نئی دہلی: شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام ہر سال کی طرح امسال بھی توسیعی خطبے کا انعقاد کیا گیا جس کا موضوع ’’ہم عصر اردو صحافت : ایک لسانی جائزہ‘‘ تھا۔ مہمان مقرر معروف صحافی سہیل انجم نے اردو صحافت کی مجموعی تاریخ اور موجودہ صورت حال کاجائزہ لیتے ہوئے زبان کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ اردو اخبارات پر سوشل میڈیا کی زبان کا غلبہ ہے جس میں انگریزی الفاظ کی کثرت ہے۔ حالانکہ اردو اخبارات میں انگریزی الفاظ کی جگہ بہتر اردو متبادل کے استعمال پر زور دینا چاہیے۔ انھوں نے زبان کی مسخ شدہ صورت ، انگریزی الفاظ کے مضحکہ خیز استعمال کی مثال میں ہندوستان اور پاکستان کے مختلف اردو اخبارات کے اقتباسات پیش کیے، جس کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انگریزی الفاظ کے بہت سے اردو متبادل موجود ہیں جنھیں ہم بآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔ اس لیے قبول عام کے نام پراردو زبان کو مسخ کرنے کی کوشش قابل قبول نہیں۔ صدر شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر احمدمحفوظ نے اپنی صدارتی تقریر میں مہمان مقرر کی ہمہ جہت شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اپنی زبان میں دوسری زبانوں کے لفظوں کا غیر ضروری استعمال اپنے آپ میں غلط ہے اور غیر ضروری استعمال کی تردید کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ اردو داں طبقے کی یہ ذمہ داری ہے کہ اردو کے متبادل الفاظ کے استعمال کو رواج دیں۔ نظامت کے فرائض خطبے کے کنوینر ڈاکٹر مشیر احمد نے انجام دیے۔ شعبے کے طالب علم حافظ محمد سعدان ندوی کی تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔ آخر میں ڈاکٹر راہین شمع نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔
اس خطبے میں پروفیسر شہناز انجم، پروفیسر شہزاد انجم، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر روبینہ شاہین، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ، ڈاکٹر خوشتر زریں ملک اور ڈاکٹر سلمان فیصل کے علاوہ بڑی تعداد میں شعبے کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجو د تھے۔