نئی دہلی:جہانگیرپوری میں تشدد کے بعد جمعرات کو ہدایات دی گئیں کہ اگلے احکامات تک وہاں غیر قانونی تعمیرات کو گرانے کے معاملے پر روک برقرار رکھی جائے۔ ساتھ ہی جمعیۃ علماء ہند کی عرضی پر مرکزی حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فسادات کے مسلم ملزمان کی عمارتیں گرائی جارہی ہیں۔ کانگریس لیڈر اور سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے عدالت میں دلیل دی کہ صرف مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ تاہم حکومت نے الگ اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو بتایاکہ ‘ایک کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا الزام جھوٹا ہے۔ مدھیہ پردیش کے کھرگون میں 88 متاثرہ فریق ہندو ہیں، جب کہ 26 مسلمان ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اعداد و شمار کو اس طرح تقسیم کرنا پڑا۔ حکومت ایسا نہیں کرنا چاہتی لیکن مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے‘۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ سماعت کے دوران کپل سبل نے عدالت سے کہا ’’میرے پاس ایسی تصاویر ہیں جن میں ایک برادری کے لوگوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ یہ ان میں خوف پیدا کرنے کا عمل ہے۔ اس پر جج جے راؤ نے کہا کہ آپ کس راحت کا دعویٰ کر رہے ہیں؟ اس پر سبل نے کہا ”آپ تجاوزات کو ایک کمیونٹی سے نہیں جوڑ سکتے۔ تجاوزات صرف اے اور بی کمیونٹی تک محدود نہیں ہیں۔ آپ صرف یہ کہہ کر گھروں کو نہیں گرا سکتے کہ ان پر تجاوزات ہیں۔ یہ پلیٹ فارم قانون کی حکمرانی کو ظاہر کرنے کے لیے ہے‘‘۔ سبل کے اس مطالبہ پر جج جے راؤ نے کہا کہ ہم ملک بھر میں انہدام کو نہیں روک سکتے۔
سبل نے پھر کہا ’’تجاوزات غلط ہے۔ لیکن کیا آپ مسلمانوں کو تجاوزات کے ساتھ جوڑ رہے ہیں؟” جسٹس راؤ نے پھر پوچھا’’ کیا کسی ہندو کی املاک کی توڑ پھوڑ نہیں ہوئی؟‘‘
سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے کہا گیا کہ ’یہ معاملہ صرف جہانگیرپوری تک محدود نہیں ہے، یہ ہمارے ملک کے سماجی تانے بانے کو متاثر کرنے والا معاملہ ہے، اگر اس کی اجازت دی گئی تو قانون کی حکمرانی نہیں بچے گی۔‘