Home تجزیہ ہمارے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

ہمارے مسائل کیسے حل ہوں گے؟

by قندیل

 

ترتیب: عبدالعزیز

زندگی ایک ہے، مگر اس کے مسائل بے شمار و لانہایت، ان مسائل کو حل کرنا تو درکنار کوئی آدمی اس کا دعویٰ بھی بجا طور پر نہیں کرسکتا کہ ان تمام مسائل حیات کو جامع طریق پر گن ہی سکے! روٹی کا مسئلہ اور پھر اس کے شاخسانے! …… پانی کا مسئلہ، کپڑے کا مسئلہ، سر چھپانے کیلئے مکان کا مسئلہ، صحت کا مسئلہ، انصاف کا مسئلہ، تعلیم کا مسئلہ، امن کا مسئلہ، جنگ کا مسئلہ…… مسائل انفرادی اور اجتماعی، معاشی، معاشرتی، ذہنی و نفسیاتی، خانگی و تمدنی، تہذیبی اور مذہبی، فکری و جذباتی، قومی اور بین الاقوامی…… شعوری اور لاشعوری مسائل!! کہ جن میں سے پھر ہر مسئلے کے شاخ درشاخ اجزاء ہیں۔ نت نئے مسائل کا ایک دیو پیکر لامتناہی جال سا دیدہ و دل اور فکر و نظر کے آسمان و زمین میں پھیلا ہوا ہے۔

ایک طرف مسائل کا یہ ہوش ربا ہجوم ہے اور دوسری طرف یہ حوصلہ فرسا منظر کہ ان میں کسی بھی ایک مسئلے کے سامنے کوئی بھی کامیاب حل آدمی کی خود ساختہ تدابیر کے ہاتھوں میں موجود نہیں! جو حل سوچا گیا تجربات اس کو پامال و سرنگوں کر ڈالا۔ جو تدبیر عمل میں لائی گئی اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ جو دوا استعمال کی گئی اس نے درد میں اور اضافہ ہی کردیا!…… ایک دو نہیں بے شمار تدابیر کی ناکامیاں اَنگنت لاشوں کے ڈھیر کی طرح ان میں سے ہر ایک مسئلے کے چاروں طرف پڑی سڑ رہی ہیں اور ان لاشوں کے درمیان یہ مسائل سر اٹھا اٹھاکر آدمی کی طرف دیکھتے ہیں اور آدمی ان مسائل کی طرف خوف، کشمکش، مایوسی اور اضطراب و کرب کے ناگفتہ بہ عالم میں آنکھیں پھاڑ پھارڑکر دیکھ رہا ہے۔ کبھی وہ ان کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی گھبرا کر آنکھیں بند کرلیتا ہے۔ کبھی ڈرتے ڈرتے ان کی طرف قدم اٹھاتا ہے اور کبھی ان سے پیٹھ پھیر کر بھاگ پڑتا ہے۔

مگر مسائل زندگی پرچھائیوں کا ہجوم تو نہیں کہ ان سے شعور کی روشنی کے بعد مایوسی کی تاریکی میں برائے نام بھی نجات حاصل ہوجائے! وہ تو زندگی کے ٹھوس حقائق ہیں۔ عملی مسائل ہیں، چلتے پھرتے سوالات ہیں، آدمی جدھر بھاگتا ہے وہ اس کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہیں۔ وہ فرار اختیار کرتا ہے تو وہ اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ وہ خاموش ہوتا ہے تو وہ اس کو آواز دیتے ہیں۔ وہ چیخنے لگتا ہے تو وہ اس کے چاروں طرف جمع ہونے لگتے ہیں اور وہ سو جاتا ہے تو پریشان خوابوں کے آسیبی حملے کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ نہ ان سے بیداری کو نجات ہے نہ غفلت کو۔ آدمی ان پر قہقہہ مارنا چاہتا ہے تو وہ اس کے حال پر رونے لگتے ہیں۔ وہ رونے لگتا ہے تو وہ اس کی بزدلی پر قہقہے لگاتے ہیں۔ کہیں اور کسی طرح وہ ان مسائل کی زد سے باہر نکل جانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔

ان سے نجات کی صرف ایک ہی راہ ہے۔ ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو فی الواقع حل کیا جائے۔ان کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ نہ ان کو گھٹایا جاسکتا ہے اورنہ مٹایا جاسکتا۔ یہ زندگی کے ساتھ شروع ہوتے ہیں اور زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوتے! زندگی کے بعد بھی ہر آدمی اپنے ناکام مسائل کے الجھاؤ اسی دنیا میں دوسروں کیلئے اپنے پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور ان کی جوابدہی کا بارِ گراں اپنے ایمان کے سر پر لئے ہوئے دوسری دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ جہاں سے وہ کسی دوسرے آدمی کو اپنے احوال کی نہ کوئی خبر بھیج سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے شخص کے بس میں یہ ہے کہ وہ اس کی کوئی ادنیٰ سی بھی مدد کرسکے۔

کیا آج مسائلِ حیات کی یہ گفتگو کسی بھی معقول آدمی کی نظر میں غلو اور مبالغہ کی فہرست میں شمار ہوسکتی ہے؟ ان تلخ حقائق پر افسانوں کا شبہ کیا جاسکتا ہے؟ ممکن ہے کبھی کوئی کورا فلسفی یا تخیل کی دنیا میں رہنے والا شاعر یہ بات کہہ دے تو کہہ دے، لیکن آج جبکہ زندگی اپنی تمام انفرادی، اجتماعی اور عالمگیر وسعتوں میں ان تمام مسائل کا ننگا اور وحشیانہ رقص سر کی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے اور کانوں سے ان کا شور سن رہی ہے اور ہاتھوں سے ان کی سنگینی اور کھردراہٹ کو چھو رہی ہے تو کون ہے جو ہلکا سا تصور بھی کرسکے کہ یہ مسائل ہی نہیں ہیں بلکہ محض ذہنی اُپج اور تخیل کی پیداوار ہیں۔

آج آدمی کی زندگی کا ہر گوشہ ان مسائل کے شور سے گوشہئ محشر بنا ہوا ہے۔ خاندانی نظام کے ٹکڑے ہوچکے ہیں۔ معاشرتی نظم پارہ پارہ ہے،قومی ڈھانچہ بگڑا پڑا ہے، بین الاقوامی زندگی تلپٹ ہورہی ہے۔ نظریں سراسیمہ ہیں، کان پھٹے جارہے ہیں۔ شعور مفلوج ہے۔ لاشعور مجروح، دل و دماغ سر و گریباں ہیں۔ جنسی انارکی قیامت بن چکی۔ عدالتی نظام تماشا ہو گیا۔ تعلیمی اداروں پر طلباء پتھراؤ کر رہے ہیں۔ بیویاں شوہروں سے غداری کر رہی ہیں اور شوہر بیویوں سے، اولاد اپنے ماں باپ پر حملہ آور ہے۔ پولس مجرموں کے ساتھ، انصاف کے دروازے بند ہیں۔ علمی ایجادات کی کوکھ سے تباہ کاریاں جنم لے رہی ہیں۔ فکری افق گمراہیوں سے تاریک ہیں۔ روحانی سکون کا تصور تک محال ہوچکا۔ جسمانی کھنڈروں میں بیماریوں اور وباؤں کا طوفان سا آگیا ہے۔

اور یہ سب کچھ اس دور میں ہورہا ہے جبکہ زندگی کے اسباب و وسائل اپنے نقطہئ عروج پر ہیں۔ سائنس کی روشنی سے آسمان کے دور افتادہ گوشے تک روشن ہیں، مگر زندگی زمین کی سیاہ رات میں ٹھوکریں کھاتی اور سر پیٹتی پھر رہی ہے۔ راکٹ اور طیارے خلائی کُرّوں کو چھو رہے ہیں اور کشش ارضی سے باہر نکل کر لامتناہی فضاؤں میں پرواز کر رہے ہیں، مگر زندگی کو زمین پر چلنا دو بھر ہورہا ہے۔ انسانی آلات امراض کا سینہ چیر چیر کر غیر مرئی جراثیم کو گرفت میں لے چکے مگر زندگی، بے کیف زندگی میں اضافہ ہورہا ہے اور جینے کی مدت گھٹ رہی ہے۔

ناکامی کا سبب کیا ہے آخر؟ یہ ٹریجڈی جو ختم ہوتی نظر نہیں آتی، پھیلتی بڑھتی اور سب کچھ اپنی لپیٹ میں لیتی چلی جارہی ہے اس کا نقطہئ آغاز ہے کیا؟ یہ وہ سوال جو ان تمام مسائل کا بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسائل کا کوئی حل ہمارے ہاتھ آئے تو ہمیں اس بنیادی مسئلے سے پہلا قدم اٹھانا اور اس پر پہلی نظر ڈالنا قطعاً ضروری ہوگا۔ جو فرد اپنے افرادی مسائل کو حل کرنے کا سنجیدگی سے خواہاں ہے اس کو بھی اسی طرح سوچنا ہوگا اور جو گروہ اپنے گروہی اور اجتماعی مسائل کو حل کرنے کا آرزو مند ہے اس کو بھی اسی زاویے سے اپنی سوچ کا آغاز کرنا ہوگا۔ بنیاد کی درستی میں ہی پوری عمارت کی درستی کا راز تلاش کیا جاسکتا ہے اور بیج کے اندر جھانک کر ہی پورے درخت کی گزشتہ و آئندہ تاریخ کا بھرپور مطالعہ ممکن ہے۔ ایٹم ہی کے اندر کائنات کی اصل تصویر چھپی ہوئی ہے۔ ہر شے اپنی اصل ہی سے چلتی ہے اور اصل ہی کی طرف واپس آتی ہے۔ زندگی کی ہر حقیقت ایک گولائی کا سفر ہے۔ کُل شئیٍ یرجع الٰی اصلہٖ، ہر شے جہاں سے شروع ہوتی ہے وہیں آکر ختم ہوتی ہے تو درحقیقت مسائل کے نقطہئ آغاز کا سراغ ان کی انتہا اور انجام کا سراغ ہے۔

ناکامی کی اصل وجہ یہ ہے کہ آدمی نے اپنے مسائل کو خدا سے بے نیاز ہوکر خود ہی حل کرلینے کی ہولناک حماقت کا ارتکاب کر ڈالا ہے۔ وہ خود کوئی مسئلہ نہ کبھی حل کرسکا ہے اور نہ کبھی حل کرسکے گا۔ ہاں اس کو خدا سے ان تمام مسائل کو حل کرانے کیلئے زندگی کے سفر کا از سر نو آغاز کرنا ہوگا اور اسی انداز پر اس کا سفر اسے اس کی منزل مقصود تک پہنچا سکے گا۔ زندگی ایک راستہ ہے جس کے سیکڑوں پیچ و خم ہیں۔ مسائل اس سفر کی تحریک ہیں اور فکر و نظر اس سفر کا نقشہ اور خاکہ ہیں اور جدوجہد سفر ہے جو اس خاکے میں رنگ بھرتی ہے اور کامیابی۔ حقیقی ابدی کامیابی اس سفر کی منزل مقصود اور ساحل مراد ہے، لیکن کسی بھی سفر کیلئے صرف اتنا ہی سامانِ سفر کافی نہیں۔ منزل پر پہنچنے کیلئے جس بنیادی شے کی ضرورت ہے وہ نہ راستہ ہے، نہ نقشہئ سفر بلکہ وہ بنیادی شے جو منزل پر رسائی کی ضمانت دیتی ہے اور جس کے بغیر یہ تمام ساز و سامان محض صفر ہے اور کچھ نہیں۔ اس کا نام ہے ”ہدایت“ اور ’ہدایت‘ خدا نے کسی کے ہاتھ میں نہیں رکھی۔ یہ وہ تحفہ ہے جو اگر کسی کو حاصل کرنا ہے تو خود خدا کے دست خاص سے ہی حاصل کرنا ہے۔ خود خدا کا در ہی اس متاعِ بے بہا کو طلب کرنے کا واحد در ہے۔ واحد آستانہ ہے۔ اس در کو چھوڑ کر ہدایت کیلئے آدمی جس دروازے پر بھی دستک دے گا وہاں اس کو ہدایت کی جگہ ضلالت اور صرف ضلالت نصیب ہوگی۔ علم بھی جہل بن جائے گا۔ عقل بھی دیوانگی بن جائے گی۔ دولت بھی افلاس میں ڈھل جائے گی۔ سامان بھی بے سرو سامانی میں تبدیل ہوکر رہ جائے گا۔ آج کا دور اس حقیقت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ آج کامیابی اور فلاح کا جتنا سامان آدمی کے پاس ہے اتنا شاید کبھی بھی نہ تھا، لیکن آدمی آج جس قدر کامیابی سے محروم اور تہی دامن و تہی دست ہے اتنا وہ شاید کبھی بھی نہ تھا اور اس تمام ساز و سامان میں ہمیں جس شے کی کمی…… واحد کمی نظر آرہی ہے وہ بھی وہی ایمان باللہ اور ہدایت طلبی کی کمی ہے۔ آج اس دنیا میں صرف جذبہئ زندگی اور عبودیت کے سوا کیا کچھ موجود نہیں؟ …… یہ ہے وہ اصل چیز جس نے عہد حاضر کو کامیاب ساز و سامان کے ٹھیک قلب میں ناکامی ونامرادی کا ایک ماتم کدہ بناکر رکھ دیا ہے۔ (استفادہ از کتاب:کیا ہم مسلمان ہیں)

E-mail:[email protected]

Mob:9831439068

You may also like

Leave a Comment