکی ہونے کا گمان ہو۔ ان تمام گرفتاریوں کے علاوہ ایک کشمیری مسلم جوڑے کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کے ممبر ہیں وہ سی اے اے مخالف احتجاجات بھڑکا رہے تھے، اسی طرح ایک تنظیم پاپولر فرنٹ جس پر الزام لگ چکا ہے کہ اس نے سی اے اے مخالف احتجاجات کی فنڈنگ کی ہے، اس کے بھی کچھ مسلم ممبران کو گرفتار کیا گیا ہے ان پر فسادات کی سازش رچنے کا الزام ہے۔تو کیا ان فسادات کو سی اے اے مخالفین کے سر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے؟ مسلم مخالف فسادات کی یہی روایت رہی ہے کہ ان میں مرتے بھی ہم ہی ہیں گھر اور مکا ن بھی ہمارے ہی جلائے جاتے ہیں اور ہم ہی اپنے گھر بار چھوڑ کر رلیف کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں اور پھر پولس کارروائی بھی ہم پر ہی ہوتی ہے ہمارے ہی لوگوں کی بڑی تعداد گرفتار کی جاتی ہے اور فسادات کا الزام بھی ہم پر ہی تھوپ دیا جاتا ہے اور ملک کی اکثریت کو یہی باور کروانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ ہم مسلمان ہی مسئلہ جھگڑالو اور ربل روسر ہیں۔ سو یقین تھا کہ دہلی معاملہ میں بھی یہی ہوگا۔حالانکہ وزیر داخلہ امت شاہ صاحب نے فساد زدگان کو یقین دلایاکہ ایک بھی فسادی اور فساد بھڑکانے والا چھوڑا نہیں جائے گا لیکن دوسری ہی طرف دہلی پولس کی سراہنا بھی کی کہ اس نے صرف ۶۳ گھنٹوں میں ہی ان فسادات کو کنٹرول کرکے گریٹ جاب انجام دیا جبکہ فسادات کے دوران ہی ایسے ویڈیوز سوشل میڈیا میں آچکے ہیں جن میں صاف دکھ رہا ہے کہ دلی پولس یا تو خاموش کھڑی تھی یا پھر براہ راست فسادیوں کے ساتھ شامل تھی۔ کیا یہ ساری ویڈیو ز ملک کی سلامتی کے اعلیٰ ترین اور اولین ذمہ داروزیر داخلہ امت شاہ صاحب کو نہیں پہنچی؟شاید شاہ صاحب کی نظر میں پولس کا یہی عمل ’گریٹ جاب‘ تھا۔ شاہ صاحب نے کہا کہ یہ فسادات منصوبہ بند تھے لیکن ابھی تحقیقات پوری ہونے سے پہلے ہی سی اے اے کے ان حمایتیوں کو کلین چیٹ دے دی جن کو مخاطب کر کے ہی کپل مشرا نے پولس کو تین دن کا الٹی میٹم دیا تھا، یہی نہیں انہوں نے اشارواشاروں میں سی اے اے کے خلاف احتجاج کر نے والوں کو ہی ان فسادات کا ذمہ دار ٹھہرا دیا۔ انہوں نے نام لئے بغیر سونیا گاندھی کی تقریر کو بھڑکاؤ کہا وارث پٹھان کی تقریر کو بھڑکاؤ کہا لیکن سی اے اے کی حمایت میں مسلمانوں کے خلاف بھڑکاؤ بھاشن کر نے والے اپنی پارٹی کے ممبران کے بارے میں کچھ نہیں کہا اور نہ ہی ان پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر سماعت کرنے والے جسٹس مرلی دھر کے راتوں رات تبادلے پر کوئی صفائی پیش کی۔ بہر حال بہت جھٹکے دار لہجے میں یہ ضرور کہا کہ دنگائیوں پر کٹھور سے کٹھور کارروائی ہوگی چاہے وہ کسی بھی مذہب یا ذات کے ہوں اور کسی بھی سیاسی پارٹی سے منسلک ہوں، اب دیکھنا ہے کہ جانچ کب مکمل ہوتی ہے دنگائی کون نکلتے ہیں اور ان پر کیا کارروائی ہوتی ہے۔ ویسے تاریخ شاہد ہے فسادات میں ہمارے یہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس ہی ہمیشہ ہوا ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment