کچھ لوگوں میں تعصب اس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے کہ حق ناحق سے پرے وہ دشمنی نکالنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے ہیں۔ دہلی میں ایشین گیمز کے تحت عراق بمقابل جنوبی کوریا فٹ بال میچ ہو رہا تھا اسٹیڈیم ناظرین سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ٹیم اور کھلاڑی کا ملک اور مذہب کیا ہے اس سے بے نیاز اسپورٹس اسپرٹ سے معمور اچھے کھلاڑیوں کو لوگ داد و تحسین دے رہے تھے۔ مگر ان میں ہی کچھ ایسے مذہبی تعصب گزیدہ افراد بھی تھے جو نہ صرف عراقی کھلاڑیوں کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے بلکہ اس کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو بھی نشانہ بنا رہے تھے۔ ان پڑھے لکھے جاہلوں کو شاید معلوم نہیں تھا کہ جنوبی کوریا کی بہ نسبت عراق ہندوستان کا بہت اچھا دوست ملک ہے ، کروڑوں روپے کا پٹرول ادھار ہندوستان کو دے کر مشرق وسطی میں ہندوستان کا سب سے زیادہ قابل اعتماد ملک اور ٹریڈ پارٹنر ہے جو اس ملک کی معیشت کی توانائی کے لیےضروری ہے۔ لیکن تعصب سے نابینا ہوئے لوگوں کو ملک کی تعمیر و ترقی سے کیا لینا دینا !
فرانس کے صدر نے آئندہ الیکشن میں دائیں بازو کی تائید حاصل کرنے کے لئے ہی سہی جو موقف اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے پوری دنیا میں مسلمان غیض وغضب کی حالت میں ہیں اور یہ فطری ہے اس لیے کہ اہانت رسول صلی االلہ علیہ وسلم سے ادنیٰ سے ادنیٰ درجے کے مسلمان کا دل بھی زخمی ہوا ہے ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً پندرہ سولہ کروڑ مسلمان بھی کبیدہ خاطر ہیں اور اپنے غم وغصہ کا اظہار پرامن طریقے سے کر رہے ہیں۔ ایسے میں برادران وطن کو اپنے مسلمان بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنا انسانیت اور ہم وطنی کا تقاضا ہے مگر افسوس اسلام اور مسلم دشمن عناصر ” ہم فرانس کے ساتھ ہیں ” ٹرینڈ چلا کر ہمارے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ ! انہیں اپنے برادران وطن کے مقابل اسلاموفوبیا سے متاثر فرانسیسی صدر سے ہمدردی ہے۔ یہ فرانسیسی صدر کے حق اظہار رائے کی وکالت سے محبت کی بناء پر نہیں مسلمانان عالم سے نفرت کی بناء پر ہے۔حب علی نہیں بغض معاویہ کا مظہر ہے۔
‘ہم فرانس کے ساتھ ہیں’ کہنے والے کون ہیں؟ ـ مسعود جاوید
previous post