Home تجزیہ حلال اور حرام کی جنگ:شکیل رشید

حلال اور حرام کی جنگ:شکیل رشید

by قندیل

ٹھیک ہے ’ حلال ‘ آپ کو نہیں پسند تو آپ ’ حرام ‘ پر گزارہ کریں ، کسی نے آپ کو روکا نہیں ہے ، لیکن اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ سند یافتہ ’ حلال مصنوعات ‘ پر پابندی لگا دی جائے ، تو یہ آپ نہیں کر سکیں گے ! بات اترپردیش کی ہو رہی ہے ، جہاں اُن کمپنیوں پر جو حلال سرٹی فیکیشن پانے کے بعد اپنی مصنوعات فروخت کرتی ہیں ، ایک ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے ، اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔ چونکہ حلال سرٹی فیکٹ ملک کی بااثر مسلم جماعتوں کی طرف سے فراہم کیا جاتا ہے ، اس لیے حلال سرٹی فیکیشن کو ’ دہشت گرد تنظیموں اور ملک دشمن سرگرمیوں ‘ سے بھی جوڑ دیا گیا ہے ! اتنا ہی نہیں دعویٰ یہ بھی کیا گیا ہے کہ جو تنظیمیں اور جماعتیں یہ کام کر رہی ہیں ، یعنی حلال سرٹی فیکیشن کا کام ، وہ ایسے سرٹی فیکٹ کی فراہمی کا کوئی اختیار نہیں رکھتیں ، اور یہ سارا کاروبار مالی فائدے کے لیے ہے ، نیز جو سرٹی فیکیٹ جاری کیے جاتے ہیں وہ ’ جعلی ‘ ہوتے ہیں ۔ ایف آئی آر کی بنیاد پر یہ خبر بھی گرم ہے کہ یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لیا ہے اور آئندہ کے چند دنوں میں حلال سرٹی فیکٹ کا کاروبار کرنے والوں اور ایسے سرٹی فیکٹ استعمال کرنے والی کمپنیوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا سکتا ہے ۔ نہ ایف آئی آر سے ہمیں کوئی حیرت ہوئی ہے اور نہ ہی اگر کریک ڈاؤن ہوتا ہے تو اس پر حیرت ہوگی ، یوگی سرکار تو مسلم جماعتوں و تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لیے ایسے ہی مواقع تلاشتی رہتی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں ایک مخصوص ’ ازم ‘ سے تعلق رکھنے والے یہ چاہتے ہی نہیں ہیں کہ ’ حلال ‘ کھانا ، غذا اور مصنوعات یہاں پنپ سکیں ، اور اس کے لیے وہ ’ حرام ‘ مصنوعات ، کھانا اور غذا استعمال کرنے کے لیے تیار تک ہیں ۔ لیکن اس ملک میں لوگوں کی ایک بہت بڑی آبادی ’ حلال ‘ ہی پسند کرتی ہے ، اور بیرون ممالک سے آنے والے سیاحوں و حکمرانوں کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد ’ حلال ‘ ہی کھاتی ہے ۔ ابھی کچھ پہلے ’ جی – 20 ‘ میں عرب اور اسلامی ملکوں کے حکمران مہمان بن کر آئے تھے ، انہیں ’ حلال ‘ ہی کھانا پیش کیا گیا تھا ، اس لیے کہ وہ ’ حرام ‘ نہیں کھاتے ۔ اور صرف اتنا ہی نہیں اس ملک کی زیادہ تر کمپنیاں جو کھانے پینے کی چیزوں کا اور مصنوعات کا کاروبار کرتی ہیں ’ حلال ‘ ہی کی وجہ سے پھلی اور پھولی ہیں ، اِن کے پروڈکٹس پر اگر ’ حلال ‘ نہیں لکھا ہوگا ، تو دنیا کے بہت سے ملکوں میں وہ پروڈکٹس پہنچ نہیں سکیں گے ۔ اگر ایسا ہوا تو ان کا کاروبار تو چوپٹ ہوگا ہی ، غیر ممالک سے آنے والا زرمبادلہ بھی چوپٹ ہوجائے گا ۔ اور اکثر کمپنیاں مسلمانوں کی نہیں ہیں ، خٓاص کر گوشت کے کاروبار سے وابستہ کمپنیاں ۔ کئی بی جے پی لیڈر بھی ہیں جو گوشت کی کمپنیاں چلاتے ہیں اور حلال سرٹی فیکٹ حاصل کرتے ہیں ۔ رہی بات مسلم جماعتوںؓ اور تنظیموں کی تو وہ کوئی اپنی مرضی سے حلال سرٹی فیکٹ نہیں دیتیں اس کی اجازت خود حکومت نے دے رکھی ہے اور عالمی پیمانے پر بھی اس کے اصول و ضوابط بنائے گیے ہیں ۔ اسلامو فوبیا میں اس قدر اندھا ہونے کا مطلب اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مارنا ہوگا ، تو اگر یہی چاہتے ہو تو مار لو پیروں پر کلہاڑی ! ایک بات مسلم جماعتوں سے : اس پروپیگنڈے کے خلاف جم کر اپنا موقف سامنے رکھیں تاکہ سچ سامنے آئے ، لوگوں کی زبانیں بند ہو سکیں اور حلال اور حرام کی لڑائی اپنے انجام کو پہنچے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like