جب سے ماہ ربیع الاول کا چاند ہوا تب سے ایسی تحریریں تو کم دیکھنے کو ملیں یا سرے سے ملی ہی نہیں کہ رسول اللہ کے بعد ہم نے آپ کے مبارک دین کو دنیا میں کتنا پھیلا دیا۔
ہم اس بات کا بحیثیتِ امتِ محدیہ احتساب کریں اور ہر نئے سال پر پچھلے سال کی کارگردگی کا جائزہ لیں, اپنا رپورٹ کارڈ تیار کریں اور ساتھ ہی آگے کے لیے نئی حکمتِ عملی بنائیں، نیا خاکۂ عمل ترتیب دیں۔
اس کے بر خلاف طلوعِ چاند سے بارہ دن تک ہم دو الگ الگ محارب گروہوں میں تقسیم ہو کر آپس میں صرف اسی بات کی لڑائی کرتے رہے کہ میلاد منانا جائز ہے یا ناجائز, بدعت ہے یا مستحب، سعادت ہے یا قباحت۔
عموماً دیوبندی سلفی نوجوان دنیا بھر سے تلاش کر کر کے ایسی نئی پرانی ساری ویڈیوز جو جلوس اور جشنِ میلاد کے نام پر چاہے کوئی بھی ڈانس کرتا ہو, بدتمیزی کرتا ہو, سیدھے بریلویوں کی طرف منسوب کر کے سوشل میڈیا پر ڈالتے رہے، مذاق اُڑاتے رہے اور آپس میں نفرت بڑھاتے رہے۔
اور جواباً بریلوی نوجوان بھی جلوس اور میلاد کے خلاف ہر ایرے غیرے کی نہایت فرضی اور بے تکی باتیں تک دیوبندی سلفی لوگوں کی طرف منسوب کر کے, بڑی بڑی ڈاڑھیوں والے چہروں کی پکس اور "سواے ابلیس کے جہاں میں…” والا شعر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے رہے, مذاق اُڑاتے رہے, آپسی نفرتوں میں اضافہ کرتے رہے۔
ربیع الاول کی پہلی تاریخ سے آج تک یہ بحث و جدال نہایت زور و شور سے چلتا رہا، یہ جنگ ایک حد آج ایسے تھمی ہے، جیسے الیکشن کے پرچار کا آج آخری دن ہو اور اب صرف پرکٹکل کا دن رہ گیا ہو، ذرا سوچیے ہر سال چلنے والا یہ تماشا کیا کسی نتیجہ پر پہنچتا ہے؟ ہرگز نہیں۔
اولاً تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ رسول اللہ کی ولادت اور آمد کی خوشی سلفی ہو دیوبندی ہو یا کوئی اور سب کو ہے بلکہ یہ ایمان کا حصہ ہے، مسئلہ صرف طریقۂ اظہار میں اختلاف کا ہے, ایک گروہ سیرت اور تعلیمات کے فروغ کی سعی کر کے اظہارِ جذبات کرتا ہے اور دوسرا بالعموم جلوس،سجاوٹ اور خاص تذکرۂ واقعاتِ میلاد کر کے اظہارِ مسرت کرتا ہے۔
اس طرح نفسِ مسئلہ میں اختلاف نہیں،صرف طریقۂ کار میں اختلاف ہے اور یہ امر فروعی ہے اور اس میں نیت دونوں ہی طرف خیر کی ہے, ایسے میں یہ دیکھ کر نہایت افسوس ہوتا ہے کہ ایک فروعی اور اجتہادی مسئلہ میں ہم کیسے لگاتار بارہ دن تک تیسرے اور چوتھے درجے کے بدتمیز منہ زوروں کی طرح آپس میں لڑتے ہیں۔
پھر یہ سب کرتے وقت ہم اپنے مدمقابل پر بہت سی تہمتیں لگاتے ہیں، بہت سی بدگمانیاں کرتے ہیں،بدکلامی اور سب شتم کرتے ہیں، اس کے ساتھ ہم اپنی بہت سی حقیقی غلطیاں تسلیم کرنے سے انکاری ہوتے ہیں جو خود ایک گناہ ہے, مستزاد ہم آپس میں مسلکی نفرت اور دشمنی کی خلیج بھی مزید گہری کر لیتے ہیں۔
حالاں کہ بالخصوص نوجوان فضلا کو یہ سوچنا چاہیے کہ ہم یہ ہر سال تماشا کرتے کیوں ہیں اور ہمیں بحیثیتِ مسلم امہ ہر سال یہ سب کر کے کیا ملتا ہے, سواے یہ کہ اس ماہ مبارک میں مزید گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں اور آپس میں مزید دوریاں اور بدگمانیاں بڑھاتے ہیں،کم سے کم ہم بحث کو علمی اسلوب ہی میں رکھنا سیکھ لیں لیکن نہیں.
ہمارا ہر سال کا یہ ڈرامہ ہے کہ جیسے ہی یہ ماہ مبارک شروع ہوتا ہے ہماری نامبارک بحثیں شروع ہو جاتی ہیں, علمی اور اصلاحی اسلوب میں بحث کے بجاے بغض اور نفرت کے انداز میں ہماری شیطنت بڑھ جاتی ہے۔
جب کہ دینِ رسول کے فروغ کے حوالے سے ہم اپنا احتساب بالکل نہیں کرتے، نہ آگلے سال کیا کرنا ہے اس کا کوئی لائحہ عمل طے کرتے ہیں،نہ اس کے لیے کسی قسم کا عہد کرتے ہیں،کم از کم آج کے سخت حالات کے تناظر میں ہم وحدتِ امت کے لیے ہی کچھ سوچ لیں تو ایسا بھی کچھ نہیں کرتے۔
منفی بحثوں اور پوسٹوں کو جاری رکھنے کے لیے کئی لوگ عذر کرتے ہیں کہ سامنے والا بھی نہیں مان رہا ہے، لیکن ہمیں سوچنا چاہیے کہ یہی عذر سامنے والا کرتا ہے, اس طرح تو یہ منفیات کبھی ختم ہی نہیں ہوں گی, تو کیا ہم ایسے ہی کرتے رہیں؟ یہاں تک ہم اپنی موت مر جائیں یا دشمن ہمیں بے موت مار ڈالے؟
یقیناً ہم میں سے کچھ لوگوں کو ضرور بالضرور از خود پہل کرتے ہوئے اعتدال، انصاف اور برداشت کی شروعات کرنا ہوگی، مد مقابل چاہے ہمیں جتنا بھڑکائے مگر ہمیں انصاف اور تحمل کا دامن پکڑے رہنا ہوگا, تاکہ دھیرے دھیرے ہم ایک بڑے ایک کارواں میں بدل جائیں اور خیر کو شر پر غالب کر دیں۔