ریاست بہار و جھارکھنڈ میں ایک امارت شریعہ ہے جو آج کل اپنے نئے نئے جوان العمر ‘امیر’ کی وجہ سے مرکز بحث بنا ہوا ہے۔ سنا ہے کہ اس ‘مولوی نما’ ‘غیر مولوی’ امیر سے مولویوں کی اکثریت بری طرح خفا ہے۔ شاید اس لیے کہ اس "امیر شریعت” کے نام کے آگے ‘قاسمی واسمی’ اور ‘مدنی ودنی’ نہیں لگا ہوا ہے۔ حالانکہ ‘رہمانی وہمانی’ ضرورت کے مطابق پہلے ہی لگا دیا گیا تھا۔ اس پر مستزاد کہ نام ہی میں ‘ولایت’ کا شیرہ لگا دیا گیا تھا تاکہ وراثت میٹھے میٹھے طرز پر چلتی رہے اور لوگوں کو ابا در ابا ایک پیور خاندانی قسم کا امیر شریعت ملتا رہے۔ ماشاءالله! ہمارے تقریباً سبھی ‘امتی ادارے’ اسی شان سے چل رہے ہیں اور ان خاندانی اداروں کے ‘بنیان مرصوص’ کو کبھی کوئی باہری دیمک چاٹ نہیں سکی۔ انسان کی حیثیت ہی کیا ہے ، ان مضبوط خاندانی ‘عمارتوں’ کا تو یاجوج ماجوج بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے !
مجھے ذاتی طور پر اس ‘انتخاب’ میں کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ کیونکہ ایک تو میں عملاً ‘غریب شریعت’ ہوں۔ پھر ستم یہ کہ آج کی ‘امارت’ کا ‘کافر’ ہوں اور امارت شریعہ نام کے اس ادارے کو محض ایک ‘عمارت سریا’ مانتا ہوں، جس کی ‘امیری’ اچک لینے کے لئے ہر امیدوار ایک دوسرے کے خلاف گویا ڈنڈا چھوڑ ‘سریا’ یعنی لوہے کا راڈ لے کے کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر سر تو سلامت رہ جاتے ہیں مگر بچے کھچے حساس مسلمانوں کی روحیں لہو لہان ہو جاتی ہیں۔
یہ ادارہ اصلاً کرتا کیا ہے؟ کسی بھی سمجھدار آدمی کو آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ سنا ہے رمضان اور عیدین کے چاند کی رویت پر اس کو اتھارٹی حاصل ہے۔ نکاح کی اسناد کی تقسیم بھی اس کا ایک ‘بڑا کام’ ہے۔ ادارے کی انتخابی سیاست میں اسے شہرت خاص حاصل ہے۔ یہاں ہونے والے سیاسی دنگلوں میں ٹوپی پگڑی اور لمبی داڑھی کا مقدس رقص بڑا ہی دلچسپ ہوتا ہے۔
بہر حال، اس بار اس ادارے کے ‘امیر’ کے انتخاب کا موسم آیا تو کچھ ایسے ‘خاندانی غریب’ امیدوار بھی مقابلے میں کود پڑے جن کی کوئی خاندانی حثیت تھی ہی نہیں۔ اور ایسے ‘بے حیثیت’ لوگ ہر بار اور ہر ادارے میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سوچتے بھی نہیں کہ ان مقدس عمارتوں میں ‘امارت’ اسی کو ملتی ہے جس کے ابّا یا ماموں یا چچا ‘ کے ‘اسم گرانی’ کے ساتھ گاڑھا والا رحمتہ اللہ علیہ’ لگا ہوتا ہے، جسکے گھر میں مذہبی قیادت جھاڑو پوچھا کرتی ہے ، جس کے پاس دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور جس کے پاس وارثت میں ملی ہوئی ‘مسلمنٹوں’ کی بھیڑ ہوتی ہے۔ پتا نہیں ایسے ‘غریب اور کنگال’ آخر کھڑے ہی کیوں ہو جاتے ہیں۔ اس سے اچھا تھا کہ تھوڑی زیادہ محنت کر کے ایم ایل اے اور ایم پی کے الیکشن میں کھڑے ہو جاتے۔ اتنا بڑا میدان ہے یہ۔ یہاں کم سے کم اتنی جمہوریت تو بچی ہی ہے کہ محنت کر کے جیتا جا سکتا ہے۔ یہاں بیچ میں نہ خاندان ہوتا ہے اور نہ کسی حضرت کا پاندان۔ لیکن مسلہ یہ ہے کہ ان ‘امتی غریبوں’ کو بھی اسی ‘امارت’ کے حصول کی ضد ہے۔ وہ حضرت کا پاندان دھوتے دھوتے ‘امیری’ کا بڑا بڑا خواب اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں بسا لیتے ہیں اور ازار بند کس کے اس کی تعبیر کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی ممبری تو پانچ دس سالوں میں ہی برف کی طرح پگھل کے ختم ہو جاتی ہے جبکہ مسند امارت پر کبھی زوال آتا ہی نہیں۔ نسل در نسل بغیر کسی مزید محنت و مشقت کے ‘امیری’ چلتی رہتی ہے۔ کوئی ‘غیر خاندانی’ بیچ میں آنے کی جرات بھی کرے تو معتقدین خود اسے گالم گلوچ کر کے نمٹا دیتے ہیں۔
سیاست کی مانگ میں مذہب کا ٹیکا بہت سجتا ہے۔ اسی لیے حیدرآباد کے ایک خاندانی سیاستدان نے ٹوپی پہن رکھی ہے۔ حالانکہ نہ انکے ‘سالار ابّا’ ‘مدرسے ودرسے’ سے فارغ تھے اور نہ انہوں نے ہی وہاں سے کوئی ‘مذہبی سند’ لے رکھی تھی لیکن بیرسٹر کا دماغ تھا لہذا ٹوپی کا جگاڑ کر کے ‘مذہبی شان’ پیدا کر لی۔ انکی اپنی ‘بین المسلمین عمارت’ میں بھی ‘امارت’ ہے مگر غیر جمہوری ہے۔ وہاں تو کوئی ‘پاندانی غلام’ امیری کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اب وہ کس کس کو ٹوپی پہنا رہے ہیں اس سے قوم کی ‘ٹوپی پسند’ اکثریت کو کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بس انکے پیچھے نعرے لگاۓ جا رہی ہے۔ ان کو دیکھ دیکھ کے خوش ہوتی ہے:
ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
کچھ حساس لوگ مسلم اداروں میں نظام شورائیت کے ‘شوربہ’ بن جانے سے بہت دکھی ہیں۔ دکھ ہونا بھی چاہیے۔ لیکن جو چیز کبھی سرے سے رہی ہی نہیں اسکا رونا بھی کیا رونا؟
ایک جماعت اسلامی ہے جہاں کم سے کم ابھی شورائیت بچی ہوئی ہے۔ اس شورائیت کی خوش بختی اس ‘بختاور’ کی وجہ سے بچی ہوئی ہے جس نے اس جماعت کی بنیاد رکھی تھی، اس کے نوک و پلک سنوارے تھے اور اس کا ڈھانچہ اس قدر جمہوری بنا دیا تھا کہ کوئی کرسی پرست اسے اپنی جاگیر نہ بنا سکے۔ خود اپنی موت سے برسوں پہلے اس کی ‘امیری’ سے سبک دوش ہو کر تحریک کا عام سپاہی بن گیا۔ اسی مرد قلندر کی وجہ سے وہاں ابھی تک مجلس شوریٰ کا جلسہ جاری ہے ورنہ کھلاڑی تو وہاں بھی ایک سے ایک آن گھسے ہیں۔ باقی سب جماعتوں اور جمیعتوں کا حال دنیا دیکھ رہی ہے۔ وہاں صرف ‘ابّا جان’ کی چلتی ہے۔ اور ‘دادا جان رح’ کہا کرتے تھے کہ بیٹا! ‘دھرم کے دھندے میں ہر قسم کی دھاندلی’ جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن ہے۔ غالباً ان کے اسی قول زریں کے بعد ‘امیروں والی اس شریعت’ کا رواج ظہور میں آیا جو اپنے ہر غیر اسلامی عمل کے لئے خود اسلام ہی سے جواز ڈھونڈھ لیتی ہے۔۔ اب جن آنکھوں کو یہ مقدس دھاندلی دکھائی نہیں دیتی وہ القرآن آئی ڈراپ کا استعمال کریں۔ انشاء اللہ با الیقین افاقہ ہوگا۔
میرا ماننا یہ ہے کہ اب جبکہ ولی صاحب ‘رہمانی’ امیر شریعت چن ہی لئے گئے ہیں یا جگاڑ وغیرہ کر کے بن ہی گئے ہیں تو مخالفت میں ان پر کیچڑ اچھالنا اور ان میں کیڑے نکالنا ٹھیک بات نہیں۔ وہ لوگ بھی غلط ہیں جو انکی شان میں غلو فرما فرما کر مخالفین کو ‘گلیا’ رہے ہیں۔ یہ سب و شتم مناسب نہیں ہے۔ اس سے اپنے اندر کے ‘اخلاق بھائی’ کی مردہ روح کو بڑی بے چینی ہوتی ہے۔ اصل بات ہے شریعت اسلامی کا احترام اور اسکی پیروی۔ ‘امیر’ تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ اصل امیر شریعت تو محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم ہیں۔ باقی جو بھی ‘امیر یا غریب’ جس قدر انکی سنّتوں پر عامل ہے وہ اتنا ہی قابل احترام ہے۔ یہ تو بالکل سیدھی سے بات ہے، پھر بھی لوگوں کو سمجھ میں نہیں آتی۔ بات کڑوی ہے مگر بول کے جاؤں گا۔ اصل بات یہ ہے کہ امت مرحومہ کا ‘اجتماعی سمجھدان’ زنگ آلود ہو گیا ہے اور اس کی اکثریت عجیب الخلقت قسم کے ‘امیر الہند” اور "امیر الشریعہ” لوگوں کے پیچھے پاگل بنی رہتی ہے۔ سوچتی بھی نہیں کہ آخر دادا پردادا کے جہیز کا پرانا فکری ساز و سامان کب تک چلتا رہے گا ؟ بس کافروں کے ” انّا وجدنا اباءنا لہا عابدین” (یعنی یہ کہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ان ہی بتوں کی پوجا پاٹ کرتے دیکھا ہے) کی مشرکانہ روش پر دوڑتی دکھائی دیتی ہے!