Home اسلامیات تراویح کا ہدیہ – عبداللہ ممتاز

تراویح کا ہدیہ – عبداللہ ممتاز

by قندیل

ہمارے یہاں عاشورہ، جشن ولادت رسول، شب برات اور رکعات تراویح جیسے بعض”موسمی مسائل "ہیں، موسم آتے ہی اثبات وانکاراور بحث وتکرار کا بازار گرم ہوجاتا ہے۔ ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ معاوضہ علی التراویح کا ہے۔ منکرین معاوضہ اپنے "شدید ترین دلائل”کے ساتھ نہ صرف سوشل میڈیا پر وارد ہوتے ہیں؛ بلکہ بعض شہروں میں پرچے چھپوا کر دیواروں پر چسپاں کراتے اور جمعہ مساجد کے باہر تقسیم کراتے ہیں کہ حافظ کو تراویح کے پیسے دینا بالکل ناجائز وحرام ہے۔ بعض استفتاء لیے دارالافتاء پہنچ جاتے ہیں کہ حافظ کو تراویح کا پیسہ دیے تو تراویح ہوئی یا نہیں۔ جیسے اس بیچارے حافظ نے تین چار سال مدرسے کی خشک روٹیاں چباکر حفظ کرکے کوئی سنگین جرم کیا ہے کہ اگر اسے کچھ پیسے دیے گئے تو رمضان جیسے مقدس مہینے میں کتنا بڑا پاپ ہوجائے گا۔ انھوں نے اپنے بہنوں کا حق دبایا ہوا ہوگا، ان کے ابا حضور نے ان کی پھوپھی کا حق نہیں دیا ہوا ہوگا؛ لیکن انھوں نے کبھی ا س کے متعلق فتوے جاننے کی کوشش نہیں کی ہوگی، ان کی مسجد میں امام صاحب کی تنخواہ پانچ سات ہزار روپے ہوگی؛ لیکن انھوں نے کوئی اشتہار نہیں چھپوایا ہوگا کہ امام کی تنخواہ ‘مناسب’ ہونی چاہیے۔ رمضان میں یہ خود لاکھوں روپے کی تجارت کرتے ہوں گے، سحر وافطار میں اپنی فیملی کے ساتھ بیٹھ کر انواع واقسام کے کھانوں سے اپنے کام ودہن کو محظوظ اور ٹھنڈے مشروبات سے اپنے گلے کو سیراب کر رہے ہوں گے۔ ادھر بیچارا حافظ؛ دن بھر قرآن کے رٹے لگانے میں گزارتا ہے اور پھر افطار نارمل پانی سے کر تا ہے کہ کہیں گلا بیٹھ نہ جائے، پر تکلف دعوتوں میں بھی؛ شکم سیر ہونا تو کجا، بڑے احتیاط سے اپنے ہاتھ بڑھاتا ہے کہ تراویح سنانے میں دشواری نہ ہو، انھیں پیسے دینا بھلا کہاں جائز ہوگا، مقتدی حضرات ان حفاظ کے سب سے بڑے خیر خواہ جو ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ امام صاحب پیسے لے کر اپنی ان ساری محنتوں پر پانی پھیر لیں۔
فقہاء نے حافظ کے معاوضہ لینے کی ایک شکل کو ناجائز لکھا ہے، اس کے علاوہ دسیوں جائز شکلیں موجود ہیں؛ لیکن ہماری سوئی اسی ناجائز جگہ پر آکر اٹک جاتی ہے۔ حافظ صاحب کا تراویح کا معاوضہ لینا ناجائز ہے، ہدیہ لینا تو جائز ہے نا! پھر ہدیہ انھیں کیوں نہیں دیتے؟ ختم قرآن کے موقع پر پیسے لینا جائز نہیں ہے، وہ تمھارے ساتھ پورا مہینہ گزارتے ہیں، عام طور سے نماز پنجگانہ کی امامت کرتے ہیں، اسی مسجد کے کسی گوشے میں بیٹھ کر رٹا لگاتے ہیں، تمھارا دل تب کیوں نہیں پسیجتا اور عظمت قرآن دل میں کیوں پیدا نہیں ہوتی کہ امام صاحب کو بازار لے جاکر عید کی شاپنگ کرا دیں، کم از کم رمضان بھر کا راشن خرید دیں، ان کے کپڑے سلوا دیں، ان کے گھر والوں کے لیے کچھ ہدیہ تحفہ بھیج دیں۔
در اصل حفاظ کو رمضان میں بھی محروم رکھنے کا بہانہ ہے۔ ضمیر بھی تو کوئی چیز ہوتی ہے، اس کی عدالت میں جواب دہی سے بچنے کے یہ سب حیلے ہیں۔
آپ کو پیسے نہیں دینے ہیں، مت دیجیے؛ لیکن کم از کم محافظین قرآن کریم کے حوصلوں کو پست نہ کیجیے، آج ہم جو فخر سے سینہ چوڑا کرکے غیر مسلموں کو چیلنج کرتے ہیں کہ ہماری کتاب کے اتنے مِلین حافظ ہیں، اس لیے ہماری کتاب محفوظ ہے، جب کہ اس کے علاوہ دنیا میں کوئی کتاب محفوظ نہیں، اس کی وجہ یہ یہی حفاظ قرآن ہیں.
میں کئیوں کو جانتا ہوں جو بہت اچھے حافظ ہیں، سالہا سال تراویح پڑھاتے رہے ہیں؛ لیکن اب وہ ماہ رمضان میں سلائی کرتے ہیں، دکان چلاتے ہیں، ممبئی کی سڑکوں پر پکوڑے بیچتے ہیں اور جوس کے ٹھیلے لگاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ تراویح میں ملنے والی رقم سے کہیں زیادہ کماتے ہوں گے؛ لیکن ان کے پاس تراویح پرھانے کا وقت نہیں ہے۔ مدارس کی صورت حال پہلے ہی بہت خستہ ہے، اپنے یہاں کے مدرسوں کا جائزہ لیجیے، گزشتہ سالوں کے مقابلے میں ہر سال طلبہ کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ اگر ایسے ہی حوصلہ شکنی کرتے رہے تو آئندہ سارے حفاظ کپڑے سل رہے ہوں گے اور پکوڑے تل رہے ہوں گے۔ وہ رمضان میں دھنیہ پودینہ کا بھی اگر ٹھیلہ لگالیں تو اس سے کہیں زیادہ کما لیں گے جو آپ انھیں جائز و ناجائز کا ہنگامہ برپا کرکے دیتے ہیں؛ لیکن تب ان کے پاس تراویح پڑھانے کی فرصت نہ ہوگی۔
برصغیر ہندو پاک سے باہر نکلیے، جہاں حفاظ کی حوصلہ شکنی ہوئی آج وہ ممالک تراویح میں مکمل قرآن سننے کے لیے ترس رہے ہیں، بعض ممالک ایسے ہیں جو لاکھوں روپے صَرف کرکے ہندوستان سے حافظ بلاتے ہیں سعودی عرب اور یو اے ای جیسے ممالک میں حفاظ کی وہ فراوانی نہیں ہے جو ہمیں میسر ہے۔ ہم دو پانچ ہزار روپے ہدیہ دے کر بھی پورے قرآن کریم کی تراویح سنتے ہیں، انھیں لاکھوں خرچ کرکے بھی سورہ تراویح پر قناعت کرنا پڑتا ہے۔ تنخواہوں کا جو معیار ہے، اس کی وجہ سے پہلے ہی لوگ مدارس کو خیر باد کہہ رہے ہیں، رہی سہی کسر تراویح کے فتووں سے مت پوری کیجیے کہ اب تک حفظ قرآن کا جو ذوق وشوق باقی ہے وہ بھی ختم ہوجائے۔
نیوٹن کے تیسرے ضابطے For every action there is an equal and opposite reaction کے مطابق ادھر حفاظ بھی مولانا زرولی خان رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر کو مستدل جان کر تراویح کے ریٹ فکس کرنے لگے۔ (وہ زبردست عالم دین ہیں؛ لیکن ان کے تفردات اتنے ہی واہیات اور بےسروپا ہیں۔) یہ بھی درست طریقہ نہیں ہے۔ پیسوں کی بنیاد پر جگہ کا انتخاب کرنا اور غریب بستیوں کو چھوڑ دینا بھی خلاف دیانت اور مقتضاء حفظ قرآن کے خلاف ہے۔ جو بھی جگہ ملے بخوشی قرآن پڑھائیں اور جتنے ہدیے ملے، بشوق ورغبت لیجیے۔ ہمارے یہاں عام طور سے چلن ہے کہ ختم تراویح کے بعد تھرڈ پارٹی کی شمولیت کے ساتھ ہدیے دیے جاتے ہیں یا اکٹھے کیے جاتے ہیں۔ اس لیے انھیں ہدیہ دینے کا صحیح طریقہ سکھائیں۔ تھرڈ پارٹی کو ہدیہ لینے اور دینے والے کے بیچ سے نکالیں وغیرہ۔

فتوی لکھنے والے مفتی حضرات تک اگر میری تحریر پہنچ جائے تو ان کی خدمت میں گزارش ہے کہ آپ نے اصول افتاء میں یہی پڑھا اور پڑھایا ہوگا کہ کسی بھی چیز کو ناجائز کہنے کے ساتھ اس کے جائز متبادل بھی پیش کیے جانے چاہئیں۔ اس لیے جہاں اپنے فتوے میں تراویح کے معاوضے کو ناجائزو حرام ثابت کرنے کے لیے پچاس-پچاس صفحے سیاہ کرتے ہیں وہیں اس کی جائز شکلوں پر نہ صرف گفتگو کیجیے؛ بلکہ ہدیہ کی ترغیب دیجیے۔ اگر فقہاء کی آراء کے مطابق ایک راستے بند ہوتے ہیں تو وہیں دسیوں راستے کھلے ہوے ہیں۔

 

(مضمون نگار فاضل دیوبند اور مالدیپ میں عربی و اسلامیات کے استاذ ہیں) 

You may also like