Home خاص کالم گل فشاں کی روداد پڑھی آپ نے؟ـ ایم ودود ساجد

گل فشاں کی روداد پڑھی آپ نے؟ـ ایم ودود ساجد

by قندیل

لائیو لا اور بار اینڈ بینچ کے مطابق مشرقی دہلی کے فسادات کے سلسلہ میں ماخوذ اور تہاڑ جیل میں بند اسٹوڈینٹ لیڈر گل فشاں فاطمہ نے دہلی کی ایک عدالت میں جج کے سامنے اپنی روداد رنج والم سنائی ہے۔
اس نے بتایا ہے کہ اسے جیل میں حکام کے ذریعہ ذہنی طورپر ہراساں کیا جارہا ہے اور فرقہ وارانہ جملے کسے جارہے ہیں۔گل فشاں کو گزشتہ روز ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ایڈیشنل سیشن جج امتیابھ راوت کے سامنے پیش کیا گیا تھا۔
اس نے جج کو بتایا کہ جیل کا اسٹاف اس کے ساتھ کھلا تعصب برت رہا ہے۔اس نے کہا: "…. جیل میں مجھے پریشانی ہے۔جب سے میں یہاں لائی گئی ہوں میرے ساتھ جیل کا اسٹاف مسلسل تعصب برت رہا ہے۔وہ مجھے ’پڑھی لکھی دہشت گرد‘ Educated Terrorist کہتے ہیں اور مجھ پر فرقہ وارانہ نوعیت کے گندے جملے کستے ہیں۔میں یہاں ذہنی طورپر ہراساں کیے جانے کا سامنا کر رہی ہوں۔اگر میں نے خود کو چوٹ پہنچالی تو اس کے ذمہ دار صرف جیل کے حکام ہوں گے۔“
جج نے گل فشاں فاطمہ کے منہ سے یہ سب سن کر اس کے وکیل سے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں درخواست دائر کریں۔اس کے وکیل محمود پراچہ نے کہا کہ وہ اس سلسلہ میں ضروری قانونی اقدام کریں گے۔جج نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ گل فشاں اور دوسرے 14 ماخوذ افراد کو چارج شیٹ کی کاپی فراہم کرے۔واضح رہے کہ مشرقی دہلی کے فسادات میں ماخوذ تمام افراد پر انتہائی سخت قانون UAPA عاید کیا گیا ہے۔ یہی نہیں ان پر آرمس ایکٹ کے علاوہ آئی پی سی کی بھی کئی دفعات لگائی گئی ہیں۔اب اس معاملہ کی اگلی سماعت 3 اکتوبر کو ہوگی۔
پولیس نے ان تمام افراد کے خلاف عاید چارج شیٹ میں 747 گواہوں کے نام پیش کئے ہیں۔ ان میں سے اب تک 51 گواہ مجسٹریٹ کے سامنے سی آر پی سی کی دفعہ 161کے تحت اپنے بیانات درج کراچکے ہیں۔ یہاں یہ ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ پولیس نے ان 15 افراد کو ہی فسادات کا ماسٹر مائنڈ قرار دیا ہے اور چارج شیٹ میں الزام عاید کیا ہے کہ ان لوگوں نے بہت سے وہاٹس ایپ گروپ تشکیل دئے تھے اور فسادات والے دن یہ لوگ جمناپار کے مختلف علاقوں میں فسادیوں کو گائیڈ کر رہے تھے۔پولیس نے یہ بھی الزام عاید کیا کہ ان لوگوں نے سی اے اے کے خلاف مظاہروں کے 25 مقامات کیلئے 25 وہاٹس ایپ گروپ تشکیل دئے تھے۔واضح رہے کہ اسی الزام کے تحت عمر خالد کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔یہ آپ نے پڑھ ہی لیا ہوگا کہ عمر خالد کو اس کے والدین سے ملنے نہیں دیا جارہا ہے۔
جو قومیں حالات کا جائزہ لئے بغیر اقدام کر گزرتی ہیں ایسے مشکل لمحات انہیں ایک موقع اور فراہم کرتے ہیں کہ وہ کم سے کم اب تو احتساب کریں اور حالات کا از سر نو جائزہ لیں۔اقدام کرنے سے کوئی نہیں روکتا۔لیکن ملک میں جاری سیاسی اور انتظامی آمریت کے اس بھیانک دور میں مصلحت کے ساتھ حکیمانہ اقدام کے سوا کوئی اور راستہ اختیار کرنا خود کشی کے مترادف ہے۔
میں سی اے اے کی ہرگز تائید نہیں کرسکتا لیکن میں نے پہلے دن سے ہی احتجاج کے طریقہ کار سے اختلاف کیا۔اس پر بہت سے پُر جوش لوگوں نے سخت لعن طعن بھی کیا لیکن آج وہ سب غائب ہیں۔ ان میں سے ایک کے حلق سے بھی آواز نہیں نکل رہی ہے۔اس وقت جب میں حکمت ودانائی سے کام لینے کی اپیل کرتا تھا تو یہ پرجوش ٹولی بڑھ بڑھ کر کہتی تھی کہ ہمیں ڈرایا نہ جائے اور یہ کہ ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھیں گے۔لیکن ہزاروں (احتجاجیوں کے مطابق لاکھوں) لوگوں سے گھرے رہنے والے یہ 15 افراد آج تہاڑ کی الگ الگ کوٹھریوں میں بند ہیں اور ان کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
آج نہ کوئی ’اپنا اخبار‘ان کی رودادِ رنج والم شائع کر رہا ہے اور نہ ہی یہ پرجوش ٹولیاں کہیں نظر آرہی ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ان 15پریشان حال افراد کوظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔شاہین باغ کے تعلق سے سپریم کورٹ کا رویہ مشکوک لگ رہا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے لیکن اشارے حوصلہ افزا نہیں ہیں ۔

You may also like

Leave a Comment