مؤلف : مفتی محمد جنید قاسمی
بلاشبہ ایک داعی کی غلطی، ناسمجھی پوری قوم پر بھاری پڑتی ہے، حکمت سے دوری خیر کو بھی شر میں بدل دیتی ہے،ہم یہاں تاریخ کے حوالے سے ایک اہم واقعہ پیش کرتے ہیں، جن سے معلوم ہوگا کہ تبلیغ و دعوت میں حکمت و دانائی سے محرومی کے کیا نتائج ہوتے ہیں، علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے اپنے مضمون( ندوۃ العلماء کیا کر رہا ہے؟) میں اخبار ‘حبل المتین’ مورخہ ١٠/اگست ١٩٠٦ء کا ایک اقتباس نقل کیا ہے، جس میں تحریر ہے : "جس زمانے میں روسی قوم بت پرست تھی، شہنشاہ روس ولاڈیمر نے اسی طرح ایک جلسہ منعقد کیا تھا، اور علماء اسلام کو بھی بلایا تھا، جو صاحب اس غرض کے لئے قازان سے تشریف لائے، انہوں نے اسلام کے تمام عقائد اور فلسفہ میں سے صرف یہ مسئلہ منتخب کر کے پیش کیا کہ سور کا گوشت کھانا حرام ہے۔” – – مورخین روس لکھتے ہیں : ” شہنشاہ روس اسلام کی طرف مائل تھا، اور چاہتا تھا کہ تمام قوم روس کے لئے مذہب اسلام کا انتخاب کرے؛ لیکن قازانی عالم نے شریعیت اسلام کی تمام احکام میں سے صرف اس مسئلہ کو پیش کر کے اس پر اس قدر زور دیا کہ شہنشاہ نے غصہ مں آکر ان کو نکلوادیا اور عیسائی مذہب قبول کر لیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ 9 / نو کروڑ آدمی دفعتاً عیسائی ہو گئے” – (تاریخ ندوۃ العلماء: ١/٩١) ایسے میں ضرورت ہے کہ قرآن مجید کے بیان کردہ اسلوب دعوت کو اختیار کریں، اس نہج کو اپنائیں؛ تاکہ نبی رحمت کا پیغام عام ہو اور انسانیت کی کھیتی لہلہا اٹھے، قرآن کریم کا ارشاد ہے: اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّكَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ. (نحل:١٢٥) "( اے رسول ! )آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلائیے اور ان سے بہتر طریقہ پر بحث کیجئے ، یقیناً آپ کے پروردگار اس شخص سے بھی واقف ہیں ، جو اپنے راستے سے بھٹک گیا اور راہ راست پر لگنے والوں کو بھی خوب جانتے ہیں”۔
دعوتِ دین کے آداب کے سلسلے میں یہ بنیادی آیت ہے ، جس کا حاصل یہ ہے کہ دعوت میں حکمت اور موعظت ِحسنہ کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے ، حکمت کا مطلب یہ ہے کہ جس وقت جو بات کہنی مناسب ہو ، یا جس کے لئے جو بات موزوں ہو ، وہ بات کہی جائے ، جیسے اہل مکہ قیادت اور سرداری چاہتے تھے ، آپ ﷺ نے ان سے فرمایا کہ اگر تم اس کلمہ حق کو قبول کرلو ، تو عرب و عجم کے مالک ہوجاؤ گے ، یا بعض سمجھ دار اور دانشمند لوگوں سے کہا کہ اگر تم ایمان لے آؤ تو ہم تم کو بعض ذمہ داریاں سپرد کریں گے ، یہ ’حکمت ‘ ہے ، مثلاً ان لوگوں کو دعوت دی جائے ، جن کو اچھوت اور کم ذات کا سمجھاجاتا ہو اور ان کے سامنے اسلامی مساوات کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات پیش کی جائیں ، یا جیسے عورتوں کو اسلام کی طرف بلایا جائے اور ان احسانات کا ذکر کیا جائے ، جو خواتین کے حق میں اسلام نے کیا ہے ، تو یہ حکمت کا تقاضا ہوگا ، موعظت ِحسنہ یعنی ’ بہتر پند و نصیحت ‘ کا مطلب یہ ہے کہ خیر خواہی اور محبت کے جذبہ کے ساتھ نرم الفاظ میں اسلام کی دعوت پیش کی جائے ، قرآن مجید میں انبیاء کرام کی دعوت کا تفصیل سے ذکر آیا ہے ، ان کو پڑھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی شفقت و محبت کے ساتھ اسلام کی دعوت پیش کرتے تھے اور اگر مخالفین کی طرف سے بدزبانی ہوتی تھی ، تب بھی نرم لب و لہجہ میں اس کا جواب دیتے تھے، اسی طریقہ دعوت کی تشریح و توضیح اور خصوصی طور پر عصر حاضر میں پنپنے والے جدید ملحدانہ افکار، کلامی مباحث اور الزامی پیرائے میں اسلامی کو چیلنج کرنے والوں سے ہم کلام ہونے، انہیں صحیح نہج پر دعوت اسلام پہنچانے کیلئے محترم، مولانا، مفتی محمد جنید قاسمی مدظلہ (نگراں – ادارہ ادب الاطفال، امروہہ، یوپی) نے حسب ہدایت حضرت الاستاذ مفتی محمد اسلم صاحب قاسمی (استاذ تفسیر و حدیث مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ) ایک کتاب ترتیب دی جس کے نام ہے "ملحدین، متشککین اور معترضین اسلام سے گفتگو کے اصول”، ناشر: دارالکتاب، دیوبند.
یہ کتاب 112 صفحات پر مشتمل ہے، شروعات ایک پیش لفظ سے ہوتی ہے، پھر تقریظات اکابرین درج ہیں، جن میں حضرت مولانا مفتی عفان منصور پوری، مفتی یاسر ندیم الواجدی، مفتی محمد اسلم امروہی کا نام نامی شامل ہے، ان بزرگوں نے کتاب کو بڑی اہمیت دی ہے، جگہ جگہ پر مولف کے حق میں تعریفی کلمات اور موضوع کی ضرورت و نزاکت پر گفتگو کی ہے، اس کے انتساب اور پھر باب اول ہے جس میں قدیم وجدید نظریات کا تعارف کروایا گیا ہے، دوسرے باب میں عرصے سے چلے آرہے شبہات اور اعتراضات اور جوابات نقل کیے گئے ہیں، اس میں نو مراحل کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ایسے مدعی اٹھائے گئے ہیں جنہیں عام طور پر مسلمان سامنا کرتے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اقربا پروری کا الزام، اسلام اور دہشت گردی، منکرین حدیث وغیرہ، باب سوم میں شبہات جدیدہ کو جگہ دی گئی ہے، وجود باری تعالیٰ، مسئلہ شر سے وجود خدا پر استدلال، خدا کا خالق اور اس طرح کے متعدد سوالات کا سٹیک اور شاندار جواب دیا گیا ہے، باب چہارم میں الحادی حربے اور حیلے پر بات کی گئی ہے، کس طرح ملحدین غیر ضروری سوالات اٹھاتے ہیں اور وقت ضائع کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی منشا ہوتی ہے کہ ایک مومن کو شبہ میں ڈال دے – – اخیر کے یہ دونوں ابواب قابل مطالعہ ہیں؛ بالخصوص جو حضرت کالج و یونیورسٹیوں میں پڑھتے ہیں یا ان کے طلباء سے انہیں سامنا رہتا اور متشککین انہیں الجھانے کی سعی کرتے ہیں؛ ایسوں کو یہ ابواب بلکہ مکمل کتاب ضرور پڑھنی چاہیے، موصوف سے ہمارا رابطہ بذریعہ سوشل میڈیا ہے، ان کے قلم و فکر سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس میدان میں بہت کچھ کر رہے ہیں اور کافی کچھ کرنا باقی ہے، ان کے منصوبے اور پلان ہیں، وہ عام طور پر متشککین اور ملحدین کو جواب دیتے ہوئے پایے جاتے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ وہ الزامی جواب دیتے ہیں، ہر وقت دفاع کرنے میں نہیں رہتے، آج جس طرح کا مزاج ہے اس میں یہی طریقہ درست بھی ہے، البتہ احوال و کیفیات کا جائزہ لیتے رہنا بھی ضروری ہے، اس کتاب کےلیے مبارکبادی کے مستحق ہیں، اللہ آپ کو سلامت رکھے ،دونوں جہاں میں کامیابیاں عطا کرے۔ آمین
اخیر میں اس کتاب کے تعلق سے مولف کی زبانی یہ چند کلمات پڑھیے!
"اسلام اور اس کی کلیات و جزئیات کے خلاف اُٹھائے جانے والے بے ہودہ اعترضات و شبہات کا بڑے پیمانے پر ”پر چار و پر سار“ کیا جا رہا ہے، میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے یہ اسلام مخالف، اعتراضات و شبہات گھر گھر پہنچ چکے ہیں، مسلمانوں کو وجود باری، صفات الہی، نبوت و رسالت، حجیت حدیث و سنت جیسے ثابت شدہ حقائق کے تعلق سے شکوک و شبہات میں مبتلا کیا جا رہا ہے، ہزاروں کتا بیں ایسی لکھی جاچکی ہیں، جن میں رسالت مآب منی ایم کی کردار کشی کی گئی، قرآن و سنت سے خود ساختہ مفاہیم اخذ کیے گئے اور اسلام کی واضح و صاف و شفاف اور رحیمانہ تعلیمات حقہ کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے اس طرح رکھا جا رہا ہے کہ ایک بڑا طبقہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں ایسا پیدا ہو گیا ہے ، جو ان فریب کاریوں اور دجل سنجیوں سے اثر لے کر اسلام اور مسلمانوں سے متنفر ہو گیا ہے ، ایکس مسلم ( Ex-Muslim) یعنی سابقہ مسلمانوں اور مرتدین کا گروہ وجود میں آگیا ہے، جنہیں فسطائی طاقتوں کا تحفظ حاصل ہے اور وہ قانون اور آئین ہند کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر علی الاعلان مسلمانوں کے بزرگوں کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں اور اسلام پر طرح طرح کے باطل دعاوی و اعتراضات کرتے ہیں، اسلام کے خلاف اس نظریاتی اور متعصبانہ مہم کے دام تزویر سے متاثر ہونے والے سادہ لوح افراد کا دائرہ وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ، اس نازک صورت حال میں ضروری ہے کہ اہل علم آگے آئیں اور اسلام پر مسلمانوں کا اعتماد بحال کریں اور ظاہر ہے کہ فکری میدان میں مدافعین اسلام کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے نظریات و عقائد اور طریقہ استدلال سے واقفیت حاصل کریں، اس کتاب میں راقم الحروف نے ایسے اصول ذکر کر دیے ہیں، جن کو سامنے رکھ کر ایک عام قاری بھی ملحدین و معترضین کے اسلام مخالف شبہات و استدلالات میں پوشیدہ بنیادی خامیوں اور غلطیوں کی گرفت کر سکے گا”۔(پیش لفظ :13،14)