ہندوستان کی موجودہ سیاست کے گرتے معیار کو دیکھ کر انتہائی افسوس ہوتا ہے۔ آزادی کے بعد کچھ عشروں تک سیاست کا جو معیار تھا وہ تو اب خواب و خیال ہو کر رہ گیا ہے۔ پہلے پارلیمنٹ میں جو بحثیں ہوتی تھیں ان کا بھی معیار اعلیٰ ہوا کرتا تھا اور انتخابی میدان میں کی جانے والی تقریروں کا بھی۔ اس وقت بھی ایک دوسرے پر حملے ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنایا جاتا تھا۔ ایک دوسرے پر طنز و تشنیع کے تیر چلائے جاتے تھے۔ لیکن یہ بھی دیکھا جاتا تھا کہ جس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اس کی ہتک نہ ہو۔ وہ یہ نہ محسوس کرے کہ اس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یا اس کا استہزا کیا جا رہا ہے۔ اگر کبھی کوئی ایسا ویسا جملہ کسی کی زبان سے ادا ہو بھی جاتا تو اس سے معذرت کر لی جاتی۔ سیاست میں اخلاقیات کی بڑی اہمیت تھی۔ لال بہادر شاستری ریلوے وزیر تھے۔ آج کے مقابلے میں نسبتاً ایک چھوٹا سا ریل حادثہ ہو گیا توانھوں نے اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے دور حکومت میں جب حزب اختلاف کی جانب سے سخت قسم کے سوالات کیے جاتے تو وہ کہتے کہ انھیں خوشی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مضبوط موقف اختیار کیا جاتا ہے۔ وہ اپوزیشن ممبران کا بھی اتنا ہی احترام کرتے تھے جتنا کہ حکمراں جماعت کے ممبران کا۔ لیکن آج کہا جاتا ہے کہ ہم ملک کو اپوزیشن سے پاک کر دیں گے۔ رام منوہر لوہیا ہوں یا پیلو مودی یا جے پرکاش نرائن یا پھر حزب اقتدار کے رہنما سب ایک دوسرے پر حملے کرتے اور فقرے کستے لیکن ایک دائرے میں رہ کر اور ایک معیار کے ساتھ۔
لیکن رفتہ رفتہ اس معیار میں گراوٹ شروع ہو گئی۔ سیاست غیر معیاری ہوتی چلی گئی۔ ایک دوسرے پر حملوں کے وقت شرافت و شائستگی کا دامن چھوڑ دیا جانے لگا۔ 1977 میں مرکز میں جنتا پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد معیار کچھ اور گر گیا۔ ایک مرکزی وزیر تھے راج نرائن۔ وہ اس معاملے میں سب پر بازی لیتے چلے گئے۔ 1977 کے الیکشن میں انھوں نے وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے حلقہ انتخاب رائے بریلی میں شکست دی تھی۔ ایک بار تو وہ بحیثیت وزیر جب اپنے حلقے میں گئے اور ایک جلسے میں تھے کہ کچھ لوگوں نے ان سے شکایت کی کہ وہاں بجلی نہیں آتی تو انھوں نے شکایت کنندگان کو ایسا فحش جواب دیا تھا کہ ہمارا قلم اسے لکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ لیکن بہرحال 2014 سے قبل کچھ نہ کچھ معیار باقی تھا۔ اٹل بہاری واجپئی کے دور حکومت میں پارلیمنٹ ہاوس پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ حملے کے وقت پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا تھا۔ سینئر کانگریس رہنما سونیا گاندھی دوڑی دوڑی واجپئی کے چیمبر میں گئیں تاکہ ان کی خیریت معلوم کر سکیں۔ یو پی اے کے دس سالہ دور حکومت میں بھی کچھ نہ کچھ معیار باقی تھا۔ سونیا گاندھی نے سیاست میں اعلیٰ معیار کو برتا۔ البتہ بعض اوقات ان کی بھی زبان پھسل جاتی تھی۔ گجرات فساد کے بعد ہونے والے انتخابات کے موقع پر انھوں نے اپنی ایک تقریر میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو لاشوں کا سوداگر کہہ دیا تھا۔ ظاہر ہے گجرات فساد کی سنگینی کے باوجود یہ طرز کلام نامناسب تھا اور اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ ان کے اس بیان پر بی جے پی کی جانب سے شدید تنقید ہوئی تھی۔ اس کے بعد ان کی زبان سے ایسا کوئی فقرہ ادا نہیں ہوا۔ بہرحال حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے رہنماوں کے پٹری سے اترے ہوئے مزید بیانات کی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ اب تو صورت حال اور بھی ابتر ہو گئی ہے۔
اس وقت دہلی میں اسمبلی انتخابات کی گہما گہمی شروع ہو گئی ہے۔ پانچ فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے اور آٹھ فروری کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ دس فروری تک انتخابی عمل کو مکمل ہو جانا ہے۔ انتخابی مہم شروع ہونے کے ساتھ جہاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالے جا رہے ہیں وہیں غیر معیاری زبان بھی سننے کو مل رہی ہے۔ خاص طور پر کالکا جی حلقے سے بی جے پی کے امیدوار رمیش بدھوڑی نے بد زبانی میں سب پر سبقت حاصل کر لی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ انھوں نے گزشتہ پارلیمنٹ میں کارروائی کے دوران بی ایس پی کے رکن پارلیمنٹ دانش علی کے لیے کیسی زبان استعمال کی تھی۔ پارلیمانی سیاست میں وہ پہلا موقع تھا جب ایوان کے اند رکسی رکن نے ایک دوسرے رکن کو دہشت گرد کہا ہو۔ انھوں نے دانش علی کے بارے میں جو جو باتیں کہی تھیں ان کی زد عام مسلمانوں پر بھی پڑ رہی تھی۔ لیکن غیر معیاری سیاست کا فیضان ہے کہ ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوا۔ البتہ پارلیمانی انتخاب میں انھیں ٹکٹ نہیں دیا گیا۔
اب انھوں نے کانگریس رہنما اور رکن پارلیمنٹ پرینکا گاندھی اور دہلی کی وزیر اعلیٰ آتشی کے لیے انتہائی نازیبا جملے ادا کیے ہیں۔ انھوں نے ایک انتخابی تقریر میں کہا کہ اگر وہ جیت گئے تو کالکا جی کی سڑکوں کو پرینکا گاندھی کے گال کی طرح خوبصورت بنا دیں گے۔ انھوں نے آتشی کے بارے میں کہا کہ انھوں نے اپنا باپ بدل لیا ہے۔ واضح رہے کہ آتشی کمیونسٹ نظریات کی حامل ہیں۔ وہ کمیونسٹ رہنماوں کارل مارکس اور لینن کی مداح رہی ہیں۔ اسی لیے انھوں نے ان دونوں ناموں کا مخفف بنا کر اپنے نام کا سابقہ بنا دیا۔ یعنی وہ آتشی مارلینا لکھنے لگیں۔ لیکن جب سیاست میں آئیں تو بی جے پی نے مارلینا کنیت کے سلسلے میں ان کو ہدف تنقید بنانا شروع کر دیا۔ اس پر انھوں نے اپنے نام سے مارلینا حذف کر دیا اور اب آتشی سنگھ لکھنے لگی ہیں۔ رمیش بدھوڑی نے اسی جانب اشارہ کیا تھا۔ لیکن بہرحال یہ بہت نازیبا بات ہے کہ کسی کے بارے میں یہ کہا جائے کہ اس نے اپنا باپ بدل لیا ہے۔ اس جملے کی مار بہت دور تک جاتی ہے۔ ایسے جملوں سے بچنا چاہیے۔ آتشی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران آبدیدہ ہو کر کہا کہ میرے باپ زندگی بھر ایک ٹیچر رہے ہیں۔ وہ اس وقت ضعیف ہو چکے ہیں اور کسی کے سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے۔ وہ میرے باپ کو گالی دے کر ووٹ مانگ رہے ہیں۔ وہ الیکشن جیتنے کے لیے اتنے نیچے گر سکتے ہیں۔ ملک کی سیاست اتنی نیچی گر سکتی ہے۔ دہلی کے سابق وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال نے اپنے ردعمل میں کہا کہ بی جے پی لیڈر وزیر اعلیٰ کے لیے گندی زبان استعمال کر رہے ہیں۔ دہلی کے عوام ایک خاتون وزیر اعلیٰ کی توہین برداشت نہیں کریںگے۔ سیاسی تجزیہ کار بھی بدھوڑی کی اس زبان درازی کی مذمت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کالکا جی کی عورتیں ووٹ دیتے وقت اس توہین کو یاد رکھیں گی۔ خیال رہے کہ کالکا جی سے ان کے مقابلے میں عام آدمی پارٹی سے آتشی میدان میں ہیں تو کانگریس کی خاتون ونگ کی صدر الکا لامبا امیدوار ہیں۔
جہاں تک پرینکا گاندھی کی توہین کی بات ہے تو بدھوڑی نے بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو کی مثال دی ہے۔ لالو نے ایک بار کہا تھا کہ وہ بہار کی سڑکوں کو ہیما مالنی کے گال کی طرح بنا دیں گے۔ بعد میں انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ موازنہ سب سے پہلے اٹل بہاری واجپئی نے کیا تھا میں نے صرف اس کو دوہرایا تھا لیکن میڈیا نے اسے میرے نام پر جڑ دیا۔ یاد رہے کہ ان کے علاوہ بھی کئی لیڈروں نے یہی مثال دی ہے۔ لیکن کوئی بھی مہذب شخص اس موازنے کو قبول نہیں کرے گا۔ کانگریس کی جانب سے بدھوڑی کے اس بیان کے خلاف کافی احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ادھر عام آدمی پارٹی بھی احتجاج کر رہی ہے۔ بلکہ وہ اس معاملے کو انتخابی ایشو بنانے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ بی جے پی کو شائد اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ بدھوڑی کی زبان درازی سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے ان کی سرزنش کی۔ جس پر انھوں نے ایک بیان جاری کرکے معذرت کر لی۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا مقصد کسی کی توہین کرنا نہیں تھا۔ اگر کسی کا دل دکھا ہے تو میں معذرت چاہتا ہوں۔ یہ خوب ہے۔ سیاست داں پہلے توہین کرتے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ان کا یہ مقصد نہیں تھا۔ اگر ان کے جملے سے کسی کی دلآزادی ہوئی ہے تو وہ معافی چاہتے ہیں۔ کتنے سادہ اور بھولے ہوتے ہیں یہ سیاست داں۔ ان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ ان کی بات سے کسی کی دلآزاری ہوگی یا کسی کی توہین ہوگی۔ وہ تو جب مخالفت ہوتی ہے تب انھیں احساس ہوتا ہے کہ انھوں نے کسی کی توہین کر دی ہے۔ بی جے پی نے ایسے کسی بھی لیڈر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ لیکن اگر معاملہ الیکشن جیتنے کا ہو تو با دل ناخواستہ کارروائی کر دی جاتی ہے۔ ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ رمیش بدھوڑی کا حلقہ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ انتخابات کے دوران زبان درازیوں کی اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔
دراصل ووٹ حاصل کرنے کے لیے نیتا سطحی زبان استعمال کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عوام یہی زبان پسند کریں گے اور اس زبان کے عوض ان کو ووٹ ملے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ایسی بد تہذیبی کا مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف خواہ وہ کسی بھی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں، کارروائی ہو تو یہ سلسلہ بند ہو سکتا ہے۔ اگر پارٹی کے رہنما کوئی کارروائی نہ کریں تو کم از کم رائے دہندگان کو ایسے سیاست دانوں کو سبق سکھانا چاہیے۔ اگر ایک بار کسی کو سبق مل گیا تو پھر وہ دوبارہ اس قسم کی گستاخی کی جرأت نہیں کرے گا۔ دراصل سیاست کا معیار بلند ہوگا یا نیچے گرے گا اس کا انحصار سیاست دانوں اور سیاسی پارٹیوں پر ہی ہے۔ وہ چاہیں تو سیاست کو صاف شفاف اور زبان کی آلائشوں سے پاک بنا سکتے ہیں اور چاہیں تو اسے مزید گندی کر سکتے ہیں۔ یہ سیاست داں عوام کے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ وہ ایماندار اور شریف و شائستہ ہوں گے تو عوام پر اچھا اثر پڑے گا اور اگر وہ غلط ہوں گے تو عوام پر غلط اثر پڑے گا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)