دنیا کا کوئی سفرنامہ اتنے ذوق وشوق اور اتنی عقیدت ومحبت اور اتنے وجد وحال کے ساتھ نہیں لکھا گیا ہے جتنے حج کے سفرنامے لکھے گئے ہیں۔ دنیا میں سیر وسیاحت کے بہت سے مقامات ہیں، گل وگلزار سے بھرے ہوئے چمن ہیں سمندروں کے ساحل ہیں، کوہسارو مرغزار ہیں، سبزہ زار اور آبشار ہیں‘ ایسے شہر ہیں جہاں تہذیب جدید کے نگوں کی ریزہ کاری ہے اور اہل سیم وزر ان شہروں اور سیاحتی مرکزوں کا رخ بھی کرتے ہیں لیکن خریطہ عالم پر حرمین شریفین کے سوا ایسا کوئی مقام نہیں جہاں لوگ محبت اور شوق سے اس قدرلبریز دل کے ساتھ سفر کرتے ہوں، حالانکہ وہاں سبزی اور روئیدگی کا نام ونشان نہیں، بے آب و گیاہ صحراء اور اسے وادی غیر ذی زرع کہا گیاہے۔ مکہ اور مدینہ میں ایسی کوئی کشش کا سامان نہیں جو سیاحتی مقامات میں ہوتی ہے لیکن وہاں لوگ شوق کے پروں پر سفر کرتے ہیں‘ قدم قدم پر آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں،جہاں کا ہر ذرہ ہیرا نظر آتا ہے جہاں کے گرم موسم کی جسم سوز ہوائیں بھی بادبہاری سے بڑھ کرخوشگوار محسوس ہوتی ہیں۔ دنیاکا ہرانسان چاہتا ہے کہ جب اس کا آخری وقت آئے تو وہ اپنے وطن اور اپنے اہل وعیال کے درمیان ہو لیکن یہ استثناء صرف سرزمین حجازکا ہے کہ لوگ وہاں مرنا اور جان دینا اپنی سب سے بڑی سعادت سمجھتے ہیں اور مدینہ منورہ میں آخری سانس لینا تو ہر شخص کے شوق کی معراج ہے۔چنانچہ ایک شاعر کہتا ہے
تمنا ہے درختوں پر ترے روضے کے جا بیٹھے
قفس جس وقت ٹوٹے طائر روح مقید کا
آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم ؑکو اللہ تعالی نے ان کی فدویت اور عبدیت کو قبول کرکے یہ حکم دیا تھا کہ’وأذن فی الناس بالحج‘ حج کے اسی اعلان کی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچتی ہے اور اللہ کے بندے اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے آشفتہ سر،برہنہ سر اور تقریبا برہنہ قدم (جوتوں کی اجازت نہیں ہے) کفن بردوش اس سرزمین تک پہنچتے ہیں جو کوکبہ شہر یار یعنی حضرت ابراہیمؑ اور ان کی اہل کے قدموں سے پامال اور مالا مال ہوئی تھی۔حضرت ابراہیم نے خدائے واحد کی عبادت کے لیے گھر بنایا تھا‘ہمیں اس گھر کاطواف کرنا ہے۔ حضرت ابراہیم کی زوجہ محترمہ پانی کی تلاش میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ رہی تھیں‘ ہمیں بھی سعی کرنی ہے۔ حضرت ابراہیم نے شیطان پرکنکری پھیکی تھی‘ ہر حاجی کو یہی کرنا ہے۔حضرت ابراہیم ؑنے قربانی کے حکم پر سر تسلیم خم کردیا تھا اور اپنے اکلوتے بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہوگئے تھے۔ بیٹے کی جگہ پر جانور اللہ کے حکم سے رکھ دیا گیا تھا۔اب ہر حاجی کو جانور کی قربانی کرنی ہوتی ہے اور اس کی نقل میں اب ساری دنیا کے مسلمان قربانی کی ابراہیمی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ یہ عشق کی دنیا ہے یہاں پاسبان عقل کو چھوڑ کر آنا ہوتا ہے۔ سچ پوچھئے تو یہاں عشق ہی عقل کامل کی کسوٹی ہے اور عشق نہ ہو تو شرع ودین بت کدہ تصورات سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے ہیں۔ یہاں خدا کی بات ماننی ہے‘ چاہے انسان کی عقل ناقص میں سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور خداکے چہیتے کے نقش قدم پر چلنا ہے‘ خواہ یہ سب کچھ عجیب ساکیوں نہ لگے۔ خدا کے یہاں محبوبیت کا درجہ پانے کے لیے وہی کرنا ہے جو خدا کے محبوب نے کیا تھا،اسی کی نقل کرنی ہے، اسی کے نقش قدم پر چلنا ہے۔ اگرکسی کی عقل اس کا ساتھ نہیں دیتی اور وہ اس زعم میں مبتلا ہے کہ وہ بہت عقل والا ہے اور اس عاشقانہ عمل کے لیے تیار نہیں ہے تو نکل جائے اس حرم سے کہ اس کا شمار زمرہ ابلیس میں ہے جس نے اپنی عقل خام کو رہنما بنایاتھا اور اللہ کے حضور یہ کہاتھا کہ میں تو آتشیں وجود ہوں اور آب وگل کے بنے ہوئے آدم کو سجدہ کیسے کرسکتا ہوں۔ پھر ابلیس کو راندہ درگاہ کردیاگیا۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری عقل خام بھی ہمیں راندہ درگاہ بنا دے۔ حضرت ابراہیم ؑنے اطاعت اور فرماں برداری کا اعلیٰ ترین اور کامل ترین نمونہ پیش کیا تھا‘ اس کی وجہ سے اللہ تعالی نے اپنے اس بندے کے ہر نقش کو جاوداں کردیا اوراس طرح یہ سمجھادیاکہ فرماں برداری ہی کا نام اسلام ہے۔
اس وقت ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی کا سفرنامہ حج ” جہاں نور ہی نور تھا ” میرے پیش نظر ہے۔حج کا سفر ایک عاشقانہ سفر ہے۔ اس سفر نامہ میں معصوم مرادآبادی نے اپنے عاشقانہ شوق و ذوق کے جذبات کو بہت مؤثر انداز میں پیش کیاہے اور ایسے تمام مقامات پر وہ صحافی سے زیادہ قادر الکلام ادیب نظر آتے ہیں۔ ان کے دل کی ولولہ انگیزی انشاء پردازانہ اسلوب سے بدل جاتی ہے۔ ان کے جملے ان کی دل کی دھرکنوں کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔سفرنامہ کی ابتداء ڈرامائی اندازمیں ہوتی ہے اور یہیں سے ان کے شوق وذوق کاجام چھلکنے لگتا ہے۔
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
”خواتین وحضرات! ہم کچھ ہی دیر میں مدینہ منورہ کے محمدبن عبدالعزیز ایر پورٹ پر اترنے والے ہیں۔ آپ سے گذارش ہے کہ اپنی سیٹ بیلٹ باندھے رکھیں اور اس وقت تک اپنی نشست سے اٹھنے کی کوشش نہ کریں جب تک جہاز پوری طرح رک نہ جائے۔
یہ ایک عام سا اعلان تھا جو ہر جہاز کی لینڈنگ کے وقت کیا جاتا ہے۔لیکن سعودی ایرلائنزکے عملہ کو نہیں معلوم تھا کہ وہ اعلان جو مسافروں کی سہولت اور تحفظ کو نظر میں رکھ کرکیاگیاہے‘اس کے لیے درد سر ثابت ہوگا۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کسی کو مدینہ منورہ پہنچنے کی نوید سنا رہے ہوں اور وہ اس کوسننے کے بعد سکون اوراطمینان سے بیٹھارہے۔ جس کے دل میں مدینہ کی عظمت اور عشق محمدی کا جوش ٹھاٹھیں مارہا ہے اور جس نے ساری عمر اسی تمنا میں گذاری ہو کہ ایک دن وہ اپنی جاگتی آنکھوں سے وہ منظردیکھے گا جو اب تک اس کے خواب و خیال کا حصہ تھا تو وہ اپنے آپ کو قابو میں کیسے رکھ سکتاہے۔
لہٰذا اس اعلان کے بعدپورے جہازمیں ہلچل مچ گئی اور تمام مسافر جلد از جلد مدینہ منورہ کو دیکھنے، گنبد خضرا کا دیدار کرنے، مسجد نبوی میں سجدہ ریز ہونے اور مدینہ کی بھینی بھینی خوشبودار ہواؤں سے لطف اندوز ہونے کے لیے بے چین ہو اٹھے۔
”یہ گنہ گار جس نے اب تک دنیا کی آسائشوں اور رنگینیوں کا ہی نظارہ کیاتھا آج اس مقدس اور مامون سر زمین پر قدم رکھ رہا ہے جسے خدا نے مرکز امن امان بنایااورجہاں رات ودن اس کی بے پایاں رحمتوں کانزول ہوتا رہتاہے۔جہاں ہم جیسے گنہ گارر اور سیاہ دل لوگوں کے گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ جہاں خدا کے سب سے محبوب اور اول آخر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ ہے اور جو خدا اور اس کی محبوب کا آخری شہر ہے۔
”ہم ہوٹل میں وضو کرکے حرم نبوی کی طرف چل پڑے اس وقت کی کیفیت ناقابل بیان ہے۔ جس کی طلب اور تڑپ میں کتنے دن اور راتیں گذاری تھیں‘ اب وہ منزل نگاہوں کے سامنے آنے والی تھی۔ لیجئے وہ منزل عقیدت آبھی گئی۔ پہلی نظر مسجد نبوی کے بلند و بالا مینار پر پڑی توآنکھیں چھلک گئیں ۔ رات کی تاریکی میں طاقتور سرچ لائیٹ کی مددسے میناروں پر ایسی رونق اور نور بکھرا ہوا تھا کہ اس سے نظریں ہٹا نے کا جی نہیں چاہ رہا تھا۔جوں جوں ہم مسجد نبوی کے قریب پہنچ رہے تھے‘ہماری قلبی کیفیت پر بہار آرہی تھی“۔
”ہماری تو بساط ہی کیا ہے،بڑے بڑے علمائے دین،متقی پرہیزگار اور خدارسیدہ بزرگ یہاں آکر خود کو اس تنکے سے بھی کمتر محسوس کرتے ہیں جسے ہوا کاایک جھونکا آن واحد میں اڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتا ہے ظاہر ہے یہ دربار ہی ایساہے۔اللہ کے پیارے نبیؐ کی آخری آرام گاہ پر پہنچ کر اہل ایمان کے جذبات واحساسات پر جو بہار آتی ہے وہ بیان ہی نہیں کی جاسکتی۔
”آج مدینہ منورہ میں ہمارے قیام کاآخری دن ہے ہم نے تمام دن مسجد نبوی ہی میں گذارنے کو ترجیح دی اور نماز عشاء کے بعد تصور کی غمناک آنکھوں سے گنبد خضرا کو بوسہ دیا اور پھر درود وسلام پیش کیا۔ یہ سوچ کر کہ اب زندگی میں نہ جانے کب روضہ اطہر کے دیدار ہوں اور نہ جانے کب مسجد نبوی میں دوبارہ سجدہ ریز ہونے کا موقع ملے جسم پر کپکپی سی طاری ہوگئی۔ دل ودماغ پر عجیب کیفیت گذری اور وہ جذبات واحساسات جو اب تک لطف ومسرت سے لبریز تھے یکایک افسردگی میں تبدیل ہونے لگے۔ مگر کیاکریں یہ ہمارے بس میں کہاں تھا۔ اگر حالات اجازت دیں تو وہ کون مسلمان ہوگا جو مدینہ منورہ میں قیام کو ترجیح نہ دے یا اس مقدس سرزمین کاپیوند نہ ہونا چاہے۔”
حج کے سفرناموں میں بعض سفرنامے تووہ ہوتے ہیں جن میں واقعات اور مشاہدات کا بیان ہوتا ہے اوربعض سفر نامے وہ ہوتے ہیں جن میں حج اور عمرہ کے مسائل بیان کیے جاتے ہیں اور ہر موقع کی دعائیں لکھی جاتی ہیں۔ ایسے سفرناموں کو ہم حج اور عمرہ کی گائیڈ بک بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اچھے سفرنامے وہ ہوتے ہیں جس میں قدم قدم پر قلب کی کیفیات اور واردات کا بیان ہوتا ہے اور قلب کی کیفیات اچھے الفاظ اورعبارتوں میں ڈھل کر پڑھنے والوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ایسے سفر نامے’ازدل خیزدبردل ریزد‘ کامصداق ہوتے ہیں کیونکہ :
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے
حج چونکہ ایک عاشقانہ عبادت ہے‘ اس لیے اگر عشق کی گرمی نہ ہو تو سفر اورسفرنامہ دونوں میں کوئی جان نہیں ہوتی ہے۔”جہاں نور ہی نور تھا“ ایک جاندار سفرنامہ ہے اور حج کے سفر ناموں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔
معصوم مرادآبادی کو لوگ ایک اچھے صحافی کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ ان کا پندرہ روزہ ’خبردارجدید‘ ان کے اچھے صحافی ہونے کا شاہدعدل ہے اور شائستہ ذوق قارئین کے درمیان مقبول ہے لیکن اسی کے ساتھ وہ ایک کامیاب مصنف اور ادیب بھی ہیں۔ امیدہے ان کی یہ تصنیف لطیف بھی جس میں اسلوب کی دلکشی جلوہ گر ہے شوق وذوق کے ہاتھوں لی جائے گی۔کتاب حاصل کرنے کے لیے اس نمبر پر رابطہ قایم کیا جاسکتا ہے۔
حج کا انوکھا سفرنامہ- پروفیسر محسن عثمانی ندوی
previous post