Home تجزیہ ہم اردو کے دیوانے، ہم اردو کے فرزانے!-پروفیسر مشتاق احمد

ہم اردو کے دیوانے، ہم اردو کے فرزانے!-پروفیسر مشتاق احمد

by قندیل

اردو زبان کے متعلق عدالتِ عظمیٰ کا حالیہ فیصلہ نہ صرف اردو کے لئے تاریخی اور غیر معمولی اہمیت وافادیت کا حامل ہے بلکہ ان تمام زبانوں کے لئے امید افزا اور راحت بخش ہے جن زبانوں کے تئیں اپنے وطن عزیز ہندوستان میں ذہنی تعصبات وتحفظات کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔اس لیے اس فیصلے کا چہار طرف خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور بالخصوص اردو زبان سے محبت کرنے والے حلقوں میں جشن کا ماحول ہے اور ہونا بھی چاہئے کہ حالیہ چند دہائیوں میں اپنے ملک میں جس طرح کی فضا مکدر ہوئی ہے اور لسانی اور مذہبی منافرت کا ماحول پروان چڑھا ہے ایسے وقت میں ملک کے ان تمام شہریوں کے لیے یہ فیصلہ قابل رشک ہے جو اپنے ملک کے لسانی اور تہذیبی تنوع کے علمبردار ہیں اور اپنی لسانی شناخت کو مستحکم رکھنا چاہتے ہیں۔عدالت کے اس فیصلے نے ہندوستان کی تکثیری تہذیب اور کثیر اللسانی اہمیت کا اعتراف کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ آج بھی چند ایسے انصاف پسند اشخاص ہیں جو طوفانوں کی زد پر ہندوستان کی گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کے چراغوں کو روشن رکھنا چاہتے ہیں۔عدالتِ عظمیٰ کے فاضل جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن کے حالیہ فیصلے جو مورخہ 15؍ اپریل 2025کو کیا گیاہے اس کے کل 36صفحات کا مطالعہ کیجئے اور بالخصوص فیصلے کی شق 47میں اردو زبان کے تعلق سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ چشم کشا بھی ہے اور انصاف پسندی کا اعلیٰ نمونہ بھی۔واضح ہو کہ اس وقت ملک میں کسی خاص طبقے کی شناخت اس کے کھان پان ، اس کے لباس اور اس کی زبان کے تعلق سے طرح طرح کی افواہیں پھیلائی جا رہی ہیں ۔ اکثریت طبقے کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں ، کسی خاص مذہبی طبقے سے تعلق رکھنے والی ان تمام تہذیبی اور لسانی شناخت کو مسخ کرنے کی روش عام ہو چلی ہے ، تاریخی اہمیت کے مقامات کے نام کی تبدیلی کے ذریعہ اکثریت طبقے کے اندر احساس برتری پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور اقلیت طبقے کو احساس کمتری ومحرومی کا شکار بنایا جا رہاہے۔ ایسے ماحول میں اگر ہندوستان کی تہذیبی ولسانی شناخت کو اردو کے تعلق سے عدالتِ عظمیٰ نے جو فیصلہ کیا ہے وہ صرف اردو والوں کے لیے نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے لیے حوصلہ بخش ہے جو اپنی تاریخی شناخت کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ لسانی شناخت کی بدولت اپنی پہچان بنائے رکھنا چاہتے ہیں ، جغرافیائی حدود کے نشانات کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں ۔ کیوں کہ ہندوستان پوری دنیا میں اپنی کثیر الجہتی شناخت کی بدولت ایک منفرد جغرافیائی خطہ ہے جہاں تاریخی تسلسل نے الگ الگ صدیوں میں مختلف تہذیبوں کو پناہیں دی ہیں اور ان کی منجملہ شناخت کو اپنی سناتنی تہذیب اور ہزاروں برسوں کے تہذیبی سرمایے کا حصہ بنایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان کے مختلف حصوں میں مختلف زبان، مختلف لباس، مختلف رنگ وروپ ، مختلف رسم ورواج کی زندہ تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اردو کے متعلق ایک طویل مدت سے غلط فہمی پھیلانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ سند رہے کہ اٹھارہویں صدی میں بھارتیندو ہریش چندر نے بھی اردو کے تعلق سے اپنی تنگ نظری وتنگ ذہنی کا مظاہرہ کیا تھا لیکن چوں کہ اس وقت کا ہندوستان اپنی تکثیریت کا علمبردار تھا اس لیے اس نظریے کے حامیوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود لسانی تنازعہ فروغ نہیں پا سکا اور ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے علمبردار اردو کے پودوں کی آبیاری میں اپنا خونِ جگر صرف کرتے رہے۔ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اٹھارہویں صدی میں ولی دکنی نے ملک کے جنوبی حصہ دکن میں اردو کا چراغ روشن کیا اور دل کو موہ لینے والی شاعری سے شمال میں اپنا پرچم بلند کیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وقت کے ہندوستان میں اردو زبان زدِ عام وخاص ہوگئی ۔ کیوں کہ اردوکا جنم اسی مٹی میں ہوا تھا اور یہاں کی خوشگوارفضاؤں نے اسے ثمر آور بھی بنایا اس لیے ہر عہد میں اردو ان تمام لوگوں کی محبوبہ رہی جو ہندوستانی مٹی کی سوندھی خوشبو کے دلدارہ رہے ۔کبھی پریم چندنے اس کی ترقی کے لیے اپنی نیندیں گنوائیں تو کبھی چکبست نے اپنے نہ جانے کتنے سنہرے خواب بُنے، کبھی پورن سنگھ ہُنر نے پنجابی کے ساتھ اردو کے رس گھولے تو کبھی تلک چند محروم نے اردو کی پیشانی پر نعرۂ محبت لکھا۔کبھی جگن ناتھ آزاد نے اردو کو حرزِ جاں رکھا تو کبھی گوپی چند نارنگ نے اپنی دانشوری کے اظہار کا ذریعہ اسی اردو کو بنایا اور عصرِ حاضر میں بھی نہ جانے کتنے لوگ ہیں جو اردو کی چاشنی کے بغیر اپنا لب کھولنا نہیں چاہتے۔اس لیے اس زبان کو کبھی یہ اعزاز حاصل نہیں رہا کہ یہ کسی خاص مذہب کی زبان ہے یا کسی خطے کی زبان ہے ۔ داغؔ نے اسی حقیقت کا اظہار کیا تھا ’’سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے‘‘!۔
اس تلخ حقیقت سے کون واقف نہیں ہے کہ مغربی بنگال کامسلمان بنگالی پڑھتا اور لکھتا ہے اور تمل ناڈو کا مسلمان تمل کو اپنی شناخت کا ضامن سمجھتا ہے ، کرناٹک میں کنڑ اور آندھرا میں تلگو اس کے اظہار کا ذریعہ ہے۔آسام میں آسامی اور کیرل میں ملیالم ان کے افہام وتفہیم کا ذریعہ ہے اس لیے یہ کہنا کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے یہ قطعی درست نہیں اور تاریخی حقائق سے چشم پوشی ہے۔ لسانی تشخص مذہبی لبادے کو مذہبی رنگ دینا ایک تعصبانہ نظریہ ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کا یہ فیصلہ اسی حقیقت کو عیاں کرتا ہے کہ زبان کا تعلق کسی مذہب سے نہیں ہو سکتا البتہ مذہب کے لئے کوئی زبان وسیلہ بن جاتی ہے۔اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا عدالتِ عظمیٰ کے اس فیصلے سے اردو زندہ رہ سکے گی ؟اس پر ہم اردو کے دیوانوں اور فرزانوں کو بھی غوروفکر کرنا ہے کہ کوئی بھی زبان اپنے رسم الخط کی بدولت زندہ رہتی ہے اور اس زبان کی تعلیم اسے ثروت مند بناتی ہے۔ذرا اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ کیا آپ اپنے نام کی تختیاں اپنے گھروں سے باہر اردو میں لکھتے ہیں ؟ اپنے روز مرہ کی زندگی میں اردو کا استعمال کتنا کرتے ہیں ؟ اردو کے اخبار ورسائل کو زندہ رکھنے میں ہم اردو کے دیوانے اور فرزانے کتنے معاون ہیں؟ ۔ ایک تلخ حقیقت سن لیجئے علی گڑھ کو اردو کا مرکز سمجھا جاتاہے اور ریاست بہار میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ حاصل ہے ۔ راقم الحروف کا تعلق شمالی بہار کے شہر دربھنگہ سے ہے اس شہر میں حال ہی میں ایک کتب فروش نے اپنا دکھڑا سنایا کہ دو دہائی پہلے تک ان کی دکان سے’’ آج کل، نیا دور ، تہذیب الاخلاق‘‘ ودیگر رسائل وجرائدکی پچاس سے زائد کاپیاں فروخت ہوتی تھیں اور آج دس کاپیاں بھی نہیں نکل پاتیں جب کہ اس شہر میں اسکول اور کالج میں اردو کے سو سے زائد اساتذہ ہیں ، طلبا اور طالبات تو چھوڑئیے۔یہی حال علی گڑھ کے مشہور ایجوکیشنل بک ہائوس کا ہے کہ وہاں’’ آج کل ‘‘جیسے ادبی پرچے کی دس کاپیاں بھی فروخت نہیں ہوپاتیں۔حال ہی میں رانچی کے ایک مشہور بک اسٹال کے مالک نے راقم الحروف سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے یہاں اردو کی کتاب بھیجنے سے پہلے رابطہ کرلیا کیجیے کیوں کہ کسی بھی کتاب رسالے کی پانچ کاپیاں بھی نہیں نکل پاتیں ۔ لیکن اسی شہر میں اردو کے دیوانوں اور فرزانوں کی فہرست دیکھیے تو پھر آپ کے حوصلے آسمان چھو لیں گے؟ ۔مغربی بنگال کے شہر کولکاتا کے ایک کتب فروش نے دو سال قبل اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ یہاں ادبی رسائل وجرائد کے فروخت کا ماحول نہیں ہے لیکن اردو اخباروں میں اس شہر کے اردو کے جیالوں کی خبروں کو دیکھ کر ایسا لگے گا کہ انہوں نے دن رات اردو کے تئیں خود کو وقف کر رکھا ہے۔اس لیے کسی سرکاری فیصلے یا کسی عدالتی فیصلے کی بدولت اردو زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ اردوزندہ رہے گی تو صرف اور صرف اردو کے تعلیم کو فروغ دینے والوں کی بدولت، اردو کے رسائل وجرائد کے بازار کو فروغ دینے کی بدولت ، انفرادی طورپر اردو کے استعمال کرنے اور اجتماعی طورپر اردو کے لیے زمینی سطح پر کام کرنے کی بدولت ہی ہندوستان کی تہذیبی شناخت اردو زندہ رہ سکتی ہے ۔کبھی وقت ملے تو اس پر بھی سوچئے گا کہ عدالتی فیصلے کو کس طرح اس وقت ملک میں متنازعہ بنایا جا رہاہے اور جمہوری حقوق کو پامال کیا جا رہاہے اس سے ہم سب واقف ہیں۔ہمیں اس حقیقت سے آگاہ ہونا چاہئے کہ ہمارے آئین کے آرٹیکل 29ملک کی لسانی تکثیریت کو وسعت قلبی کے ساتھ قبول کرنے کی تلقین کرتا ہے اور تمام زبانوں کے لکھنے پڑھنے والوں کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی زبان کے فروغ کے لیے آزاد ہے۔ملک کی 22زبانو ں کو حکومت نے سرکاری دفاتر اور کام کاج میں استعمال کرنے کی آئینی ذمہ داری قبول کی ہے اور مختلف ریاستوں میں وہاں کی زبان کو فروغ دینے کی ذمہ داری حکومت کی ہے اس لیے اس وقت کئی ریاستوں میں اردو کو دوسری زبان کا درجہ دیا گیاہے،یہ اور بات ہے کہ ریاست بہار کے علاوہ اردو کو دوسری زبان کے لیے خوشگوار ماحول نصیب نہیں ہواہے۔اس لیے یہ وقت ہے کہ ہم اردو کے لیے اگر اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں تو اس کی تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہو جائیں اور انفرادی طورپر اس کے استعمال کو لازمیت کا درجہ دیں تبھی ہمارے فاضل جج حضرات کا فیصلہ ہمارے لیے مفید ہو سکتاہے۔اس فیصلے میں سابق چیف جسٹس ایم این وینکٹ چلیّا کے بیا ن کو بھی پیش کیا گیا ۔ میرے خیال میں اس فیصلے کی بنیاد یہ بیان ہے اس کو بھی حوالے کے طورپر یاد رکھنے کی ضرورت ہے:
"The Urdu language has a special place in India. The Urdu language conjures up and inspires deeply emotive sentiments and thoughts from the sublimity of the mystic to the romantic and the earthy, of perfumes of camaraderie, of music and life’s wistfulness and a whole range of human relationships. Its rich literature and lore is a treasure house of the noblest thoughts on life’s mysteries. Urdu is not simply one of the languages of this country. It is a culture and civilisation in itself……But today this great culture needs urgent measures for its very survival…….The richness of Urdu culture needs to be restored
to its pristine glory”
(بحوالہ: عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ ۔ مورخہ 15اپریل 2024صفحہ نمبر۔35)

You may also like