Home تجزیہ ہم مودی و شاہ کے شکرگذارہیں! ممتاز میر 

ہم مودی و شاہ کے شکرگذارہیں! ممتاز میر 

by قندیل

 

7697376137

 

اللہ تعالیٰ سورۂ توبہ آیت ۳۱ میںیہود ونصاریٰ کے تعلق سے فرماتا ہے ۔’انھوں نے اپنے علما و مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا ہے‘۔ اس کے بعد حضور اکرمﷺکی یہ حدیث دیکھیں کہ تم بھی وہی کروگے جو تم سے پہلے کی امتیں کرچکی ہیں۔اگر وہ گوہ کے بل میںگھسی ہونگی تو تم بھی گھسوگے۔یعنی یہ طے ہے کہ ہم نے بھی اپنے علما و مشائخ کو خدا بنا لیا ہے۔ آخر میں شعب الایمان کی یہ حدیث جو ہمارے رویوں پر ہمارے حالات پر آخری کیل کی حیثیت رکھتی ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا، جب تمھارے علما زمین کی پیٹھ پر دنیا کی بدترین مخلوق ہونگے، سارے فتنے وہیں سے جنم لیں گے اور لوٹ کر وہیں آئیں گے۔

درج بالا تمام نکات ہمیں اخبارات پڑھ پڑھ کے ،ٹی وی دیکھ دیکھ کے اور واٹس ایپ کے پیغامات سے گزرتے یاد آتے ہیں۔حضرت امیرشریعت،جنرل سیکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا ولی محمد رحمانی کا شہریت کے کالے قانون کے خلاف پریشر بنانے سے بانداز دیگر انکار کرنا یہ بتاتا ہے کہ ان حضرات نے مسلم پرسنل لا کے معاملے میں بھی کیا کیا ہوگا؟ حضرت مولانا بہار کے ہیںاور نتیش کمار جیسے بے شرم و بے غیرت سیاستداں سے ان کی بہت گاڑھی چھنتی ہے،اس لیے ان سے اتنااحتجاج بھی نہیں ہو پایا،جتنا خود نتیش کمار کے دو ساتھی پرشانت کشور اور پون ورما نے کیا ۔یعنی این آرسی و سی اے اے کی سنگینی نے دو غیر مسلم سیاستدانوں کو تو دہلا دیا، مگر ہمارے امیر شریعت کو اس کی سنگینی کا شعورنہیں ،اسی لئے مدیر ممبئی اردو نیوز نے بجا طور پر کہاہے کہ اب یہ معزز و محترم ہستیاں ہماری رہی کہاں؟ہم دعاگو ہیں کہ وہ اپنے اس موقف پر اس وقت تک قائم رہیں، جب تک یہ معزز ومحترم ہستیاں ہمارے ہونے کا ٹھوس ثبوت نہ پیش کردیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ایسا کرتی کیوں ہیں؟ہم جہاں تک سمجھے ،وہ یہ کہ سب سے پہلے تو انھیں اونچے خاندان سے ہونے کا غرور ہوتا ہے ۔یہ جنت و دوزخ کو بھی گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں۔پھر جو کام یہ کر رہے ہیں، وہ بھی اس خوش فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ یہ جنت میں داخلے کے لئے کافی ہے۔پھر ان کے چمچے بھی ہیں، جو ان کو جھاڑ پر چڑھاتے رہتے ہیں۔افسوس کہ کوئی ان کو یہ نہیں بتاتا کہ جس کی نسبت پہ اتراتے ہو،وہ تین سال شعب ابی طالب میں قید رہا تھا ،۱۳ سال تک مشرکین مکہ کے غیر انسانی حربے برداشت کیے تھے ۔یہ ائر کنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر قوم کی قیادت کرنا چاہتے ہیں، جو اب ممکن نہیں رہی،اس لئے اب کوتوال کو سیاں بنایا جا رہا ہے۔

اس سے برا حال بخاریوں کا ہے ۔دہلی کی جامع مسجد کے امام بخاری کا حال یہ ہے کہ وہ اب منفی شہرت کے خوگر ہو گئے ہیں،ان کے والد نے وراثت میں ان کے لئے بہت کچھ چھوڑا ہے، اس میں ایک یہ بھی ہے کہ ضروری ہو یا غیر ضروری سیاست میں ٹانگ ضرور اڑانا،اسی طرح قوم پوچھے نہ پوچھے ،قوم کے تئیں ہمدردی کا دم ضرور بھرنا۔بالکل ایسے ہی ایک بخاری ہمارے یہاں بھی ہیں۔وہ بھی جامع مسجد کے امام ہیں۔ان کے پاگل پن کا حال یہ ہے کہ وہ جمعے کے خطبے سے لے کر نکاح کے خطبے تک میں حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں اور یہ اس وقت ہے، جب کہ ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے۔وہ صاف صاف کہتے ہیں کہ کیا ضرورت ہے احتجاج کرنے کی،پہلے اپنے اعمال تو دیکھو ۔پہلےاپنے اعمال درست کرو، بعد میں احتجاج کرنا ۔یہ اس لئے درست ہے کہ شہر میں سب سے زیادہ برے اعمال انہی کے ہیں۔شہر کا ہر فرد انھیں برا بھلا کہتا ہے،بس منہ پر نہیںکہتا،اس لئے کہ غنڈے بھی پال رکھے ہیں۔ اس سب کے باجود بخاریوں کو کچھ تو شرم کرنا چاہئےقو،م کے بچے ہی نہیں بچیاں بھی فرنٹ پر ہیں؛بلکہ بچیاں تو وہ کر رہی ہیں،جو بوڑھوں سے نہیں ہوپا رہا ہے ۔وہن کا فتنہ ان قبر میں پیر لٹکائےائمہ کو جکڑے ہوئے ہے،دوسری طرف کیرالہ کی طالبہ رابعہ عبد الرحیم نے اس صدرجمہوریہ کے ہاتھوں گولڈ میڈل لینے سے انکار کردیا، جس نے ملک کی تقسیم کرنے والے بل پر دستخط کئے،مگر یہ صرف مسلم طالبہ کا معاملہ نہیں ہے،ہندو طلبا و طالبات نے بھی حکومت کو کس کس کر طمانچے مارے ہیںاور سب سے بڑھ کر ڈاکٹر اکاشی سنجیو بھٹ کی حکومت کے خلاف بلکہ مودی کے خلاف تقریر،اس تقریر پر بچی کا مرڈر ہو سکتا ہے،جبکہ امیر شریعت ہوں یا بخار ی، ان کے مرڈر کا دور دور تک امکان نہیں ۔یہ ڈاکٹر اکاشی کون ہے؟سنجیو بھٹ IPS کی دختر نیک اختر ،سنجیو بھٹ کون؟گجرات کا وہ پولس افسر، جو سچ بولنے کی سزا داخل زنداں ہو کر پارہا ہے۔اور تو اور، اس وقت توجاوید اختر اور شبانہ اعظمی جیسے ’کافر‘بھی مسلماں ہوگئے ہیں،ان کے فرزند فرحان اختر اگست کرانتی میدان میں لیڈ کر رہے تھے،مگرمیں ہوا کافرتو وہ کافر مسلماں ہوگیا!ایسے ہی وقت میں چھپے ہوئے کافر باہر آتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے ائمۂ کرام ایسا کیوں کرتے ہیں؟ بات وہی ہے، جس کی وجہ سے جامعہ ملیہ کی وائس چانسلر نجمہ اختر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر طارق منصور حکومت کے چمچے بنے ہوئے ہیں،پیٹ کا سوال ہے۔نجمہ اختر نے صنف نازک ہوتے ہوئے کچھ تو مردانگی دکھائی۔انھوں نے کہا کہ پولس جامعہ میں کیسے آئی؟میں نے تو نہیں بلایا ،جبکہ طارق منصور صاحب شاہ سے زیادہ شاہ کے وفا دار ثابت ہورہے ہیں۔یہی حال ہمارے بخاری صاحبان کا ہے،اسلام میں سوائے بیت اللہ کی کلید برداری کے کچھ بھی موروثی نہیں،نہ خلافت ،نہ امامت۔جو حکومت پرسنل لا جیسی منضبط اور آئینی تحفظ کی حامل چیز میں مداخلت کرکے اس کا حلیہ بگاڑ سکتی ہے، وہ موروثی اور مسلمانوں کے سروں پر زبردستی تھوپے گئے ان بے پیندے کے لوٹوں کو لڑھکانے میں کیا وقت لے گی؟اور اب یہ لوگ اس قابل بھی نہیں رہے کہ کوئی دوسرا باعزت پیشہ اختیار کر کے حلال کما سکیں،یہ جانتے ہیں کہ قوم کیا کر لے گی؛اس لئے ہاں میں ہاں ملانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں ۔

نومبر 2004میں محترمہ ارندھتی رائے نے امریکہ کے معروف صحافی ڈیوڈ بیرسمین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا’ ’ـہندوستان میں ہمیں فاشسٹوں سے سیدھا واسطہ تھا ،یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی سے اور دوسری طرف کانگریس پارٹی کا فرقہ وارانہ روپ، جو اس نے پچاس سال سے پردے میں چھپا رکھا تھا، انہی پچاس سالوں میں کانگریس نے دائیں بازو والوں کیلئے راستہ ہموار کیا‘‘یہی بات گزشتہ پندرہ سالوں سے ہم بھی کہہ رہے ہیں۔محترمہ سوزانا اروندھتی رائے 24 نومبر1961 میں پیدا ہوئی تھیں۔یعنی جس وقت انھوں نے اپنے انٹرویو میں کانگریس کا اصلی چہرہ آشکار کیا، وہ صرف 43سال کی تھیں۔مگر ہمارے صاحب ایمان علما جو زندگی کی 70/80بہاریں ؍خزائیں دیکھ چکےہیں، وہ آج بھی کانگریس کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہیں۔آخر ان میں فراستِ مومنانہ کیوں پیدا نہیں ہوئی؟اس سے بڑھ کر یہ کہ آخر ہمارے ادیب،دانشور ،صحافی انھیں پہچان کیوں نہ پائے؟

جو بھی ہو،قوم کو مودی اور امیت شاہ کا اس لئے شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان کی حماقتوں نے مسلمانوں میں بہت کچھ بدل دیا ہے۔وہ ہندو بھی، جو اب تک کنارے کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے ،مسلمانوں کے شانہ بشانہ میدانِ جنگ میں کود پڑے ہیں۔ایک بات یہ بھی اچھی ہوئی کہ دونوں کی جوڑی نے مسلمانوں کی فرسودہ قیادت کو پہلے ہی قابو کر لیا تھااور اس فرسودہ قیادت نے خود ہی اپنے آپ کو بابری مسجد کے معاملے میں مسلمانوں کے سامنے ننگا کر لیا تھا ۔اب نئی قیادت اسی فرسٹریشن کی پیدا وار ہے،جس بہادری ،بیباکی اور اعتماد کے ساتھ بچیوںنے مورچہ سنبھالا ہے ،دل چاہتاہے کہ ان کے والدین کو سلام پیش کیاجائے۔

(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)

You may also like

Leave a Comment