پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]
شاہین باغ کی تاریخی جمہوری احتجاجی تحریک اپنے 51ویں دن میں داخل ہو گئی ہے اور اب یہ تحریک پوری دنیا کے لئے ایک علامتی تحریک کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔ ہندوستان کے شہر شہر اور قریہ قریہ میں ایک نیا شاہین باغ بن گیاہے ۔ اس تحریک کی جو سب سے بڑی تاریخی اہمیت ہے وہ یہ ہے کہ اس میں خواتین کی حصہ داری قابلِ تحسین ہے اور ناخواندہ طبقے کے اندر بھی برسوں بعد ایک نیا جوش وولولہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔جس احتجاجی جلسہ کو دیکھئے وہاں ہندوستان کی تکثیریت نمایاں نظر آئے گی ۔ بلا تفریق مذہب وملّت عوام الناس کا ایک بڑا طبقہ اس تحریک میں روز بروز شامل ہوتا جا رہاہے ۔ حکمراں جماعت کی تمام تر سازشوں کے باوجود اس پر کوئی مذہبی رنگ غالب نہیں ہوا ہے اور نہ مظاہرین کے اندر کا صبر وتحمل جواب دے پایا ہے ۔ کیوں کہ شاہین باغ میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کی یومِ شہادت کے دن سے لے کر مسلسل تین دنوں تک جس طرح شاہین باغ کے جمہوری طریقہ کار سے اپنے آئین کی پاسداری کے لئے تحریک چلانے والوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے خلاف اشتعال انگیز نعرہ بازی کی گئی ہے وہ اس بات کی شہادت ہے کہ کس طرح دہلی کے انتخابی نتائج کو متاثر کرنے کے لئے فرقہ وارانہ جنون پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ قومی میڈیا جو ایک طرفہ حکومت کے موقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے اس سے بھی منافرت پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے ۔ شکر منائیے کہ آزاد سوشل میڈیا نے اس منافرت کے زہر کو بے اثر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ سوشل میڈیا پر بھی ان کا قبضہ ہے اور اس کے ذریعہ بھی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔ اب ملک کے مختلف حصوں میں ، بالخصوص دیہی علاقوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر چوٹ کی جانے لگی ہے ۔ گذشتہ کل دربھنگہ اور آس پاس کے کئی مقامات پر معمولی باتو ںکو لے کر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی لیکن ضلع انتظامیہ اور مقامی غیر جانبدار عوام نے اس سازش کو ناکام کردیا ہے ۔ لیکن اگر اسی طرح کا واقعہ اتر پردیش میں ہوتا تو پھر خبر اندوہناک مل سکتی تھی جیسا کہ اتر پردیش میں پولیس کے تعاون سے سب کچھ چل رہاہے ۔پورے ملک میں شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آر سی کے خلاف جو تحریک شروع ہوئی اس میں اب تک 35افراد جاں بحق ہوئے ہیں ان میں 21افراد اتر پردیش میں ہوئے ہیں ۔ اسی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتر پردیش میں کس طرح کی فضا تیار کی گئی ہے ۔ اس لئے اب شاہین باغ کی تحریک کو کچلنے کے لئے طرح طرح کے حربے اپنائے جا رہے ہیں ۔لگاتار تین دنوں وہاں پستول کی فائرنگ یا پھر ایک بڑے مجمعے کا جمع ہونا اور اقلیت طبقے کے خلاف قابلِ اعتراض نعرے بازی کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ اب اس احتجاجی تحریک کو کچلنے کے لئے ایک بڑی سازش تیار ہو چکی ہے۔اس لئے اس تحریک میں شامل ہونے والوں کے لئے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ہر وقت ہوشیار بھی رہیں اور اپنے جذبات پر قابو بھی رکھیں۔ ہمارے جلسوں میں جو مقررین آتے ہیں ان کے نظریے کو بھی سامنے رکھیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی تخریبی تقریر کر دیں جس سے ہمارے ملک کی سا لمیت کو خطرہ پیدا ہو اور ہمارے مقررین کا لب ولہجہ بھی شائستہ اور اخلاقی تقاضوں کو پورا کرتا ہو ۔کیوں کہ دوسری جانب جو دشمن ہے وہ بہت ہی شاطر ہے ، وہ اپنی ہر شاطرانہ چال کے ذریعہ اس تاریخی احتجاجی جلسوں کو ناکام کرنا چاہ رہے ہیں ۔ کیوں کہ اب یہ احتجاجی جلسہ صرف اقلیت طبقے کا نہیں رہ گیا ہے بلکہ دلت، آدیباسی ، پسماندہ طبقے اور اعلیٰ ذات کے غریب طبقے کے لوگ بھی اس میں شامل ہو رہے ہیں ۔ اب انہیں اس شاطرانہ چال کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے کہ صرف مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے یا پھر ان کے سیاسی مستقبل کو تاریک کرنے کے لئے شہریت ترمیمی ایکٹ نہیں لایا گیاہے اور این آر سی کا راستہ این پی آر کے ذریعہ ہموار نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ان تمام شہریوں کو ان کے آئینی حقوق سے محروم کرنے کی ساز ش ہے جو ملک میں امن وامان کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتے ہیں ۔ اس تحریک نے منافرت پھیلانے والوں کے حوصلے بھی پست کئے ہیں کہ شاہین باغ میں سکھ مذاہب کے ہزاروں محبِ وطن آکر جمہوری تحریک میں نہ صرف حصہ لے رہے ہیں بلکہ ان خواتین کی حفاظت کی ذمہ داری بھی قبول کر کے ان کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں ۔ چوںکہ یہ تحریک اب فیصلہ کن موڑ پر پہنچ گئی ہے اس لئے مظاہرین کے حوصلے پست کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ مبینہ سیکولر جماعت بھی خاموش ہے ۔ اتر پردیش میں اکھلیش یاد و اور مایا وتی کی خاموشی کا راز اب چھپا نہیں رہ گیا ہے ۔ وہ اپنے ووٹ بینک کی طرف دیکھ رہے ہیں البتہ بھیم آرمی کے چندر شیکھر نے جو حوصلہ دکھایا ہے اس کی پذیرائی ہونی چاہئے کہ انہوں نے اپنی آرمی کے تمام کارکنوں کو اس تحریک میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتوں میںبایاں محاذ کی مختلف پارٹیاں بھی فعال ہیں ۔ لیکن یہاں ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کے لیڈران صرف اقلیت طبقے کے جلسوں میں جا رہے ہیں اور تقریریں کر رہے ہیں جب کہ اس احتجاجی تحریک کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اپنے پارٹی کیڈروں کو بھی متحرک کریں اور ان کی طرف سے بھی مظاہرے اور احتجاجی جلسوں کا اہتمام ہونا چاہئے۔ بہار میں کانگریس پارٹی کے ممبر اسمبلی ڈاکٹر شکیل احمد خان اور کنہیا کمار ریاستی سطح پر تحریک چلا رہے ہیں اور لوگوں کو اس تحریک کا حصہ بنا رہے ہیں ۔ اگرچہ دوسرے ممبران خاموش ہیں ۔ ہاں وہ احتجاجی جلسوں کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں ۔ چوںکہ یہ تحریک سیاسی بھی نہیں ہے بلکہ آزادانہ عوامی تحریک ہے اس لئے اس میں ان کی قیادت کو قبول نہیں کیا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتوں یا پھر مذہبی جماعت وہ تو قیادت چاہتی ہے جب کہ اس تحریک میں اگر کسی شخصے واحدکی قیادت ہوگی یہ تحریک متنازعہ فیہ بھی ہو سکتی ہے اور کمزور بھی ہو سکتی ہے ۔ اس لئے ہمارے سیاسی ، سماجی ، مذہبی رہنمائوں کو بھی اس تحریک کو تقویت بخشنے کے لئے بے لوث تعاون دینے کی ضرورت ہے۔جس طرح اس تحریک کو کچلنے کے لئے ایک بڑی طاقت پردے کے پیچھے سے کام کررہی ہے اور اس جمہوری تاریخی تحریک کو ناکام کرنے کی کوشش کر رہی ہے اسے سمجھنا ہوگا اور اس تحریک کا حصہ بننا ہوگا کہ یہ تحریک آئین کے تحفظ کی بھی ہے اور ملک کے سنہرے مستقبل کے لئے بھی لازمی ہے۔شاہین باغ کی اس ماں کو لاکھوں سلام کہ جس کی گود میں ایک معصوم ننھی سی پری نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور پوری دنیا کو اشکبار کردیا ۔ لیکن ظالمِ وقت کو اس پر بھی کوئی افسوس نہیں کہ وہ تو پردے کے پیچھے سے صرف اور صرف اپنے مفاد کو پورا کرنا چاہتا ہے ۔ انسانیت اور ملک کی بقا سے اس کا کچھ بھی لینا دینا نہیں ۔ یہ تو حالیہ دنو ںمیں ثابت ہوگیا ہے اور بین الاقومی سطح پر بھی ہندوستان کے حالاتِ حاضرہ پر فکر مندی ظاہر کی جا رہی ہے ۔ غالبؔ نے کیا خواب کہا ہے ؎
ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے ایک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)