صدر شعبہ اردو، بیکنٹھی دیوی کنیا مہا ودیالیہ،آگرہ
ہر آہ ہے خود تاثیر یہاں ہر خواب ہے خود تعبیر یہاں
تدبیر کے پائے سنگیں پر جھک جاتی ہے تقدیر یہاں
سر سید احمد خاں نے علی گڑھ میں ۱۸۷۵ء میں مدرستہ العلوم کی بنیادڈالی تھی جو ۱۸۷۷ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بن گیا ۔انہوں نے اپنے تعلیمی مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ خواب دیکھا تھا کہ یہ درسگاہ اعلی تعلیم کے لئے آکسفورڈ اور کیمبرج کی طرزپر بنے جہاں جدید و قدیم علوم کی تعلیم دی جائے ۔اور اس ادارے سے فارغین دنیا میں پھیل کر علم کی روشنی دور تک پھیلائیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ خوابوں کا جہاں ہے ۔جسے سر سیداحمد خاں نے اپنے خون جگر سے سینچا تھا ۔یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک تر بیت گاہ بھی ہے ۔اور یہاں کے فارغین ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔یہاں کے طلباء اپنی مادر درسگاہ سے محبت ہی نہیں بلکہ جان سے زیادہ محبت کرتے ہیں ۔ان میں ایک نام ہمارے ماموں سید صمصام الحی کا ہے وہ انگریزی کے مشہور نقاد ماہر اقبالیات و غالبیات پروفیسر اسلوب احمد انصاری اور پروفیسر آل احمد سرورکے ساتھیوں میں تھے ۔ماموں اعلی تعلیم کے بعد لندن اسکول آف ایکونامکس ،لندن میں درس و تدریس کا کام انجام دینے لگے ۔اور مع اہل وعیال کے تا حیات لندن میں ہی رہے ۔
پروفیسر آل حمد سرور ،پروفیسر اسلوب ا حمد انصاری اور پروفیسر ابوالحسن صدیقی سابق پرووائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ یہ لوگ جب بھی لندن جاتے ماموں کے ہی مہمان ہوتے تھے ۔ماموں ان سے ہمارا ذکر کرتے کہ کیا ہماری بھانجی کا داخلہ علی گڑھ میں ہو سکتا ہے ؟
یہ ہماری دلی خواہش ہے ۔
ماموں نے جو خواب ہمارے لئے دیکھے تھے کہ میں علی گڑھ میں پڑھوں ان کا وہ خواب پورا ہوا ۔اور ہمارا داخلہ ۱۹۸۲۔۱۹۸۱ء میں ایم اے اردو میں ہو گیا ۔ہمارے بڑے ماموں سید سیفی ندوی انتخاب ،لکھنو ۱۹۳۴ ء علمی و ادبی ما ہ نامہ علم و ادب ،دہلی ۱۹۴۱ ء ماہنامہ امام کراچی ۱۹۵۷ء کے مدیر تھے ۔اورپروفیسر ابوبکر احمد حلیم ،پرووائس چانسلر ،اے ایم یو علی گڑھ کے خاص ساتھیوں میں تھے ۔اور ماموں مجلس تاریخ و تمدن (مسلم یونیورسٹی )کے سالانہ اسلامی ہفتہ کے موقع پروفیسر ابو بکر احمد حلیم صاحب کی دعوت پر ـــ’’ اسلامی قانون معاشرت ‘‘ کے عنوان سے رامپور حامد ہال میں تقریر کے لئے آئے تھے ۔
حلیم صاحب لکھتے ہیں کہ :
’’ سید سیفی ندوی صاحب کی بصیرت افروز اور عالمانہ تقریر جو بہت زیادہ
دلچسپ رہی اور عام طور پر بے حد پسند کی گئی۔میں خود بھی اس تقریر سے بہت متاثرو مستفید ہوا ‘‘ ۱؎
علی گڑھ ہمارے لئے اس خواب کی تعبیر سے کم نہیں جو ہمارے بڑوں نے ہمارے لئے دیکھے تھے ۔آج میں جو بھی ہوں وہ علی گڑھ کی ہی دین ہے ۔ورنہ اس لائق نہ ہوتی کہ شعبہ اردو کی صد سالہ تقریب میں کچھ کہنے کی ہمت کر پاتی ۔
علی گڑھ میں ہمارے لوکل گارجین پروفیسر ابوالحسن صدیقی تھے ۔عذرا لاج انوپ شہر روڈ ،جمال پور میں پہلی بار میںاپنی
والدہ کے ساتھ داخلہ کے لئے آئی تھی ۔
آج ہم جب شعبہ اردو کی سو سالہ تاریخ کے صفحات پلٹ رہے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ شعبہ اردو کی تاریخ کا پہلا باب ۶ جون ۱۹۲۱ءعلی گڑھ کے اولڈ بوائے و اعزازی ریڈر اور چیرمین سجاد حیدر یلدرم سے شروع ہوتا ہے ۔سجاد حیدر یلدرم یونیورسٹی کے دوسرے رجسٹرار بھی تھے ۔وہ ۶ جون ۱ ۱۹۲ء سے ۳۱ جنوری ۱۹۲۹ءتک شعبہ اردو کے سر براہ رہے ۔یکم فروری ۱۹۲۹ءسے ۲۸ فروری ۱۹۳۰ء ای ایچ ہارن اور یکم مارچ ۱۹۳۰ء تا فروری ۱۹۳۵ءآر بی رمس باتھم بحیثیت پرو وائس چانسلر کی سر براہی میں شعبہ چلتا رہا ۔فروری ۱۹۳۵ء سے ۳۰ مارچ ۱۹۵۸ء تک اردو زبان و ادب کی مایہ ناز ہستی رشید احمد صدیقی صدر شعبہ رہے ۔یکم مئی ۱۹۵۸ء سے ۷ اکتوبر ۱۹۷۳ء بیسویں صدی کی عہد آفریں شخصیت پروفیسر آل حمد سرور صدر شعبہ اردو رہے ۔۸ اکتوبر ۱۹۷۳ء سے ۱۰ جولائی ۱۹۷۹ ء تک پروفیسر خورشید الا اسلام نے مدت ملازمت تک صدارت کی ذمہ داری سنبھالی ۔۱۱ جولائی ۱۹۷۹ءسے ۱۰ جولائی ۱۹۸۴ءتک پورے پانچ سال تک شعبہ اردو کی سر براہی کرنے والی پہلی خاتون پروفیسر ثریا حسین تھیں ۔
یہ سید حامد صاحب کی وائس چانسلری کا زمانہ تھا ۔یہیں سے ہمارا پھول بن کا سفر شروع ہوتا ہے اور میں اپنے لوکل گارجین عذرا لاج سے پھول بن تک پہونچی ۔آپ سبھی واقف ہیں کہ عذرا لاج کے سامنے پھول بن ہے اور پھول بن ثریا آپا کا گھر ہے ۔پھول بن ابن نشاطی کی مشہور مثنوی ہے ۔ پروفیسر ثریا حسین شعبہ اردو کی چھٹی اور پہلی خاتون صدر تھیں اور ہماری استاذ۔پروفیسر ثریا حسین کی مشہور کتاب ’’ سرسید احمد خاں اور ان کا عہد ‘‘۱۹۹۳ ء بانی درسگاہ سرسید کے حوالے سے معتبر تصنیف ہے ۔
پروفیسر ثریا حسین نے فرانس کے متشرق گارساں دتاسی پر سور بورن یونیورسٹی ،فرانس سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی تھی ۔ان کا تحقیقی مقالہ گارسیں دتاسی اردو خدمات ، علمی کارنامے اتر پردیش اردو اکادمی ،لکھنو نے ۱۹۸۴ء میں شائع کیا تھا ۔اس کتاب کا انتساب پروفیسر لوئی رینو اور پروفیسر ژاں فلیوزا کی یاد میں ہے ۔جنہوں نے فرانس میں ہند شناسی کی روایت کو روشن کیا ۔اس کے علاوہ جمالیات شرق وغرب ۱۹۸۳ء مولیئر اور اس کے ڈرامے سنہ اشاعت جنوری تا مارچ ۱۹۸۴ء سے ۱۹۰۵ ء ہے۔ پیرس و پارس (سفر نامہ) اگست ۱۹۸۴ء وغیرہ خاص ہیں ۔
ثریا آپا کے اندر انتظامیہ کا بھی وسیع تجربہ تھا اور وہ لڑکیوں میں کافی مشہوربھی تھیں ۔۱۹۸۰ ء میں عبداللہ ہال میں طالبات کی تعداد سترہ سو تھی اور آپکی سر پرستی میں تمام لڑکیاں بخوشی یہاں کے ماحول میں گھل مل کر رہتی تھیں ۔اس زمانے میں عبداللہ ہال کی اولڈ گرل عصمت چغتائی ہال فنکشن میں تشریف لے آئی تھیں ۔ثریا آپا کا لڑکیوں کو یہی پیغام ہوتا کہ علی گڑھ اور اس ادارہ کا پیغام رواداری محبت اور امن و آشتی کا پیغام ہے اور آپ سب اس کی علمبردار ہیں ۔ہم سب کو اسے نظر میں رکھنا چاہئے ۔
اس طرح ہمارا عذرا لاج سے پھول بن کا رشتہ مضبوط ہوتا گیا ۔ایک موقع ایسا بھی آیا کہ جب ہم بی ایڈ کے تحریری امتحان کے بعد انٹرویو کے لئے اپنے لوکل گارجین کے یہاں رکے ہوئے تھے ۔اچانک ضروری کام سے ان لوگوں کو باہر جا نا پڑا ۔میں کیا کرتی ،اداس تھی ۔
ثریا آپا کو جیسے ہی اس بات کا پتہ چلا تو وہ سمجھ گئیں کہ میں پریشان ہوں ۔اس زمانے میں ہم لوگوں کے اندر برجستہ کسی بات کو کہنے کی ہمت نہیں ہوتی تھی ۔۔آج تو زمانہ کافی بدل چکا ہے ۔میں جیسے ہی ثریا آپا کے یہاں گئی وہ سمجھ گئیں ۔بولیں تم ہمارے یہاں آجائو ۔عذرا باہر جا رہی ہیں ۔اور اس طرح میں ثریا آپا کے گھر اپنے تھوڑے سے سامان کے ساتھ پھول بن پہنچ گئی ۔وہ ہماری گارجین تھیں جب ایک استاذ سرپرست بن جائے تو پھر کیا کہنے ۔پھول بن میں گزارے ہوئے شب وروز کو میں آج بھی یاد کرتی ہوں ۔ثریا آپا امریکہ جا کر بھی اکثر فون پر ہماری خیریت پوچھ لیا کرتی تھیں ۔کیسی ہو ،بچے کیسے ہیں ،تمہارے شوہر کیسے ہیں وغیرہ
آخر ہماری مشفق استاذ ثریا آپا نے ۲۹ جون ۱۹۱۸ءکو بوسٹن ،امریکہ میںآخری سانس لیا ۔
’ پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ ‘
اسی زمانے میں قرۃالعین حیدر عینی آپا ۱۹۸۱ ۔۱۹۸۲ ء میں شعبہ اردو میں ویزیٹنگ پروفیسر تھیں ۔میں خود کو بیحد خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ عینی آپا سے پڑھنے کا موقع ملا ۔انہیں کا افسانہ ’’ یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے ‘‘ ایم اے کے کورس میں شامل تھا ۔ان کے پڑھانے کا انداز بلکل الگ تھا ۔آرٹس فیکلٹی لائونج میں ہم لوگوں کی کلاس ہوتی تھی ۔وہ بھی کیا دن تھے ۔لکچر کے دوران ہی عینی آپا پرس کھول کر لپ اسٹک ٹھیک کر لیا کرتی تھیں ۔اور یہ انداز مولانا آزاد لائبریری میں بھی ہوتا تھا ۔وہ اپنے آپ میں ہی کھوئی ہوئی رہتی تھیں ۔
عینی آپا کے ساتھ ہمیں تقریباہمیں پندرہ روز تک ساتھ رہنے کا موقع ملا ۔ان دنوں وہ ثریا آپا کے یہاں ہی رہتی تھیں ۔وہ اپنے خیالوں میں رہتیں ۔جب کھانے کا وقت ہو جاتا تو ثریا آپا کہتیں ، عینی کھانا لگ گیا ہے !
ہم لوگ سا تھ ہی کھانا کھا تے تھے ۔باتیں تو بہت ہیں جو دل میں تصویر کی طرح نقش ہیں ۔جب چاہتی ہوں ان تصویروں کو دیکھ لیاکرتی ہوں ۔
’ کار جہاں دراز ہے ‘عینی آپا کا سوانحی ناول ہے ۔اس میں انہوں نے اپنے خاندان کی تاریخ اور اس زمانے کے تاریخی اور سماجی حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔میرے بھی صنم خانے عینی آپا نے ساڑھے اٹھارہ سال کی عمر میں لکھا ۔بیس کی عمر تک یہ ناول شائع ہوا ۔
عینی آپا نے ناول ،ناولٹ ،افسانے ،رپورتاژ،سفر نامے لکھے اور اپنی الگ پہچان بنائی ۔وہ ایک کامیاب مترجم بھی تھیں ۔انگریزی صحافی بھی رہیں ۔ادبی دنیا میں عینی آپا کو جو شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی وہ کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے ۔ان کے ناولوں میں آگ کا دریا ،آخر شب کے ہم سفر ،میرے بھی صنم خانے ،چاندنی بیگم ،سفینہ غم دل ،گردش رنگ چمن ،شاہراہ حریر اور افسانوی مجموعوں میں ستاروں سے آگے ،شیشے کے گھر ، پت جھڑکی آواز ،روشنی کی رفتار خاص ہیں ۔
ان کے ناولوں اور افسانوں میں تقسیم ہند کا درد و کرب بہت نمایاں ہے ۔انہوں نے تقسیم وطن کو ’’ تہذیبی المیہ اور ہندو مسلم روایت کی شکست کہا ہے ۔عینی آپا پوری زندگی لکھتی رہیں ۔جتنا کچھ انہوں نے لکھ چھوڑا ہے میں سمجھتی ہوں کہ ان پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہوگا ۔میں جب بھی کسی پروگرام میں جاتی ہوں اور یہ بتاتی ہوں کہ گیان پیٹھ ایوارڈی قرۃالعین حیدر نے مجھے پڑھایا ہے تو لوگ حیرت میں پڑ جاتے ہیں اور میں کتنی خوش ہوتی ہوں اس کا اندازہ لگا نا مشکل ہو جاتاہے ۔آپ ذرا سوچئے صرف یہ کہ دینے سے جسے اتنی عزت ملتی ہے تو پھر اس ہستی کا کیا کہنا ۔اور میر تقی میر ؔ کا یہ شعر یاد آجاتا ہے ؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
انسان کی زندگی میں کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جسے وہ ساری زندگی یاد کرتا ہے ۔عینی آپا کی زندگی کا سفر ۲۰ جنوری ۱۹۲۷ءسے شروع ہوکر ۲۱ اگست ۲۰۰۷ ء کو ختم ہوا اور وہ ہم سب سے رخصت ہو گئیں ۔’ یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے ‘
مگر عینی آپا کے جانے کا سب کو افسوس تھا ۔اور میں سمجھتی ہوں کہ لو گوں کی زبان پر بھی یہی رہا ہوگا کہ اب دوسری عینی تو اس دنیا میں نہیں آنے والی ع
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
ہمارے استاد پروفیسر عتیق احمد صدیقی (۱۹۳۳ ۔۲۰۰۴ ) ۱۱ جولائی ۱۹۸۴ ء سے ۷ اگست ۱۹۸۷ء تک پورے تین سال صدر شعبہ اردو رہے ۔یہ بات غور طلب ہے کہ ۱۹۸۴ء سے ہی صدر کی مدت تین سال کر دی گئی تھی۔جو آج بھی قائم ہے ۔
۱۹۶۶ء میں عتیق صاحب کا تقررشعبہ اردو میں بطور لکچرر ہوا ۔۱۹۷۴ء مین ریڈر اور ۱۹۷۹ء میںوہ پروفیسر ہوئے ۔۱۹۸۸ سے ۱۹۹۰ ء تک ڈین فیکلٹی آف آرٹس رہے ۔۱۹۸۶ ء سے ۱۹۹۱ ڈایئرکٹر سرسید اکیڈمی ،۹۱۸۴ء سے ۱۹۸۸ ء سہ ماہی فکر و نظر اور سہ ماہی ادیب ،جامعہ اردو کے مدیر رہے ۔عتیق صاحب نے مضامین سرسید ،مراسلات سرسید اور سر سید بازیافت جیسی اہم کتابیں مرتب کیں ۔اپنے زمانہ صدارت میں آپ نے one year post MA Diploma in urdu Translation شعبہ اردو میں شروع کیا ۔اس کورس میں ہمارا پہلا بیچ تھا ۔ترجمہ کے اس کورس سے ہمیں بہت فایدہ ہوا ۔اور ہم باقاعدہ طور پر ترجمے کے فن سے واقف ہوئے ۔
تہذیب الاخلاق اور نشانت ،ماہنامہ نشانت کے لئے میں ترجمہ کیا کرتی تھی اس وقت ایک صفحہ کے پانچ روپئے ملتے تھے ۔ہوسٹل کا خرچ بہت مزے سے چلتا تھا ۔میں رسالہ نشانت کی نومبر ۱۹۸۶ء سے فروری ۱۹۸۷ ء تک اسسٹنٹ ایڈیٹر رہی ۔مگر فروری ۱۹۸۷ ء میں لکچرر بن کر آگرہ آگئی اور اس کام کو چھوڑنا پڑا ۔
یو پی رابطہ کمیٹی کی میٹنگ میں عتیق صاحب سے کئی بارآگرہ میں ملاقات رہتی تھی ۔سر بہت خوش ہوتے تھے ۔آپ یہاں اچھا کام کر رہی ہیں َ۔ہمارے زمانے کے استاذ اگر تعریف کے دو الفاظ کہ دیں تو بس سمجھ لیجئے بڑی بات ہے ۔کیوںکہ وہ سچی تعریف ہوتی تھی ۔
ہماری شادی کے موقع پر والدہ کو لکھا ہوا سر کا خط ہمارے پاس آج بھی محفوظ ہے ۔۱۷ دسمبر ۲۰۰۴ ء کو سر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔وہ آخری سانس تک قوم کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہے ۔آج ہم کلاس روم سے لے کر ان کی تمام سرگرمیوں کو یاد کر رہے ہیںاور خود استاد بن کر ان خوبیوں کو اپنے اندر اتار بھی رہے ہیں ؎
کارواں سے کیسے کیسے لوگ رخصت ہو گئے
کچھ فرشتے چل رہے تھے جیسے انسانوں کے ساتھ
عتیق صاحب کی مدت صدارت ختم ہونے کے بعد پروفیسر قاضی عبدالستار ۸ اگست ۱۹۸۷ءسے ۱۴ جولائی ۱۹۹۰ء تک صدر شعبہ اردو رہے ۔قاضی صاحب کا تو اپنا الگ انداز تھا ۔بقول قاضی صاحب ’’ شعبہ میں میری تدریس کی بھی شہرت تھی ۔اس شہرت کو برقرار رکھنے کے لئے مجھے پڑھنا پڑتا تھا ۔میں چاہتا تھا کہ میرے شاگرد پورے وقت دم بخود بیٹھے رہیں ‘‘۔
سچ پوچھئے تو ہم لوگوں کی کیفیت ٹھیک ایسی ہی ہوتی تھی ۔آپ نے اردو شاعری میں قنوطیت کے موضوع پر پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میںتحقیقی مقالہ لکھا جس پر پی ایچ کی ڈگری تفویض کی گئی ۔۱۹۵۶ء میں عارضی لکچرر ،۱۹۶۱ء میں مستقل لکچرر ہوئے ۔۱۹۶۷ء میں ریڈر ۱۹۸۰ ء میں پروفیسر اور ۱۹۹۳ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔قاضی صاحب معروف ترقی پسند فکشن نگار تھے ۔پہلا افسانہ اندھا لکھنو سے شایع ہوا ۔پہلا ناول شکست کی آواز ہے ۔افسانوں میں پیتل کا گھنٹہ ،رضو باجی ،مالکن ٹھاکر دوارہ اور آنکھیں ہیں ۔ناول شب گزیدہ ،مجو بھیا ،غبار شب ،بادل ،صلاح الدین ایوبی ،دارا شکوہ ،غالب ،حضرت جان اور خالد بن ولید خاص ہیں ۔
اپنے عہد کے قصہ گو ،تاریخی ناول نگار، افسانوں اور ناولوں کو نیا رخ دینے والے استاذ۲۹ اکتوبر ۲۰۱۸ءکو اس دار فانی سے رخصت ہو گئے ۔مگر ایسی باکمال شخصیت کے جانے کے بعد بھی ان کے کئے ہوئے کارناموں کویاد کیا جاتا رہے گا ۔یہی تو کمال ہے کہ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ہم انہیں اسی شدت سے یاد کرتے ہیں ۔
ہمارے مشفق استاذ پروفیسر منظر عباس نقوی ۱۷ جولائی ۱۹۹۰ ء سے ۱۴ جولائی ۱۹۹۳ ء تک شعبہ اردو کے صدر کے عہدے پر فائزرہے ۔آپ کا تقرر نومبر ۱۹۶۶ء میں بحیثیت لکچرر ہوا۔۱۹۷۵ء میں ریڈر اور یکم جنوری ۱۹۸۳ء کو پروفیسر ہوئے ۔
بچپن سے ہی آپ کو تقریری مقابلوں میں حصہ لینے کا شوق تھا اور نتیجہ یہ ہوتا کہ بقول استاذ ’’ مقابلے میں لاکھ کوئی کتنا ہی سر کیوں نہ مارے ۔انعام ہم ہی کو ملتا تھا ‘‘ اس اعتماد کے ساتھ اس مشکل فن میں آگے بڑھتے گئے ۔
بچپن سے ہی جو تقریری مقابلوں میں اول آتا ہو اس کے کیا کہنے ؎
تقریر بے مثال ،تحریر لا جواب
سچ تو یہ ہے کہ فخر زبان و ادب ہین آپ
کلاس میں سر کے منہ سے نکلے ہوئے ایک ایک لفظ ذہن میں اترتے چلے جاتے تھے ۔آپ کا شمار اردو کے اہم ناقدین اور اساتذہ میں ہوتا تھا ۔بلند اخلاق و کردار کے حامل ،لب و لہجہ شائستہ اور خطابت پرکشش تھی ۔ہم آپ کے لکچر سے بیحد متائثر ہوتے تھے ،میں طالب علمی کے زمانے سے ہی سوچتی تھی کہ کاش میں بھی اسی طرح تقریر کر سکوں ،جیسی سر کرتے ہیں ۔ہم نے ایم اے کرنے کے بعد بی ایڈ کیا اور گھر واپس چلی گئی ۔گھر والوں نے کہا ایم فل میںداخلہ لو اور آگے پڑھائی جاری رکھو ۔علی گڑھ سے ادھوری پڑھائی کرکے واپس لوٹنا مناسب نہیں ہے۔میں دوبارہ علی گڑھ واپس آگئی ۔ایم فل ،پی ایچ ڈی میں داخلہ ہو گیا ۔میں سوچ رہی تھی کہ کاش ہمارے نگراں پروفیسر منظر عباس صاحب ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا ۔لیجئے ہمارے دل کی مراد بھی پوری ہو گئی اور منظر صاحب ہمارے نگراں ہوئے ۔سر کلاس میں یہی کہتے کہ یہاں سے ڈگری لے کر نکلیئے نوکری جہاں بھی ملے ،جایئے۔شعبہ اردو کے نام کو باہر روشن کیجئے ۔ہم لوگوں کو وہاں بلایئے اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیجئے ۔
سرکی یہ باتیں ہمیں ہمیشہ یاد رہتی تھیں ۔ہم نے اتر پردیش ہایر ایجوکیشن سرویسز کمیشن ،الہ آباد میں اپلائی کردیا ۔انٹڑویو دینے تو گئی مگر یہ سوچ رہی تھی کہ سیلیکشن پی ایچ ڈی والوں کا ہوگا ۔ہمارا تو مشکل ہے ۔مگر قدرت کو تو ہمارے لئے کچھ بہتر ہی منظور تھا ۔ہمارا سیلیکشن کمیشن سے ہو گیا ۔اور آگرہ کے بڑے مشہور کالج میں ۱۰ فروری ۱۹۸۷ء کو بحیثیت لکچرر جوائن کر لیا ۔یہ منظر صاحب کی حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ تھا ۔اس طرح سارے کام چھوڑکر کمرہ نمبر ۲۰۱ سروجنی نائڈو ہال سے تھوڑے اپنے ہوسٹل والے سامان کے ساتھ اپنی مادر درسگاہ کی شام ، شام مصر اور شب شیراز کو چھوڑکر کر علی گڑھ سے آگرہ آگئی ۔
میں اس دن کو کیسے بھول سکتی ہوں جب ہمارا ایم فل کا وائے وا ہونا تھا اور ہمیں معلوم نہیں تھا ، اس وقت ٹیلی فون کی سہولت کہاں تھی ۔دروازے پر دستک ،کھولا تو دیکھا ولی محمد بھائی !
اسلام علیکم ولی بھائی آپ!
ہاں بی بی !
منظر صاحب نے ہمیں بھیجا ہے ،چلئے آج ہی آپ کا وائے وا ہے ۔حکم چند نیر صاحب آچکے ہیں ۔
تھوڑی ہی دیر میں ولی بھائی کے ساتھ علی گڑھ کے لئے چل پڑی ۔
وائے وا کے بعد میں سر کے گھر تار بنگلے ہی رکی ۔آنٹی نے خلوصو محبت سے کھانا کھلایا اور اگلے دن آگرہ کے لئے واپس ہو ئی ۔صبح کلاس جو تھی ۔میں منظر صاحب کو ہمیشہ دل کی گہرائیوں سے دعا دیتی تھی ۔ان کی سادگی ،بلند اخلاق و کردار کی تو میں ابتدا سے ہی قائل تھی ۔اچھا استاد وہی ہوتا ہے جس کے شاگرد اس کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو اپنے اندرلانے کی کوشش کرتے ہیں ۔کہ جب وہ خود استاد بنیں تو ان کی جھلک ان میں نظر آئے ۔
منظر صاحب کے پی ایچ ڈی کے نگراں مجنوں گورکھپوری تھے ۔وحیدالدین سلیم حیات اور ادبی خدمات تحقیقی مقالہ تھا ۔آپ کی کتابوں کی فہرست طویل ہے یہاںچند اہم کتابوں کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے ،ان میں خطوط اقبال بنام عطیہ فیضی ۱۹۷۴ء نثر ،نظم اور شعر ۱۹۷۸ء تنقیدی مضامین کا پہلا مجموعہ ،حسرت موہانی ۱۹۸۱ء انتخاب غزلیات ثاقب لکھنوی ۱۹۸۳ ء اسلوبیاتی مطالعے ۱۹۸۹ء،مولانا آزاد کا اسلوب ،بحوالہ غبار خاطر ۱۹۹۲ ء اردو تنقید ،مسائل و مباحث ۱۹۹۳ء سفر شوق ۱۹۹۸ئتفہیم و تجزیہ ۲۰۰۴ء نوائے دروں ۲۰۱۰ء نغمات فرہنگ ۲۰۱۷ء قلم فرسائیاں میری ۲۰۱۸ء خاص ہیں ۔
آپ ۳۱ اکتوبر ۱۹۹۳ء کو ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنے آبائی وطن امروہہ چلے گئے ۔فون پر اکثر سر سے بات ہو جاتی تھی ۔سر کی بڑی بیٹی نجم السحر ایم اے میں ہماری کلاس میٹ تھی ۔ اپنی کتاب ’’ جوش ملیح آبادی کی نثری خدمات ‘‘کے لئے سر سے پیش لفظ لکھوانا چاہ رہی تھی یہ بات اکتوبر ۲۰۲۰ء کی ہے ۔نجمی سے کہا تم سر سے لکھواکر بھیج دو ۔
۲۰ اکتوبر کا لکھا ہوا پیش لفظ ہمیں مل گیا ۔میں نے کہا !نجمی میری سر سے بات ضرور کرادو ۔نجمی نے کہا نسرین میں کل کروادونگی تم، بے فکر رہو ۔
کہنے لگی کہ آج بھی بہت ساری کتابیں پاپاکے آس پاس ہی رہتی ہیں ۔
میں کل تمہاری بات صبح دس بجے کروادونگی ۔
۸ اپریل ۲۰۲۱ء کو سر سے فون پر بات ہوئی ۔بہت خوش ہو رہے تھے ،کہنے لگے ہاں میں تمہارے بارے میں دوسروں سے بھی سنتا ہوں ۔تم محنت سے کام کر رہی ہو ۔مین بہت خوش ہوں۔۔۔سر آپ سے بات کرکے ہمیں بہت خوشی ہو رہی ہے ۔۔۔مگر آواز میں وہ بات نہیں تھی جو لکچر دیتے وقت ہوا کرتی تھی ۔۱۹ اپریل ۲۰۲۱ء کو نجمی کو میسیج کرکے پوچھا کہ سر کیسے ہیں ان کو اور آنٹی کو میرا سلام کہنا ۔
مگر افسوس ہم اپنے شفیق استاذ سے ۲۵ اپریل ۲۰۲۱ء کو جدا ہو گئے ۔۲۹ اپریل ۲۰۲۱ء کو نجمی کا جو میسیج آیا وہ یہ تھا ۔۔۔
آہ ! نسرین سر چلے گئے ۔بہت خاموشی سے رخصت ہو گئے ۔کچھ بھی طبیعت خراب نہیں تھی ۔صبح ساڑھے آٹھ پر مجھ سے فون پر بات ہوئی صبح ساڑھے نو پر فون آیا کہ طبیعت خراب ہو رہی ہے ہم لوگ پانچ منٹ میں گھر آگئے تو بس آخری سانس ہی تھی اپنے آپ ہی ٹانگیں سیدھی کر لیں دونوں ہاتھ سیدھے کر لئے اپنے آپ ہی کلمہ پڑھ کر آنکھیں بند کر لیں ۔کوئی تکلیف نہیں ہوئی ۔ہم سمجھ ہی نہیں پائے کہ کیا ہو رہا ہے ۔دوا کھلائی تو کھانے لگے ۔اب کوئی فائدہ نہیں اس سے ۔۔۔بہت سکون کے ساتھ رخصت ہوئے پاپا ۔۔۔الہی جیسا مقام دنیا میں ملا ایسا ہی ان کو وہاں بھی عطا کرے ۔آمین
اللہ تعالی سے ہماری یہی دعا ہے کہ آنٹی ،نجم السحر،کرن،زیب السحر داماد و اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔اور استاد محترم کو جنت الفردوس میںاعلی مقام حاصل ہو ۔آمین
عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں
ہم اپنے ایک اور مشفق استاذ مخلص انسان، ملک کا سب سے بڑا ادبی اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ ۲۰۰۸ء سے سرفراز پروفیسر کنور اخلاق محمد خاں شہر یار کی سادگی سے کون انکار کر سکتا ہے ۔آپ نئی غزل کے نمائیندہ شاعر تو تھے ہی مگر اپنی انسان دوستی کی وجہ سے ایک الگ پہچان رکھتے تھے ۔۱۹۶۵ء میں پہلا مجموعہ اسم اعظم ۱۹۷۰ء ساتواں در ،۱۹۷۸ء ہجر کے موسم ،۱۹۸۵ء خواب کا در بند ہے ۱۹۹۵ء نیند کی کرچیں ، ۲۰۰۱ء حاصل سیر جہاں ،۲۰۰۴ء شام ہونے والی ہے ،سے آپکی شہرت بڑھتی ہی گئی۔
سر اپنی شعری انفرادیت کی وجہ سے اپنی الگ پہچان رکھتے تھے۔ آپ ۱۵ جون ۱۹۹۵ ء سے ۲۲ جنوری ۱۹۹۶ء تک شعبہ اردو کے صدر رہے ایک سچا استاذ اپنے شاگرد سے کتنی ہمدردی رکھتا ہے اور یہ ہمدردی ہم نے شہر یار صاحب کے اندر دیکھی ۔وہ آگرہ کی ادبی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔
میں ۱۹۹۲ء سے آگرہ کی ادبی تنظیم قومی بزم میکش کی جنرل سیکریٹری ہوں ۔اور اب تک اردو کے اٹھائیس نامور ادیبوں کو قومی میکش ایوارڈ دیا جا چکا ہے ۔میں نے سر کو فون کیا آپ کو میکش ایوارڈ لینے کے لئے آگرہ آناہے ۔بہت خوش ہوئے کہنے لگے ضرور آئونگا ۔اور پھر ۲۷ اکتوبر ۲۰۰۲ء کو آگرہ کے پانچ ستارہ ہوٹل ہولی ڈے ان میں ایک عالیشان تقریب میں استاذ محترم اور پروفیسر نثار احمد فاروقی کو میکش ایوارڈ سے نوازا گیا ۔
میں جب بھی علی گڑھ آتی سر سے ملاقات ضرور کرتی تھی ۔وہ ہمیشہ ہماری حوصلہ افزائی کرتے اور آگرہ کی ادبی سرگرمیوں کو سن کر خوش ہوتے تھے ۔ایک بار ایک شخص آگرہ سے علی گڑھ شعبہ اردو تشریف لے گئے اور اپنا تعارف بزم میکش کے جنرل سیکریٹری کے حیثیت سے کرا یا ۔سر نے برجستہ کہا کہ ارے بزم میکش کی جنرل سیکریٹری تو ہماری شاگرد نسرین ہیں ۔یہ بات جب میں علی گڑھ آئی تو بتانے لگے ۔فروری ۲۰۱۲ء کو سر سے آخری ملاقات ہوئی طبیعت خراب تھی ۔بہت کچھ کہنا چاہ رہے تھے مگر صرف یہی پوچھا کہ آگرہ میں کیسا چل رہا ہے ۔اس بار میکش ایوارڈ کس کو دے رہی ہو ۔
چہرے پر اداسی تھی ؎
عجیب سانحہ مجھ پر گزر گیا یارو
میں اپنے سائے سے کل رات ڈر گیا یارو
۱۳ فروری ۲۰۱۲ء کی رات ٹی وی پر یہ خبر ملی کہ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ پروفیسر شہر یار کا آج آٹھ بجے علی گڑھ میں انتقال ہو گیا ۔
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
سر کی محبوبیت اور مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ ہر شاگرد ان سے محبت کرتا تھا ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اتنے اچھے اساتذہ ملے ۔یوں تو ہمارے کئی اور استاذ ہیں جن پر لکھنا چا ہتی تھی ۔
سرسید کے خوابوں کی تعبیر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے عظیم الشان شعبہ اردو کے سو سال کی شانداراور درخشاں تاریخ کے پچیسویں صدر پروفیسر محمد علی جوہر صاحب کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ شعبہ اردو کے سو سال مکمل ہونے پر بین الا قوامی سیمینار، شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی : تاریخ اور خدمات کے سو سال منعقد کرکے آپ نے یہاں کی جتنی عظیم شخصیات ہیں ان پر لکھنے اور انہیں یاد کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ۔
شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اردو کے حوالے سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جانی جاتی ہے ۔اور یہ شہرت و مقبولیت ہمارے انہیں اساتذہ کی وجہ سے ہے جنہیں ہم آج یاد کرنے کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔یہ سیمینا رآنے والی نسلوں کے لئے اردو زبان سے محبت کے ساتھ ان کی رہنمائی اور نئی روشنی فراہم کرے گا ۔اور شعبہ اردو اپنی تاریخ کے باب میں مزید اضافہ کرتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اپنی الگ پہچان قایم رکھے گا ؎
جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں پر برسے گا ،ہر کوہ گراں پر برسے گا
یہ ا بر ہمیشہ برسا ہے یہ ابر ہمیشہ برسے گا
(۱) علم و ادب ،دہلی مدیر سیفی ندوی جنوری ۱۹۴۱ء جلد ۳،شمارہ ۱ ص ۵