خطیب قادر بادشاہ صاحب وانمباڑی (تملناڈو) کے ایک مشہور شاعر گزرے ہیں آپ وانمباڑی کے سب سے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے۔ آپ کا تخلص بادشاہ تھا۔ آپ نے صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ فارسی میں بھی اشعار کہے ہیں۔ آپ کی تصنیف کردہ نو کتابیں شائع ہوئیں اور تقریباً ساری ہی کتابیں اب نایاب ہیں۔ آپکی پیدائش 1854ء میں وانمباڑی میں ہوئی اور 1926ء میں وانمباڑی ہی میں آپ کا انتقال ہوا۔ آپ کی قومی خدمات کے پیشِ نظر آپ کو حالی ِمدراس کہا جاتا تھا۔
آپ نے 1906ء میں سفرِ حج کیا۔ آپ کے ساتھ آپ کی اہلیہ محترمہ اور آپ کے نسبتی ہمشیرہ زادہ الحاج عبدالشکور صاحب تھے۔ آپ کا سفر 25 اگست 1906ء کو مدراس سے شروع ہوا اور نو مہینوں کے بعد 5 جون 1907ء کو آپ مدراس واپس آئے۔ مکہ میں آپ پانچ مہینے رہے اور مدینۂ منورہ میں آپ نے 40 دن گزارے۔ دورانِ سفر آپ مدراس سے چھپنے والے ایک اخبار "مخبر دکن” کے ایڈیٹر کو چٹھیاں لکھا کرتے تھے جو مخبر دکن میں "ایک عازم حرمین شریفین کی مراسلت” کے عنوان سے شائع ہوا کرتی تھیں۔ 1910ء میں آپ کے دوستوں کی فرمائش پر آپ نے ان سارے خطوط کو جمع کیا اور ایک کتاب کی شکل میں شائع کردیا جسے "سفرِ حجاز” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس کتاب کے شائع کرنے کا مقصد آپ نے یہ بیان کیا ہے کہ اسے پڑھنے والوں کے دلوں میں سفرِ حرمین شریفین کا ذوق و شوق پیدا ہو۔ آپ کے انتقال کے بعد آپ کے فرزند خطیب عبدالرشید صاحب نے اِس کتاب کا ایک اور ایڈیشن 1926ء میں شائع کیا۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن 136 صفحات پر مشتمل ہے۔
میں نے سوچا کہ کیوں نہ اِس کتاب کو اختصار کے ساتھ ایک مضمون کی شکل میں پیش کیا جائے جس سے اُس زمانے کے حالات کا پتہ چلے۔
مدراس سے بمبئی کا سفر:
25 اگست 1906ء کو آپ نے شام کی میل ٹرین سے مدراس سے بمبئی کا سفر کیا۔ مدراس کے سنٹرل ریلوے اسٹیشن پر آپ کے دوست و احباب نے آپ کو الوداع کہا۔ دوسرے دن صبح کے بارہ بجے جب ٹرین واڈی ریلوے اسٹیشن (Wadi Railway Station)پر رکی تو وہاں آپ کی ملاقات آپ کے بھائی خطیب احمد حسین صاحب سے ہوئی جو حیدرآباد کے نظام کے خاص سکریٹری تھے۔ اپنے بھائی سے ملاقات کرنے کے لئے ایک خاص ٹرین میں وہ واڈی اسٹیشن تک آئے ہوئے تھے۔ پندرہ منٹ تک ملاقات رہی پھر بمبئی کا سفر جاری رہا۔ 27 اگست کو آپ بمبئی پہنچے۔
بمبئی سے حجاز (مکہ و مدینہ) جانے والے جہازوں کی دو کمپنیاں تھیں۔ بوہرہ کمپنی یا شاہ لین اور مغل کمپنی یا بمبئی پرشیہ اسٹیم ناوگیشن کمپنی۔ آپ نے مدراس سے ایک پاسپورٹ حاصل کیا ہوا تھا ایک اور پاسپورٹ بمبئی میں بنانا پڑا۔ آپ کے قافلہ میں آپ کے ہمراہ مرد، خواتین، بچے کُل ملا کر چالیس لوگ تھے آپ نے بوہرہ کمپنی کے جہازسے کورامنڈل یا شاہ نور کے ذریعہ جدہ جانے کا فیصلہ کیا۔اس اسٹیمر میں سکنڈ کلاس کا ٹکٹ 75 روپیہ اور تھرڈ کلاس کا ٹکٹ 40 روپے کا تھا۔ چونکہ سفر ابھی شروع نہیں ہوا تھا اس لئے بمبئی کے مقامات کی سیر کی۔ ایک جگہ پر آپ نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سکریٹری مشہور سیاست دان نواب محسن الملک بہادر کو دیکھا، ایک ریڈنگ روم گئے، ایک جلسہ میں شرکت کی جس میں مولانا شبلی نعمانی صاحب کی تقریر سنی۔ بمبئی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اُس وقت بمبئی میں پانچ پانچ چھ چھ منزلوں کی عمارتیں متعدد تھیں۔
بمبئی سے عدن (Aden) کا سفر:
پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ جہاز 15 ستمبر کو جدہ کے لئے روانہ ہوگا لیکن اس میں تاخیر ہوتے ہوتے بمبئی میں 22 دن گزارنے کے بعد 19 ستمبر کی شام کو بمبئی سے شاہ نور اسٹیمر کے ذریعہ جدہ کا سفر شروع ہوا۔ اسٹیمر پر سوار ہوتے ہی ایک جگہ لے جایا گیا جہاں سارے مسافروں کا طبی معائنہ کیا گیا۔ اُن کے سامان کو دھواں دیا گیا اور ہر ایک مسافر کے ٹکٹ پر، کلائی پر اور سینےپر ایک مہر لگایا گیا۔ رات کو 10 بجے اسٹیمر بمبئی سے نکلا۔ اس جہاز میں کپتان، خلاصی اور متفرق کام کرنے والوں کی تعداد تقریباً 100 تک تھی اور حجاج کی تعداد 980 تھی۔ وانمباڑی کی مشہور شخصیت چولورم زین العابدین صاحب بھی اپنے اہل و عیال کے ساتھ اس سفر میں آپ کے ساتھ تھے۔ آپ کے قافلہ کے امیر الحاج حکیم محمد عبدالعزیز صاحب تھے جن کا تعلق مدراس سے تھا۔ 980 حجاج میں بمبئی اور مدراس سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد 250 تھی۔ باقی تمام لوگ سندھی، بخاری، دہلوی، پنجابی، برمی وغیرہ تھے۔ محتاج و مساکین جن کے پاس صرف جہاز کی ٹکٹ کے پیسے تھے وہ بھی اس سفر میں شامل تھے۔ نو دنوں کے سفر کے بعد 28 ستمبر کو جہاز عدن (Aden) پہنچا جو یمن کا ساحلی شہر ہےوہاں پہنچتے ہی دوکانداروں کی آٹھ دس کشتیوں نے اُ ن کے جہاز کو گھیرلیا۔ اُن کشتیوں میں گوشت، انڈے، مرغی، مچھلی، پھل وغیرہ جیسی چیزیں موجود تھیں خریدار پیسے رسی میں باندھ کر کشتی تک پہنچادیتے تھے دوکاندار اِسی طرح خریدی ہوئی چیزوں کو ٹوکری میں رکھ کر جہاز میں پہنچادیتے تھے۔
عدن سے جزیرۂ پریم (Perim Island) کا سفر:
ایک دن اور ایک رات کے وقفے کے بعد جہاز عدن سے نکل کر اگلے دن 29 ستمبر کی شام کو جزیرۂ پریم (Perim Island)پہنچا۔ پریم کا اصل نام باب المندب باب سکندر مشہور تھا۔ اسے اب جزیرۂ میون (Mayyun Island)کہتے ہیں جو یمن کا حصہ ہے۔پریم میں ملٹری ڈاکٹروں نے جہاز کے کپتان اور ڈاکٹروں سے اہلِ جہاز کی صحت کے بارے میں دریافت کیا اور جہاز کو نکلنے کا حکم دیدیا گیا۔
پریم سے جزیرۂ کامران (Kamaran Island) کا سفر:
پریم سے بحرِ احمر (Red Sea) کی ابتدا ہوتی تھی۔ بحرِ احمر میں زیادہ تر پہاڑ پانی کے اندر تھے جہازوں کو ٹکرائے جانے کا خوف زیادہ رہتا تھا اسلئے ایک رہبر جہاز جس کو عرب لوگ ‘ربان’ کہتے تھے عدن سے جدہ تک ہر جہاز کے ساتھ رہتا تھا اسکی فیس 150روپیہ مالکِ جہاز کی طرف سے دی جاتی تھی۔
کامران میں قرنطینہ (Quarantine):
یہ وہ دور تھا جب ہندوستان اور کئی دوسرے ممالک میں طاعون (Plague)کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔ اسی لئے جب آپ کا جہاز 1 اکتوبر کی صبح کو کامران پہنچا تو آپ لوگوں کو دس دن کا قرنطینہ (Quarantine)کرنا پڑا۔ کامران ایک جزیرہ ہے جو یمن کا ایک حصہ ہے۔ کامران میں کیمپس بنوائے گئے تھے جہاں مسافروں کو قرنطینہ کے لئے ٹہرایا جاتا تھا اُس وقت کامران میں سات کیمپ تھے یعنی ایک وقت میں سات جہاز کے مسافر رہنے کی گنجائش تھی ہر کیمپ میں متعدد جھونپڑیاں تھیں ہر جھونپڑی میں پچاس سے ساٹھ آدمی رہنے کی گنجائش تھی اس کیمپ میں ہر روز ڈاکٹر معائنے کے لئے آتے اگر کسی کو بیمار پاتے تو اُسے شہر کے ہسپتال میں منتقل کیا جاتا۔ خطیب قادر بادشاہ صاحب کے کیمپ میں 6 لوگوں کو بیمار پایا گیا اس میں سے ایک حیدرآبادی عوت کا انتقال ہوگیا باقی سب ہسپتال سے صحت یاب ہوکر لوٹ گئے۔
کامران سے جدہ کا سفر:
10 اکتوبر کو سب جہاز میں پھر سے سوار ہوگئے اور جدہ کی طرف سفر شروع ہوگیا۔یلملم (Yalamlam)کا پہاڑ جہاں سے حجاج کے احرام باندھنے کا قاعدہ تھا اس کے آنے سے پہلے ہی سارے مسافروں نے احرام باندھ لیا۔پانچ دن سفر کرنے کے بعد 15 اکتوبر کو جہاز جدہ پہنچا۔
جدہ پہونچے:
ترکی سرکاری عہدہ داروں نے جو ساحل پر موجود تھے سارے مسافروں سے بمبئی کا پاسپورٹ لیکر نصف کاغذ تک چاک کردیا اور باقی نصف مسافروں کے حوالے کردیا۔ جدہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اس کے اطراف حصار (Boundary)تھی اور متعدد دروازے تھے۔ جدہ سے قریب حضرت بی بی حواؑ کی مزار تھی جس کی انہوں نے زیارت کی۔
جدہ سے مکہ معظمہ میں داخلہ:
15 اکتوبر کی صبح کو جدہ سے مکہ معظمہ کو روانہ ہوئے۔ بعدِ نمازِ مغرب بحرہ (Bahrah) نامی منزل میں پہنچے وہاں دو تین گھنٹے ٹہر کر پھر وہاں سے قافلہ نکلا اور 16 اکتوبر بمطابق 28 شعبان 1328ھ کو دن کے گیارہ بجے مکہ معظمہ میں داخل ہوئے۔ چونکہ سرکارِ نظام حیدرآباد سے سفارشی خط آپ کے پاس تھا اس لئے آپ کو ایک خاص مکان میں رہنے کا انتظام کیا گیا جسے رباط کہتے تھے۔ مکہ پہنچ کر سب سے پہلے آپ نے عمرہ کیا۔
ہر ملک کے حجاج کے لئے ایک ایک مطوف مقرر ہوتا تھا۔ مطوف کی ذمہ داری یہ ہوتی تھی کہ وہ حجاج کے لئے اونٹوں کی سواری کا بندوبست کرے، ان کو کرایہ کے مکان دلائے، ان کے سامان کو پہونچانے کی ذمہ داری لے۔ غرض حجاج کے تمام امور انہی لوگوں کی معرفت سے انجام پاتے۔ کوئی غیر شخص ان امور میں دخل اندازی نہیں کرسکتا تھا۔ آپ کے قافلے کے مطوف سید عبدالرحمٰن صاحب شلی تھے۔
مکہ معظمہ میں رمضان کی مبارک ساعتیں:
یاد رہے یہ وہ دور تھا جب حجاز پر ترکی سلطانوں کی حکومت تھی۔ حرم شریف کے شمال میں ایک پہاڑ پر ترکی حکومت کا قلعہ تھا دیواروں پر توپ لگی ہوئی تھیں ترکی فوج اندرونِ قلعہ مقیم تھی۔
جب رمضان کا چاند نظر آیا تو قلعہ سے 21 توپ رویتِ ہلال کی خوشی میں چلائے گئے۔ رمضان المبارک کے حوالے سے مکہ کی چند خصوصیات کے بارے میں آپ نے درجِ ذیل لکھا ہے:
1۔ابتدائے سحر کے وقت ایک توپ، انتہائے سحر کے وقت دو توپ اور افطار کے وقت ایک توپ جملہ چار توپ قلعہ سے چلائے جاتے تھے۔ 2۔تمام شب بازار کھلے رہتے تھے چائے کی دکانیں، ہوٹل، کھانے پینے کی چیزوں کی دکانیں ساری رات کھلی رہتی تھیں۔ سرکاری دفاتر مثلاً کورٹ، ڈاک خانہ وغیرہ نمازِ تراویح کے بعد کھلتے اور نمازِ فجر سے پہلے بند ہوا کرتے تھے۔3۔مسجد الحرام کی میناروں پر روشنی کا اہتمام رمضان کی راتوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتا تھا۔ 4۔نمازِ عشاء کے بعد مسجد الحرام کے صحن میں تراویح کی نماز با جماعت مختلف حفاظِ قرآن پڑھایا کرتے تھے۔
مکہ معظمہ میں عیدالفطر:
جب عید کا چاند دیکھا گیا تو قلعہ سے 21 توپ چلائے گئے۔ عید کی نماز کے بعد بھی 21 توپ چلائے گئے اور ہر نماز کی ابتداء میں بھی 21 توپ تین دن تک برابر چلائے جاتے رہے۔ عید کی نماز میں مصلیوں کا مجمع تقریباً 1,80,000 سے کم نہ تھا۔عید کے دوسرے دن سے ملاقاتیں شروع ہوتی تھیں ہر محلہ کے لئے ایک دن ملاقات کا مقرر تھا جس محلہ کی ملاقات کا دن ہوتا اس محلہ والے تمام دن اپنے مکان میں رہتے اور ملاقاتیوں کی مہمان نوازی کرتے تھے۔
کعبۃ اللہ اور مکہ معظمہ کے بارے میں تفصیلات:
مکہ معظمہ سے تین میل کے فاصلہ پر مسجد تنعیم واقع تھی لوگ وہاں جا کر دو رکعت نفل نماز ادا کرکے احرام بادھ لیا کرتے تھے اور مسجد الحرام پہنچ کر عمرہ کیا کرتے تھے۔
چار مذہب کے چار مصلے حرم شریف میں موجود تھے ان میں فقط نمازِ فجر کی پہلی جماعت مصلائے شافعی میں شافعی امام کے پیچھے ہوتی تھی باقی چاروں نمازوں کی پہلی جماعت مصلائے حنفی میں حنفی امام کے پیچھے ہوتی تھیں۔ ہر نماز کی پہلی جماعت کثیر رہتی تھی بعد کے تین مصلے کی تین جماعتیں یکے بعد دیگرے بالکل مختصر ہوتی تھیں۔
نمازِ عصر کے بعد مغرب تک حرم شریف میں طلباء کے حلقۂ درس کی بہار قابلِ دید ہوتی تھی ہر ایک حلقۂ درس میں تقریباً ساٹھ طلباء پڑھا کرتے تھے۔
حرم شریف کے 39 دروازے تھے ہر ایک کے الگ الگ نام تھے ان میں تین دروازے بہت بڑے اور شاندار تھے لوگوں کی آمدورفت اُن میں کثرت سے تھی اُن کے نام یہ ہیں: باب السلام، باب الزیادہ، باب ابراھیم۔ پانچ پانچ چھ چھ منزلہ عمارتیں بالکل حرم شریف سے لگی ہوئی تھیں۔ مسجد الحرام کے اطراف سات مینار تھے ہر مینار دو منزلہ سے چار منزلہ تک بلند تھی موذنین اُن پر سے اذاں دیا کرتے تھے ساتوں مینار میں سات موذن ہر نماز کے لئے اذاں دیتے تھے۔ کعبۃ اللہ میں موذنین و مکبرین کی تعداد تقریباً ساٹھ تھی۔ خطیبوں اور اماموں کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی۔ حرم شریف میں 1200 چراغ ایک ہی وضع کے شیشے کے ہانڈیوں میں روشن کئے جاتے تھے۔
رمضان کے بعد مکہ معظمہ میں جاوی لوگ 15,000 ہندوستانی 8,000 ترکی 7,000 جملہ تقریباً 30,000 لوگ موجود تھے۔ ہر نماز میں لوگوں کی تعداد 15,000 اور مغرب اور عشاء کی نمازوں میں اس سے بھی زیادہ کی تعداد ہوتی تھی۔
جب بارش ہوتی تو اس وقت میزابِ کعبہ کے نیچے لوگوں کا بڑا ہجوم ہوتا کیوں کہ جو پانی میزاب سے گرتا اس سے جسم اور کپڑوں کو تر کرنا متبرک سمجھا جاتا تھا۔
حرم شریف کے باب حمیدیہ کے روبرو ایک لنگر خانہ مصر کے ایک رئیس کی جانب سے جاری تھا جس کا نہایت عالیشان مکان تھا دو ڈہائی ہزار مسکینوں کو روٹی تقسیم کی جاتی تھی۔
ذی قعدہ کے آخری دنوں میں کعبۃ اللہ کے اندر کی دیواروںاور سطح زمین کو شریفِ مکہ نے اپنے ہاتھوں سے آبِ زمزم کے ساتھ گلاب عطر صندل شامل کرکے غسل دیا۔ غسل کا پانی جب کعبۃ اللہ کے اندر سے باہر پھینکا جاتا تو لوگ اسے اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔
حج کے بعد احاطۂ حرم شریف کو غسل دیا گیا۔ ہر محلہ کے سقّا لوگ (پانی لانے والے) گروہ گروہ نہایت خوشی سے دف بجا کر رقص کرتے ہوئے کچھ دعائیہ فقرات پڑھتے ہوئے نہر زبیدہ کا پانی مشکوں میں بھر کر لاتے تھے احاطۂ حرم شریف یعنی مسجد الحرام کو غسل دیا جاتا تھا۔
آپ لکھتے ہیں کہ 1 محرم سے عاشورہ تک جو واہیات رسمیں ہندوستان میں جاری تھیں اُن میں سے کوئی بھی رسم مکہ میں دیکھنے کو نہیں ملی۔
ذی الحجہ کے آخری جمعہ کو حرم شریف میں ڈھائی لاکھ سے زیادہ لوگ موجود تھے۔
وانمباڑی کے ایک عالم دین مولوی عبدالہادی صاحب کے وعظ میں بھی شریک ہونے کا آپ کو موقع ملا۔
شہرِ مکہ میں کوئی میونسپالٹی نہیں تھی جس کی وجہ سے راستوں کو پاک و صاف رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ بارش میں سڑکوں کی حالت بہت خراب ہوتی تھی۔
مکہ معظمہ میں موجود زیارت گاہیں:
آپ نے مکہ معظمہ کے شہر کے اندر بعض زیارت گاہوں کی زیارت کی مثلاً حضورؐ کے تولد کا مقام، حضرت علیؓ کے تولد کا مقام، حضرت فاطمہؓ کا مقامِ تولد اور مقامِ سکونت، حضرت خدیجہؓ کے مکان میں حضورؐ پر نزولِ وحی کا مقام۔ زیارت کی ہر جگہ پر دو دو رکعت نفل نمازیں ادا کی جاتی اور درود و فاتحہ کے بعد دعا مانگی جاتی تھی۔
آپ جبلِ بوقیس بھی گئے اس پہاڑ پر چار مقاماتِ زیارت تھے۔ 1۔چھوٹی مسجد جہاں حضرت بلالؓ نے پہلی بار اذاں دی۔ 2۔ایک سطح زمین جہاں حضورؐ نے اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھ کر روٹی اور کھجور کھائے۔ 3۔ایک سطح زمین جہاں شق القمر کے معجزہ کا ظہور ہوا۔ 4۔ایک مسجد نما مکان جہاں شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ بہ ایام سکونتِ مکہ تشریف رکھتے تھے۔
حج کی تیاری:
حج سے پہلے آپ کو مِنا جانے کا دوبار موقع ملا۔ وہاں جا کر 150 روپیہ کرایہ پر ایک مکان کا انتظام کیا گیا تاکہ حج کے دوران اُسے استعمال کیا جائے۔ باقی لوگ خیموں میں رہا کرتے تھے ہر شخص سے خیمہ میں رہنے کے لئے 5 روپئے لئے جاتے تھے۔
عیدالفطر کے بعد کچھ لوگ مدینۂ منورہ کی زیارت کے لئے نکل پڑے لیکن آپ اور آپ کے قافلہ میں سے کسی نے بھی جانا مناسب نہیں سمجھا کیونکہ وقت بہت کم تھا اس لئے اندیشہ تھا کہ اگر چلے جائیں تو حج تک واپس آنا دشوار ہوجائیگا۔
اُس وقت والئی حجاز یعنی حجاز کے گورنر احمد راتب پاشا صاحب تھے اور شریفِ مکہ علی پاشا صاحب تھے۔ سردی کے موسم میں دونوں طائف میں رہا کرتے تھے۔ حج سے پہلے دونوں جب شہر مکہ تشریف لائے تو بڑی دھوم دھام سے اُن کا استقبال کیا گیا۔
اُسی سال بہاولپور کے نواب صاحب بھی اپنے ساتھ پانچ سو خدام اور ملازمین کو لئے حج کے لئے مکہ تشریف لائے ہوئے تھے۔
مِنا کی زیارت گاہیں:
حج سے پہلے جب آپ دو بار مِنا گئے تو آپ کے ساتھ 10 آدمی تھے۔ کرائے کے گھر کا انتظام کرنے کے بعد آپ نے مِنا میں چند مقامات کی زیارت کی جن کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں: ایک چھوٹی سی مسجد دیکھی جہاں حضورؐ پر سورۂ کوثر نازل ہوئی تھی۔ مِنا کے متصل دامنِ کوہ میں مذبحِ اسمٰعیل کی زیارت کی یہ وہ مقام تھا جہاں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ کو اللہ تعالی کے حکم سے ذبح کرنے کے لئے ایک پتھر پر لٹایا تھا اس پتھر کی بھی زیارت کی۔ اس کے علاوہ مسجد خیف بھی دیکھی جو کہ مِنا کی سب سے بڑی مسجد تھی جو حضورؐ کے زمانے میں تعمیر کی گئی تھی جسے پھر سے از سرِ نو تعمیر کیا گیا تھا۔متصل مسجد دامنِ کوہ میں ایک چھوٹے غار کو بھی گئے اسی مقام پر سورۃ المرسلات نازل ہوئی تھی اسی لئے اُس غار کو سورۃالمرسلات کا غار کہا جاتا تھا۔ یہ حضورؐ کی عبادت کا مقام تھا چنانچہ حضورؐ کے سرِ مبارک کا نشان پتھر پر موجود تھا۔ زیارت کی ہر جگہ پر دو دو رکعت نفل نمازیں ادا کی گئی۔
مکہ معظمہ میں ایک مشاعرہ میں شرکت:
مکہ میں دو بار مشاعرہ میں شرکت کی جو ہر سال منعقد ہوتا آرہا تھا ہر ماہ میں دو بار مشاعرہ ہوتا تھا دہلی، پنجاب، لکھنؤ وغیرہ کے رہنے والے شعراء شامل ہوتے تھے۔ آپ نے بھی دونوں مشاعروں میں اپنا کلام پڑھ کر سنایا۔
مکہ معظمہ میں موجود ایک مدرسے کا معائنہ:
مکہ معظمہ میں ایک مدرسہ کو گئے جس کا نام مدرسۂ صولتیہ تھا۔ یہ مدرسہ خاص کر ہندوستان سے آکر مکہ میں بسنے والوں کے لئے زیادہ مفید تھا۔اس مدرسے کے لئے آپ نے اور اور آپ کے ساتھیوں نے عطیہ بھی پیش کیا۔
وانمباڑی سے آپ کے والدِ محترم کے انتقال کی خبر:
7 جنوری 1907ءکو اپنے بھائی کے خط کے ذریعہ آپ کو خبر ملی کہ وانمباڑی میں آپ کے والدِ محترم خطیب محمد قاسم صاحب کا انتقال ہوگیا۔ مکہ معظمہ کے اُن تمام مقامات میں جہاں دعا قبول ہوتی ہے آپ نے اپنے والدِ محترم کے لئے دعائے مغفرت کی۔
غلافِ کعبہ:
غلافِ کعبہ مصر میں تیار ہوکر وہاں سے مکہ لایا جاتا تھا۔ غلافِ کعبہ کو جس صندوق میں لایا جاتا اُسے محمل شریف کہتے تھے مصر سے جدہ تک جہاز میں لانے کے بعد مصری فوج جس میں چار سو سے زیادہ سپاہی ہوتے اُسے اٹھائے ہوئے جدہ سے پیدل چل کر مکہ کو آتے۔ ہر سال حج کے دن غلافِ کعبہ بدل دیا جاتا تھا۔
حج کی شروعات:
7 ذی الحجہ کو مسجد الحرام میں اعلانِ حج کا خطبہ پڑھا گیا۔ اسی دن آپ اور آپ کے قافلہ کے سارے لوگ اونٹوں پر سوار ہو کر مِنا پہنچے۔ اسی مکان میں جا کر ٹہرے جسے کرایہ پر لیا گیا تھا۔
8 ذی الحجہ نمازِ عصر کے قریب شریفِ مکہ اور والئی حجاز کی سواریاں نہایت شان و شوکت کے ساتھ مکہ سے مِنا کی طرف نکلیں۔ ترکی کا لشکر بیانڈ بجاتا ہوا والئی حجاز کی سواریوں کے ساتھ تھا جن کی تعداد تقریباً 4,000 تھی۔ شریفِ مکہ کی سواری کے ساتھ بدوی لشکر اونٹوں پر سوار تھا اس کی تعداد بھی تقریباً 4,000 سے کم نہ تھی۔ خچروں پر توپ خانہ ہوتا جس میں سے پانچ پانچ منٹ کے وقفہ سے توپ چلائے جاتے۔ والئی حجاز اور شریفِ مکہ کی سواریوں کے بعد شامی مصری قافلے محملوں کو لئے ہوئے رواں تھے ہزاروں اونٹ اور خچر اس قافلہ کا حصہ تھے۔ شامی قافلے کے توپ خانے سے بھی توپ چل رہی تھیں۔
9 ذی الحجہ کو آپ عرفات کی طرف نکلے۔ نو بجے میدانِ عرفات پہنچے جہاں لاکھوں خیمے تھے۔ مسجد نمرہ آپ کے خیمے سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی۔ زوالِ آفتاب کے ساتھ تہنیتِ حج کی توپ چلائے گئے۔ نمازِ عصر کے وقت جبلِ رحمت جسے جبلِ عرفات بھی کہتے ہیں وہاں پر ایک چبوترے کے قریب اونٹ پر بیٹھ کر قاضی صاحبِ مکہ نے خطبہ پڑھا اور دعا بھی کی۔ اُس وقت تقریباً آٹھ لاکھ لوگ عرفات میں تھے۔ جبلِ رحمت کے قریب مسجد صخرات کی بھی زیارت کی جہاں حضرت ابراہیمؑ اور تمام انبیاء حج کے دن تشریف رکھتے تھے۔ عشاء کے وقت سب لوگ مزدلفہ پہنچے اور مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں۔ آپ جہاں ٹہرے تھے وہاں سے مسجد مزدلفہ قریب ہی تھی۔
میدانِ عرفات میں موجود حاجیوں کے ہجوم کی منظر کشی آپ نے یوں کی ہے:
"اثنائے دعا میں جس قدر لوگ پہاڑ کے بلندی پر تھے لبیک لبیک اللہم الخ کہتے ہوئے اپنے اپنے رومالوں کو ہلانا شروع کئے۔ علیٰ ہذالقیاس جس قدر لوگ پہاڑ کے نیچے تھے رومال ہلا ہلا کر بہ آواز بلند تلبیہ کہہ رہے تھے۔ یہ عجب منظر تھا کہ جس کی پوری کیفیت الفاظ کے پیرایہ میں ہم کو ادا کرنے کی طاقت نہیں۔ لاکھوں آدمیوں کا اپنے خلاق پاک کے حکم پر ایک تق و دق ریگستان میں جہاں بجز خاردار جھاڑوں کے اور کوئی چیز نہیں فراہم ہونا، اپنے تمام آرام و آسائش سے قطع نظر کرنا، دھوپ کی شدت کو جھیلنا، نہایت عجز و الحاح سے لبیک لبیک کی صدا بلند کرنا، اپنے گناہوں کو یاد کرکے بے اختیار اشکبار ہونا، فقیر سے بادشاہ تک برہنہ سر صرف ایک قسم کا لباس یعنی احرام کے کپڑوں پر اکتفا کرنا بھلا وہ کون مسلمان ہوگا جس کا دل ان امور سے متاثر نہ ہو۔ وہ کون دین دار ہوگا جو ان باتوں کو اپنے دین کی عظمت و شوکت کا ذریعہ نہ سمجھتا ہو”۔
عرفات سے واپسی پر جو نظارہ آپ نے دیکھا اس پر یوں لکھتےہیں:
"ہم جبلِ رحمت سے جس وقت اپنے خیمہ کے پاس پہنچے آفتاب غروف ہوگیا پھر سب لوگ اونٹوں پر سوار ہو کر عرفات سے نکلنے لگے لاکھوں اونٹوں کا ایک ہی وقت عرفات سے واپس ہونا، پیدل چلنے والے خلائق کا ہجوم، کہیں لبیک لبیک کی صدا، کہیں اونٹ والے بدوؤں کی طریق طریق کی پکار، راستے کی گردوغبار، مصری شامی قوافل اور توپ خانۂ سرکاری سے توپوں کی بھر مار اس قسم کے نظارہ کا لطف وہی شخص جانتا ہے جس نے اس کو دیکھا ہے”۔
10 ذی الحجہ صبح کے آٹھ بجے مِنا پہنچے۔ زوال کے آگے جمرۃ العقبیٰ کو سات کنکری مار کر قربانی دینے کے مقام پر گئے۔ یہ مقام مسجد خیف سے ایک دو فرلانگ فاصلہ پر تھا۔ یہاں غار کھدوائے گئے تھے ہر غار کے پاس متعدد گوسفند (Sheep)لئے ہوئے بدو لوگ موجود تھے قربانی وہیں پر دی گئی۔ حجام کو بلوا کر حلقِ سر سے فارغ ہوئے اور احرام کھول دیا۔ گوشتِ قربانی کو سرکاری لوگ مذبح سے باہر لے جانے کی ممانعت کرتے تھے اس لئے تمام گوشت اُنہی غاروں میں دفن کردیا گیا لیکن چند مسکین لوگ سرکاری لوگوں سے آنکھ بچا کر ان سے منت و سماجت کرکےقربانی کا گوشت تھوڑا بہت اپنے ساتھ لے گئے۔
11 ذی الحجہ سے 13 ذی الحجہ تک زوالِ آفتاب کے آگے رمی جائز نہیں تھی اسی مطابق اُنہوں نے عمل کیا۔ رمی جمرات صبح سے شروع کردی۔ آپ لکھتے ہیں کہ "بڑا لطف تو یہ ہوا کہ کسی نے کنکری کے عوض بڑے بڑے پتھروں سے کام لیا کسی نے جوتا پھینک مارا۔ کسی نے جُمر پر میخ ٹھونک دی کسی ترکی نے پستول سے گولیاں چلائیں پولس نے فوراً اس ترکی کو گرفتار کرلیا۔ واقعی دنیا میں ہر مرض کا علاج ممکن ہے نادانستگی کا علاج ہی کیا ہے”۔ جمرۃ الاولیٰ، جمرۃ الوسطے، جمرۃ الاخریٰ جسکو جمرۃ العقبیٰ بھی کہتے ہیں یہ تین جمرات چبوترہ کی طرح پتھر کے نشانات تھے۔ 11ذی الحجہ کو مِنا سے مکہ معظمہ میں طوافِ افاضہ سے فارغ ہوگئے پھر مِنا کو نمازِ مغرب کے آگے پہنچ گئے۔
12 ذی الحجہ کو لوگ مِنا سے نکلنے لگے نمازِ عصر کے وقت مصری شامی قافلے بھی واپس ہورہے تھے۔
13 ذی الحجہ کو بعدِ زوالِ آفتاب رمی جمرات سے فارغ ہو کر آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے۔
کعبۃ اللہ کے اندر داخلے کی اجازت:
آپ کو کعبۃ اللہ کے اندر داخل ہونے کا دو مرتبہ موقع ملا۔ پہلی بار جب 10 رمضان المبارک کی شب میں کعبۃ اللہ کے اندر لوگوں کو داخل ہونے کی اجازت دی گئی تھی لیکن اُس وقت سب کو نہیں بلکہ صرف اُنہیں کو جنہوں نے کلید بردارِ کعبہ کو کچھ عطیہ دیا ہو۔ کعبۃ اللہ کے اندر تین ستون تھے چاروں جانب دو دو رکعت نفل نمازیں اُن لوگوں نے پڑھی اور ستونوں کو لپیٹ کر ہر ایک نے دعا مانگی۔ اوپر کی طرف دیکھنے کو بے ادبی سمجھا جاتا تھا۔آدھ گھنٹے تک اندر رہے۔
عاشورہ کے دن کعبۃ اللہ کے اندر عام داخلی کی اجازی دی جاتی تھی۔ اندر جانے کے لئے جو سیڑھی دروازہ پر لگائی گئی تھی وہ کرناٹک کے نواب اعظم جاہ محمد منور خاں بہادر مرحوم کی عطیہ کردہ تھی۔ ایک اور چاندی کی سیڑھی بھی ایک طرف رکھی ہوئی تھی جسے نواب رامپور نے تیار کرکے عطیہ کیا تھا۔
عرفہ کے دن مرد حضرات اور اگلے دن صرف مستورات کو اندر جانے کی اجازت دی گئی۔ دونوں دنوں میں صرف گیارہ بجے تک داخلے کی اجازت تھی۔
مکہ سے روانگی پر آپ کے دل کی کیفیت کو آپ نے یوں بیان فرمایا ہے:
” ہم لوگ اس مبارک مقام میں تخمیناً پانچ مہینے سکونت گزیں تھے جو کچھ دل بستگی یہاں کی اقامت میں ہم نے حاصل کی تھی وہ ایسی نہیں جس کو الفاظ کے پیرایہ میں ہم ادا کرسکیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہم جس وقت کعبۃ اللہ مین طواف الوداع کرینگے البتہ ایک بھاری صدمہ مفارقت کا ہمارے دلوں پر محسوس ہوگا۔ یہاں کی عبادات کی دلچسپی، حرم شریف کی خوشنما وسعت، صبح و شام کعبۃ اللہ کی رویت، طواف کی لذت، جماعت کی کثرت،اُن میں کس کی ہم تعریف کریں، کس کو قابل تعریف نہ سمجھیں”۔
پانچ مہینے مکہ میں گزار کر مدینے کی طرف سفر کا آغاز:
مکہ سے مدینۂ منورہ تک اونٹوں کا کرایہ 45 مجیدی تھا۔ مجیدی جسے ریال بھی کہا جاتا تھاانگریزی 2 روپیہ اور 8 پیسے ہوتے تھے یعنی انگریزی سکوں کے حساب سے اونٹوں کا کرایہ 115 روپیہ تھا۔ افواہ اڑی تھی کہ مدینہ میں قرنطینہ Quarantineکرنا پڑیگا کیونکہ جدہ میں طاعون کی بڑی شدت ہے لیکن یہ افواہیں غلط ثابت ہوئیں جب بعد میں معلوم ہوا کہ طاعون کی وجہ سے چند اموات ہوئی تھیں مگر فی الحال ہر طرح کا امن و امان ہے۔
7 مارچ 1907ء کو کعبۃ اللہ سے نمازِ اشراق کے بعد نکلے۔ بحرہ (Bahrah) نامی مقام پر پہنچے۔ دوسرے دن جدہ پہنچےجہاں پانچ دن رہے۔ 11 مارچ کو مغل کمپنی کے مشتری نامی جہاز پر سوار ہوئے اور دن کے بارہ بجے جہاز ینبوع (Yanbu) کی طرف نکلا۔ دو دن کے سفر کے بعد 13 مارچ کو ینبوع پہنچے اور کرایہ کے مکان میں ٹہرے۔ جس طرح جدہ مکہ کا بندر(Port) تھا اسی طرح ینبوع مدینہ کا بندر تھا۔ ینبوع سے مدینۂ منورہ کا اونٹ کا سفر پانچ منزل (Stoppings) کی مسافت تھی۔ پانچ منزلوں کے نام یہ ہیں: بئر سعید، حمرہ، بئر عباس، بئر درویش، مدینۂ منورہ۔ 19 مارچ کو دس بجے قافلہ ینبوع سے نکلا۔
جب بھی منزل (Stoppings) پر پہنچتے حلقہ بنا کر درمیان میں اونٹوں کو بٹھلا دیتے تھے حجاج اور حمال یعنی اونٹوں کے ہانکنے والے اسی حلقہ کے اندر رہتے تھے کیونکہ حلقہ سے باہر نکلنا خطرناک ثابت ہوتا تھا کیونکہ بدمعاش ڈاکو لٹیروں کی جماعت لوٹ مار کے لئے حملہ کردیتی تھی۔
مدینۂ منورہ میں داخلہ:
24 مارچ کو آپ نمازِ مغرب کے قریب مدینۂ منورہ پہنچے۔ 8 بجے باب السلام سے مسجدِ نبویؐ میں داخل ہوئے۔ مسجدِ نبویؐ کے اندر اس مبارک مقام میں پہلے دو رکعت نفل نماز ادا کی جس کی توصیف میں حضورؐ نے فرمایا ہے کہ ‘میرے منبر اور میرے گھر کے درمیان ایک باغ ہے جنت کے باغوں سے’۔ روضۂ مبارک پر سلام پیش کیا۔
مدینۂ منورہ میں داخلہ پر اپنے احساسات کو آپ نے یوں بیان فرمایا ہے:
"آج یہ مراسلہ اس شہر سے لکھا جارہا ہے جس کی بزرگی کا اعتراف مشرق سے مغرب تک جنوب سے شمال تک ساری اسلامی دنیا کررہی ہے جس مقام کے سنگریزوں کو لعل و گوہر کے ہمسر کہئے تو بجا ہے جس جا کی خاکپاک عشاق کے مس دل کے لئے کیمیا ہے جس مقام کا رہنا دونوں جہاں کی سعادت ہے جس جا پر مرنا باعث نجات آخرت ذریعۂ حصول جنت ہے زہے قسمت اس شخص کے جس نے اپنی ایام زندگی یہاں بسر کئے۔ خوشا زندگی اُس کی جس کا خاتمہ اِس مقام پر ہوا”۔
مسجدِ نبویؐ اور مدینۂ منورہ کے بارے میں تفصیلات:
مدینۂ منورہ کی آبادی تقریباً 80,000 تھی۔ اس شہر کی صفائی کا اہتمام اور سرکاری نظم و نسق دوسرے شہروں سے بہتر تھا۔ اطرافِ شہر دیوار و فصیل (Boundary)تھی جس پر توپ چڑھی ہوئی تھیں۔ شہر کے مغربی سمت بھی ایک دیوار تھی پہلی دیوار میں چار اور دوسری دیوار میں سات دروازے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں: باب العوالی، باب الوسط، باب نبی علی، باب قبا، باب الحمیدیہ، باب الکومہ، باب الشامی، باب الصغیر، باب المصری، باب المجیدی، باب الجمعہ۔ باب الحمیدیہ عالیشان دروازہ تھا۔ ہر دروازے پر ترکی فوج کا پہرہ تھا کُل ملا کر تقریباً 4000 کی تعداد میں فوجی مدینۂ منورہ میں حفاظت کے لئے فائز تھے۔
مسجدِ نبویؐ کے خطیبوں اور اماموں کی تعداد 150 کے قریب تھی اور موذنوں اور مکبروں کی تعداد 200 کے قریب تھی۔ مسجدِ نبویؐ میں صرف تین مصلے تھے حنفی، شافعی، مالکی۔ حنبلی مصلا نہیں تھا۔ مسجدِ نبویؐ میں ظہر اور عصر کے سوائے باقی تین نمازوں میں مصلیوں کی تعداد پانچ چھ ہزار رہتی تھی۔ مسجدِ نبویؐ کے دروازے پانچ تھے: باب السلام، باب الرحمٰن، باب المجیدی، باب النساء، باب جبرئیل۔ مسجدِ نبویؐ کے صحن میں حضرت فاطمہؓ کا ایک چھوٹا کنواں تھا جس کو بئر فاطمہ کہتےتھے۔ اس کے پانی کا نام کوثر تھا۔ آبِ زمزم کی طرح خاص و عام اس پانی کو بھی متبرک سمجھ کر پیا کرتے تھے۔
حجاز ریلوے کے بارے میں تفصیلات:
حجاز ریلوے دمشق (Damascus)سے مداین صالح (Hegra)اسٹیشن تک مکمل ہوچکی تھی۔ مداین صالح مدینہ سے 350کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ ترکی زبان میں ریلوے کو شمند فیر کہتے تھے۔ یہ امکان تھا کہ اگلے سال تک حجاز ریلوے مدینے تک پہنچ جائیگی۔
مدینے میں موجود متعدد مقامات کی زیارتیں:
آپ نے مدینۂ منورہ کے اطراف و اکناف میں واقع جن مقامات کی زیارت کی اُن کی تفصیلات حسبِ ذیل ہیں:
بئر عثمانی نامی ایک کنواں دیکھا یہ کنواں حضورؐ کے عہد مبارک میں حضرت عثمانؓ نے ایک یہودن سے خریدا تھا اور مسلمانوں کے لئے وقف کردیا تھا۔آپ نے صرف نصف کنواں 30,000 دینار دیکر خریدا تھا بعد میں باقی نصف حصہ بھی آپ ہی نے 4,000 دینار کی قیمت پر خریدلیا۔اس کے متصل ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ مسجدِ قبلتین، مسجدِ انفتح، مسجدِ سلمان فارسیؓ، مسجدِ علیؓ، مسجد ابوبکر صدیق ؓ کی بھی زیارت کی گئی۔ مسجدِ قبلتین وہ مقام ہے جس مقام پر حضورؐ پر کعبۃ اللہ کی طرف نماز پڑھنے کے لئے عین نماز میں وحی نازل ہوئی تھی۔ مسجد الفتح وہ مقام ہے جہاں جنگِ خندق کے بعد حضورؐ تشریف فرماتھے۔ مشہدِ حضرت عثمانؓ کی بھی زیارت کی گئی یعنی جس مکان میں حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوئی تھی اُس مکان اور اُس مقام کو دیکھا گیا۔
کوہِ اُحد کو بھی گئے۔ راہ میں مسجد الدرع دیکھی جہاں حضورؐ نے جنگ احد کے لئے خود لوہے کی کڑیوں کا بنا ہوا جامہ پہنا تھا۔ مستراح نامی مقام کو بھی گئے جہاں حضورؐ نے تھوڑا وقت ایک پتھر پر پشتِ مبارک لگائے ہوئے آرام کیا تھا۔ اُس جگہ بھی گئے جہاں حضرت حمزہؓ شہید ہوئے تھے۔ اُس مسجد کی بھی زیارت کی جس کے درمیان حضرت حمزہؓ کی مزارتھی۔ اس ایک مزار میں حضرت حمزہؓ اور چار صحابۂ کرام مدفون تھے۔ ایک علیٰحدہ مزار اس کے متصل تھی جو حضرت عقیلؓ بن امیہ کی تھی وہ بھی جنگِ احد میں شہید ہوئے تھے۔ ایک مٹی کے چبوترے کی بھی زیارت کی جس میں اکثر شہداء مدفون تھے۔ اُس مقام کی بھی زیارت کی جہاں حضورؐ کے دندانِ مبارک شہید ہوئے۔ جہاں پر ایک قُبّہ (گنبد) بنایا گیا تھا۔ کوہِ احد کے اس در کی بھی زیارت کی جہاں حضورؐ نے صحابہ کی ایک جماعت کو ٹہرنے کا حکم دیا تھا۔ کوہِ احد کے متصل جو آبادی تھی اس کا نام سیدنا حمزہ رکھا گیا تھا۔
مسجد قبا کی بھی زیارت کی جو مدینۂ منورہ سے تقریباً دیڑھ میل فاصلہ پر واقع تھی۔ اس کے اطراف جو آبادی تھی اس کو مدینۂ قدیم کہتے تھے۔ اس مسجد کے احاطہ میں کچھ مقامات کی زیارت کی مثلاً حضورؐ کی اونٹنی کے نشست کا مقام، بعض آیاتِ قرآنی کے نزول کا مقام، کعبۃ اللہ کو آپؐ نے بچشم خود وہاں سے ملاحظہ فرمانے کا مقام۔
مسجدِ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ، مسجدِ حضرت علیؓ، مسجدِ عمرہ، بئر خاتم اِن سب مقاموں کو بھی دیکھا۔ بئر خاتم وہ کنواں ہے جس میں حضورؐ کی مہر گم ہوگئی تھی۔وہاں کا پانی بھی نوش کیا گیا۔ آپ نے لکھا ہے کہ مسجدِ عمرہ وہ مقام ہے جہاں خاص کر رمضان المبارک میں نماز پڑھنا ایک عمرہ کے ثواب کا حکم رکھتا ہے۔ زیارت کے ہر مقام پر دو دو رکعت نفل نمازیں ادا کی۔ مسجدِ قبا کی زیارت کا دن پیر مقرر تھا کیونکہ حضورؐ پیر کے دن ہی وہاں تشریف لیجاتے تھے۔
امام و خطیب مسجدِ نبویؐ احمد ابوالجود افندی کے مکان میں ایک کمان و تیر کی زیارت کی یہ کمان و تیر صحابئ رسول حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کی خاص دست مبارک کی تھی۔اس کمان کے پشت پر ایک قرآنی آیت اور ایک حدیثِ مبارک لکھی ہوئی تھی۔
مسجد المائدہ، مسجد الاجابہ، حضورؐ کے خچر اور اونٹ کے نشانات، قبتہ البغلہ وغیرہ کی بھی زیارت کی۔ قبتہ البغلہ وہ مقام تھا جہاں حضورؐ کا خچر کنویں میں گرپڑا تھا۔ مسجد الاجابہ وہ مقام تھا جہاں حضورؐ نے نماز پڑھ کر امت کے لئے دعا کی تھی۔
جنت البقیع قبرستان کی زیارت:
اس قبرستان میں تیرہ گنبد تھے۔ ہر گنبد میں کس کس کے قبور تھے اس کے بارےمیں تفصیلات حسبِ ذیل ہیں: 1۔حضرت عثمانؓ کی قبر، 2۔حضرت بی بی حلیمہؓ (حضورؐ کی دایہ تھیں) کی قبر، 3۔حضرت ابراہیمؓ (حضورؐ کے فرزند) کی قبر، 4۔امہات المومنین ازواج رسول اللہ ؐکے نو قبور، 5۔دخترانِ رسولؐ کی تین قبور تھیں جن کے نام یہ ہیں: حضرت زینبؓ، حضرت ام کلثومؓ، حضرت رقیہؓ، 6۔اہل بیت میں سے حضرت عباسؓ، حضرت امام حسنؓ، حضرت امام زین العابدین، حضرت امام جعفر صادق، حضرت امام باقراور حضرت بی بی فاطمہؓ کے قبور، 7۔اسمٰعیل بن امام جعفر صادق کی قبر، 8۔شیخ القراء حضرت نافع مولائے ابن عمرؓ کی قبر، 9۔حضرت عقیلؓ بن ابی طالب کی قبر، 10۔حضرت امام مالکؒ کی قبر۔
جنت البقیع کی دیوار کے باہر تین گنبد تھیں جن میں مندرجۂ ذیل بزرگوں کے قبور تھیں۔ 11۔حضرت ابوسعید خدریؓ، 12۔حضرت فاطمہؓ بنت اسد والدۂ حضرت علیؓ، 13۔حضرت عاتکہؓ و حضرت صفیہؓ (حضورؐ کی پھوپیاں)۔
اس کے علاوہ جنت البقیع کے بائیں جانب ایک قطعہ زمین جو بلندی پر تھا جس پر حضرت قطب ویلور حاجی سید شاہ عبداللطیف سید شاہ محی الدین صاحب قادری کی قبر تھی جس پر ایک پتھر لگا ہوا تھا اُس پر سنہِ وفات کندہ کیا ہوا تھا۔
مدینۂ منورہ میں میلاد شریف کی مجلسیں:
1 ربیع الاول سے میلاد شریف کی مجلسیں مدینۂ منورہ میں منعقد ہوتی رہیں تمام مجلسیں بعد نمازِ فجر یا بعد نمازِ ظہر ہوا کرتی تھیں۔ 11 ربیع الاول کو عید میلاد کی خوشی کا ہر طرف اہتمام ہوا۔ مسجدِ نبویؐ کو روشنی سے چراغاں کیا گیا۔مسجد کے پانچوں میناروں پر چھوٹے چھوٹے قنادیل روشن کئے گئے۔ 12 ربیع الاول کو بعد نمازِ فجر صحنِ مسجدِ نبویؐ میں مجلسِ میلاد شریف منعقد کی گئی۔ حافظِ مدینہ نے اس مجلس میں شرکت کی۔ مجلس میں شرکت کرنے والوں کو عمدہ شربت مشکوں میں بھر کر پلائی گئی اور مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئی۔ اختتامِ مجلس پر 21 توپ چلائے گئے۔ 11 ربیع الاول کی مغرب سے 12 ربیع الاول کی مغرب تک ہر نماز کے ابتداء میں 21 توپ چلائے گئے۔
واپسی:
مدینۂ منورہ میں آپ چالیس دن رہے۔ آخری دن روانہ ہونے سے پہلے روضۂ مبارک کے روبرو الوداعی سلام پڑھا۔ 1مئی کو بعدِ نمازِ عصر مدینۂ منورہ سے نکلے۔ واپسی میں ینبوع کے بجائے رابغ (Rabigh)کو جاکر وہاں سے جہاز میں جدہ جانا پڑا کیونکہ ینبوع میں جہازوں کا آنا موقوف ہوگیا تھا۔مدینہ سے رابغ کے بندر تک اونٹوں پر سوار ہو کر گئے۔ مدینۂ منورہ سے رابغ تک اونٹوں کی چھ منزلیں تھیں۔ جن کے نام یہ ہیں: بئر عار، بئر خلص، بئر بن حسانی، بئر شیخ، مستورہ، رابغ۔ رابغ سے کشتی میں سوار ہو کر 10 مئی کی شام کو جدہ پہنچے۔
13 مئی کو بوہرہ کمپنی کا شاہنور نامی اسٹیمر جدہ پہنچا۔ جدہ میں نو دنوں تک رہنے کے بعد شاہ نور میں سوار ہو کر 20 مئی کو جدہ سے نکلے۔ اس جہاز میں 360 آدمی تھے۔ 23 مئی کو عدن پہنچے۔ جدہ سے بارہ دن کے سفر کے بعد اسٹیمر کے ذریعہ بمبئی کے بندر پر پہنچے۔ صبح کا وقت تھا 8 بج رہے تھے ڈاکٹر صاحب آئے حجاج کا سرسری طور پر معائنہ کرکے انھوں نے اتر نے کا حکم دیدیا اور بمبئی میں تین دن رُکے رہے اور چوتھے دن ریل میں سوار ہو کر 5 جون 1907ء کی صبح کو مدراس سنٹرل اسٹیشن پہنچ گئے۔ اسٹیشن پر اکثر معززین و عمائدینِ شہر استقبال کے لئے موجود تھے۔
اس کتاب کا تذکرہ:
حج کے سفرنامے لکھنے کی روایت خاصی قدیم ہے کئی مصنفین اور ادباء نے اس فن میں طبع آزمائی کی ہے۔ ڈاکٹر محمد شہاب الدین صاحب نے اپنی کتاب "اردو میں حج کے سفرنامے” میں 40 سے زائد حج کے سفرناموں کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے انہوں نے خطیب قادربادشاہ صاحب کی کتاب "سفرِ حجاز” پر بھی 8 صفحات پر مشتمل تبصرہ پیش کیا ہے۔
کتاب "سفرِ حجاز” کی دوسری خصوصیات:
اس کتاب میں نثر کے علاوہ آپ کی لکھی ہوئی کُل سات نظمیں بھی شامل ہیں۔ یہ نظمیں کس مناسبت سے لکھی گئی ہیں اس کے بارے میں تفصیلات حسبِ ذیل ہیں۔ ہر ایک نظم سے ایک ایک شعر کو بھی منتخب کرکے پیش کیا جارہا ہے۔
1۔دورانِ سفرِ جہاز بمبئی سے ساحلِ عدن
اپنے مہمانوں پہ کر لطف و کرم
یا الہٰی تیرے گھر آتے ہیں ہم
2۔مکہ معظمہ کو پہنچنے کے بعد
الہٰی خواب کا عالم ہے ہم پر یا ہے بیداری
کہاں تھے کس جگہ تھے یکبیک ہم اب کدھر پہنچے
3۔اپنی لکھی ہوئی نعت جسے آپ نے مکہ میں منعقد ایک مشاعرہ میں پڑھی
ہوں شیفتہ لقائے رسالت مآب کا
جلوہ ہے داغ دل میں مری آفتاب کا
4۔میدانِ عرفات کی توصیف میں ایک نظم
صدا لبیک کی پہنچا رہا ہے
زمیں سے تاسما میدانِ عرفات
5۔ایک قصیدہ جسے آپ نے روضۂ مبارک کے سامنے پڑھا
کہاں ہوں کون ہوں کیا دیکھتا ہوں آج آنکھوں سے
مجھے اِس خوش نصیبی پر ہے حیرت یا رسول اللہؐ
6۔اختتامِ سفر پر ایک نظم
جلد کیجئے سفر اے مشتاقو
ہے اگر دل میں احترامِ سفر
7۔فریضۂ حج پر ایک نظم:
اے مومنو حج فرض ہے سمجھے ہوئے کیا ہو
یہ فرض ادا ہو تو بڑا قرض ادا ہو