Home ستاروں کےدرمیاں ہماری نسل نے شمس الرّحمان فاروقی کو کیسے دیکھا اور کیسا پایا؟ ـ صفدرامام قادری

ہماری نسل نے شمس الرّحمان فاروقی کو کیسے دیکھا اور کیسا پایا؟ ـ صفدرامام قادری

by قندیل

۱۹۸۰ء کے بعد کی ہماری نسل نے شعروادب میں جب اپنے بال و پَر پھیلائے اس وقت سے کافی پہلے سیّد احتشام حسین رخصت ہو چکے تھے۔ کلیم الدین احمد کی وفات ابھی ابھی ہوئی تھی۔ آلِ احمد سروٗر البتّہ زندہ تھے مگر تنقید نگار کی حیثیت سے ان کی سرگرمیاں محدود تھیں اور اب وہ سکّۂ رائج الوقت تو ہرگز نہیں تھے۔ جدیدیوں کا زور کم ہونے لگاتھا اور علامتی کہانیوں سے ایک عالَم اُکتا رہا تھا۔ ’شب خوں‘ کی اشاعت میں بھی باقاعدگی کم ہونے لگی تھی اور جدید شعرا یا نقّاد یہ سمجھنے لگے تھے کہ ادب میں کچھ نیا دور شروع ہونے والا ہے۔
اسی زمانے میں شمس الرحمان فاروقی کی ’شعرِ شور انگیز‘ کی قسطیں شایع ہونا شروع ہوئیں۔ ’زبان و ادب‘ سے لے کر ’جواز‘ تک ’شب خوں ‘ میں ’تفہیمِ غالب‘ کے حوالے سے ایک مدّت سے فاروقی غالب کے اشعار کی تشریحات کر رہے تھے مگر کم لوگوں کے ذہن میں یہ بات تھی کہ جدیدیت کا نظریہ ساز نقّاد کلاسیکی موضوعات کے اِرد گِرد اس اہتمام سے سامنے آئے گا۔ اس وقت تک شمس الرحمان فاروقی جدیدیت کے سکّہ بند نقّاد کی طرح نظر آتے تھے اور علامت، استعارہ اور ابہام کے دائرے میں ادب کو سمجھنے کی تبلیغ کر رہے تھے ۔ تعجّب کی یہ بات ضرور تھی کہ آخر وہ کس طرح ادب کے قدیم ٹھکانوں کو اپنے لیے اس اہتمام سے افہام و تفہیم کا حصّہ بنائیں گے؟
فاروقی نے مرتے دم تک جدیدیت کے زوال یا کم از کم اردو میں جدید ادب کے زور کے تھمنے کا کبھی اقرار نہیں کیا مگر عملی طَور پر ’شعرِ شور انگیز‘ ایک نئے فاروقی کی شناخت کے ابتدائی حوالے کے طَور پر سامنے آنے والی شَے تھی۔ میر کا انتخاب اور اُن کے اشعار کی تعبیر و تشریح کا کام وہ دل لگا کر اتنے دنوں تک کر پائیں گے، یہ کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔ فاروقی نے صرف چار جلدیں نہیں تیّار کیں، آنے والے وقت میں وہ ان جلدوں کے مواد کی تصحیح، ترمیم و اضافہ اور تفہیمِ نَو میں مبتلا رہے اور اپنے کارناموں کی وجہ سے اردو کے بہ جا طَور پر سب سے بڑے میر شناس کا تمغہ حاصل کرنے کے حق دار ہوئے۔ یہ بھی یاد رہے کہ میر کے سلسلے سے انھوں نے کوئی ٹھوس تحقیقی کام انجام نہیں دیا بلکہ شعر فہمی کی بنیاد پر ہی اس مقام تک وہ پہنچے۔ کہاں وہ محمّد علوی، عادل منصوری، اور ظفر اقبال کے اچھّے اور بُرے اشعار کے نئے نئے معنی پیش کرکے جدیدیت کا ڈنکا بجا رہے تھے مگر وقت رہتے انھوں نے ادب کی نئی راہ اپنے لیے منتخب کی اور اس پر مکمل دل جمعی کے ساتھ آگے بڑھنے میں کامیاب ہوئے۔
ہماری نسل کو ابتدائی موڑپر ہی ایک ایسے فاروقی مِلے جو تحریکی اور تنظیمی سطح پر نئے اور عجیب و غریب اصول و ضوابط کی وکالت کے لیے شہرت یافتہ ہو مگر کلاسیکی ادب کوسنجیدگی سے پڑھنے کا ثبوت بھی فراہم کر رہا ہو۔ اوّلاً فاروقی کی شخصیت دو لخت نظر آئی مگر آنے والی دہائیوں میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ ادب میں نئی قدروں کی آمد کے موقعے سے پُرانے تحریک کاروں کو خاموشی سے اسی طرح نئے میدانوں کلی سَیر کے لیے نکل جانے میں ہی عافیت ہوتی ہے۔ فاروقی اپنے بزرگ ترقی پسندوں کی ادبی طَور پر ناکامیوں کو دیکھ چکے تھے اور جیتے جی بے معنی ہونے کی رُسوائی میں مُبتلالوگوں سے سبق حاصل کرنا ضروری سمجھتے تھے۔
نقّاد کی حیثیت سے ۱۹۸۰ء کے بعد جب شمس الرحمان فاروقی اُبھر کر سامنے آتے ہیں، اس وقت بہ راہِ راست اُن کا کوئی مقابل تنقید نگار نہیں تھا۔ بزرگوں میں آلِ احمد سرور ضرور تھے مگراب وہ اردو کے تنقیدی حاشیے تک پہنچ چکے تھے اور یہ بھی یاد رہے کہ فاروقی انھیں اپنا مُربّی تسلیم کرنے لگے تھے۔ دوسرے جدیدی نقّادوں میں وارث علوی، شمیم حنفی، فضیل جعفری اور وہاب اشرفی میدا ن میں تھے مگر تحریکی شناخت کی قیادت فاروقی کے ہاتھ میں تھی۔ گوپی چند نارنگ تصنیف و تالیف کے مقابلے تنظیم، اساتذۂ اردو کی چپقلش اور ادبی اختیار کے کھیل تماشوں میں زیادہ مُبتلا تھے۔ کم از کم دو دہائیوں تک وہ نقّاد کی حیثیت سے اپنی تحریروں سے بہت حد تک غافل رہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے توسّط سے ان کا دبدبہ تو بڑھا مگر بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں شمس الرحمان فاروقی کو یہ کھُلا میدان مِلا کہ وہ آزادانہ طَور پر اپنے علمی کمالات پیش کرسکیں اور خود کو بڑے نقّاد کے طَور پر ثابت کر سکیں۔
اس دوران شمس الرحمان فاروقی ادب کے نئے میدانوں کی طرف توجّہ بڑھائی۔ جدیدیت کے تحریکی موضوعات سے رفتہ رفتہ غیر متعلّقہ طَور پر وہ تو کنارہ کش ہو ہی چکے تھے، اب وہ ادب کے دوسرے گہرے امور کی طرف بھی پوری سنجیدگی کے ساتھ بڑھنے لگے۔ میر اور غالب کے ساتھ انھوں نے داستانوں کی طرف قدم بڑھائے۔ داستان کی شعریات اور ان کے لسانی اور تہذیبی دائرۂ عمل کو سمجھنے کی کوشش کی، لغت نویسی اور تاریخ ِ ادبِ اردوکے حلقے میں پہنچے۔ یہ کون سوچ سکتا تھا کہ علامت، استعارہ اور ابہام کی تسبیح پڑھنے والا شخص ان کلاسیکی بنددروازوں پر نہ صرف دستکیں دے گا بلکہ اپنی علمی مہارت کا بھی وہ ثبوت فراہم کرے گا۔ فاروقی نے اپنے کَس بَل سے یہ ثابت کیا کہ ان کے یہاں رفتہ رفتہ مطالعے میں وسعت اور کِس قدر گہرائی آ چکی ہے۔دیکھتے دیکھتے اب ان کا کوئی ہم عصر ایسا نہیں تھا جس کے یہاں اس انداز کی وسعت اور گہرائی ایک ساتھ دیکھنے کو ملتی ہو۔
پھر ہم نے اچانک ’شب خوں‘ میں عمر شیخ مرزا اور بینی مادھو رُسوا کے نام سے کچھ افسانے دیکھے۔ اگلے شماروں میں خطوط میں بہ جا طَور پر لوگوں نے یقینی طَور پر یہ لکھ دیا کہ یہ سب فرضی نام ہیں اور یہ افسانے شمس الرحمان فاروقی کے قلم سے ہی نکلے ہیں۔ فاروقی اس سے پہلے نظم، غزل اور رُباعی کے حوالے سے ابتدائی دور سے ہی تخلیقی ادب پیش کر رہے تھے مگر سچّی بات یہ ہے کہ جدیدشاعروں میں انھیں بہ مشکل یا مروّتاً ہی کوئی شمار کرتا تھا۔ پھر فاروقی کا افسانوی مجموعہ شایع ہوا اور’ قبضِ زماں‘کے بعد جب’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘ چھپ کر سامنے آیا تو افسانہ نگار سے فاروقی ناول نگار بن گئے۔ وہ ناول ترجمہ ہو کر ہندی اور انگریزی میں بھی سامنے آیا اور نفسِ مضمون اور قدرتِ بیان دونوں اسباب سے فاروقی ہمارے عظیم ناول نگاروں کی صف کے تازہ واردوں میں کامیابی کے ساتھ شامل ہو گئے۔
آج تنقید، تحقیق، ترتیب و تدوین، افسانہ نگاری، ناول نگاری، ترجمہ، ادبی رسالے کی ادارت وغیرہ الگ الگ محاذ پر فاروقی ہماری زبان کے سب سے بڑے عالموں میں سے ایک ہیں۔ تاریخِ ادبِ اردو کے سلسلے سے فاروقی نے انگریزی میں ایک مختصر سی کتاب لکھی جس کو خود انھوں نے ’اردو کا ابتدائی زمانہ‘ کے عنوان سے شایع کیا۔ توجّہ دیں تو اختصار کے ساتھ اردو میں تاریخِ ادب کی ایسی سنجیدہ کتاب کوئی دوسری نہیں۔ جمیل جالبی چار دہائیوں تک اس موضوع پر کام کرتے رہے مگر بعض گتھّیاں جو فاروقی نے ہمیں سمجھا دیں، ان تک کسی کی نگاہ بھی نہیں گئی تھی۔ بڑے بڑے عالِم تاریخِ ادب کے میدان میں بَونے ثابت ہوتے ہیں مگر فاروقی تاریخِ ادبِ اردو اور لغات و روزمرّہ کے میدان میں بھی اُسی طرح کامیاب رہے جیسے جدیدادب اور میر یا غالب یا داستانوں پر اپنی قدرت ثابت کر چکے تھے۔ ان تمام مہارتوں میں فاروقی کا اردو تنقید کے میدان میں کہیں کوئی مقابل نہیں رہا اور وہ اپنی کتابوں کی جِلد در جِلد ترتیب وار اشاعت اور اپنی شب بے داریوں کا صفحہ در صفحہ نتیجہ پیش کرتے رہے۔ فاروقی کی وفات پر تاثّرات کا اظہار کرتے ہوئے کسی نے بڑا درست جملہ کہا کہ وہ چھیاسی(۸۶) برسوں میں دو سو(۲۰۰) برس زیادہ مدّت کا علمی کارنامہ پیش کرنے میں کامیاب ہوئے۔
فاروقی چوں کہ جدیدیت کی تعبیر وتشریح اور اس کی قیادت سے ہماری زبان میں داخل ہوئے تھے، اس وجہ سے اُن کی تنقید میں بہت دور تک ایک عدمِ توازن اور کجی نظر آتی رہی۔ ’فاروقی کے تبصرے‘ پڑھیے اور ترقّی پسندوں کی ناکامیوں پر ان کے علمی حملے پر غور کیجیے کہ کس طرح انھوں نے اپنے بزرگ لکھنے والوں کی دھجّیاں اُڑائیں اور اپنی نسل کے نَو آموزوں کے لیے جگہ بنائی۔ فاروقی کی تحریکی تحریریں بڑی تعداد میں ہیں۔ عادل منصوری، ظفر اقبال، محمد علوی اور احمد مشتاق یا قمر احسن وغیرہ کے سلسلے سے ان کے جو مضامین شایع ہوئے ان کا سختی سے احتساب اب تک نہیں ہوا ہے۔ فاروقی نے جس طرح ترقّی پسندوں کی تحریروں کا اپنے ابتدائی دور میں احتساب کیا تھا،اگر اُسی انداز سے اُن کی مذکورہ تحریروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ یہاں ادب فہمی کے مقابلے میں اپنے ادبی کنبے کی پرورش و پرداخت کا مادّہ زیادہ ہے۔ نقّاد کی حیثیت سے شمس الرحمان فاروقی کی سب سے بڑی حد یہی ہے۔ وہ تو اچھّا ہوا کہ ان کے زمانے کے لوگوں نے لکھنا کم کیا یا اپنے تخلیقی مزاج میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوئے، جو لوگ یہ بات نہیں سمجھ سکے ان کا وجود اپنے وزن و وقار سے محروم ہوا۔
فاروقی کی تحریکی حیثیت کو ان کے دیگر علمی کاموں اور کلاسیکی موضوعات کی مہارت نے متوازن کر دیا۔ اکیسویں صدی کے طالبِ علم توشاید یہ یاد بھی نہیں کریں کہ شمس الرحمان فاروقی جدید ادب کے پُر جوش تحریک کار تھے اور اُس زمانے کے ان کے بیانات کی ایک فہرست تیّار کی جائے تو اب کے پڑھنے والے یہ تعجّب بھی کریں گے کہ کس ذہنی رَو میں فاروقی نے وہ باتیں کی ہوں گی۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ فاروقی کا مزاج کم و بیش اس پہلی محبت کے دائرے میں ہی صیقل ہوا۔ جدیدیوں کے بعد جونسل سامنے آئی فاروقی ان کی شناخت اور قدر شناسی کے سلسلے سے اتنے سنجیدہ نہیں رہے۔ اس کے پیچھے کہیں نہ کہیں جدیدیت کی وہ سرخیلی ہی کام کر رہی تھی۔ نقّاد کے طَور پر یہ بھی ان کی ایک حد ہے۔
فاروقی نے رفتہ رفتہ اپنی علمی حیثیت بڑھائی۔ طرح طرح کے ادبی اور علمی کاموں میں منہمک رہے اور خود کو ایک ایسے عالم کے طَور پر ثابت کرنے میں کامیاب رہے جو اپنی زبان کی بہ جا طَور پر نمایندگی کر سکتا ہو۔ انھیں جب سرسوتی سمّان دیا گیا، اس وقت اختر الایمان اور قرّۃ العین حیدر موجود تھے مگر بعد کے پچّیس برسوں میں فاروقی نے ثابت کیا کہ اپنی زبان کے سب سے بڑے لکھنے والوں میں گِنے جا سکتے ہیں۔ فاروقی نے ہمہ وقت تصنیف و تالیف میں اپنا وقت لگایا۔ پوسٹل انتظامیہ میں رہتے ہوئے بھی انھوں نے ادب سے ہی پہلی محبّت کا سلسلہ رکھا۔ اُتّر پردیش اردو اکادمی، قومی اردو کونسل اور ترقّی اردوبیورو میں بھی وہ انتظامیہ کا حصّہ رہے مگر ہر جگہ خود کو علمی کاموں میں منہمک رکھا۔ اب جب ان کی شدید بیماریوں کی خبر آنے لگی تو یہ باتیں بھی سامنے آئیں کہ کئی نئے علمی سوالات میں وہ سرگرداں تھے۔ایک عالم کی یہی شان ہوتی ہے کہ وہ ہزار منصوبے بنائے، سَو کام کرے اور ملک الموت کی آمد تک خود کو مبتلاے علم رکھے۔ فاروقی کی زندگی اس کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ محمد حسین آزاد دیوانگی میں بھی لکھتے رہے، ذکا ء اللہ اور راشد الخیری زندگی کے آخری لمحے تک سرگرمِ تصنیف رہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ فاروقی کے ادھورے کام بھی سیکڑوں صفحات پر مشتمل ہیں اور وہ سب بھی منظرِ عام پر آئیں گے۔ ایک عالم کی ایسی ہی زندگی ہوتی ہے اور ایسی ہی موت ہوتی ہے۔ ہمارے لیے شمس الرحمان فاروقی علمی تحریک اور معیار کی ضمانت تھے۔ بے شک ہم عہدِ فاروقی میں جی رہے تھے جو ۲۵؍ دسمبر کو اختتام پذیر ہوا۔ کورونا کی وبا دنیا میں بہت کچھ لوٗٹ چکی ہے مگر اردو والوں کا تو تن بدن چھلنی کر گئی۔ اس نے تو ہمارا سردار ہی چھین لیا: ’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا‘

You may also like

Leave a Comment