Home نقدوتبصرہ غلام نبی کمارکی تصنیف قدیم وجدید ادبیات-عامر نظیر ڈار

غلام نبی کمارکی تصنیف قدیم وجدید ادبیات-عامر نظیر ڈار

by قندیل

غلام نبی کمار جیسا کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ان کی کتاب ”قدیم وجدید ادبیات“ کی پشت پر لکھا ہے کہ”غلام نبی کمار وہ نوجوان ادیب ہیں جو اپنے نام کے ساتھ ہی ”چونکا“ دیتے ہیں بہر کیف وہ اس وقت ادبی دنیاس میں ”کمار“کے نام سے ہی مشہور ہیں۔غلام نبی کمار نہ صرف اپنے نام سے چونکا دیتے ہیں بلکہ وہ اپنے کام کی وجہ سے بھی قارئین کو چونکادیتے ہیں جس کا اندازہ ”قدیم وجدید ادبیات“ میں شامل مضامین سے بخوبی ہوجاتا ہے۔اس کتاب سے پہلے ان کی ایک اور ضخیم کتاب ”اردو کی عصری صدائیں“ منظر عام پر آچکی ہے۔اس کتاب کی اردو حلقوں میں کافی پذیرائی ہوچکی ہے۔جس میں تقریباً 75 کتابوں پر تبصرے نما مضامین شامل ہیں جو کتاب سے پہلے ملک اور بیرون ملک کے مختلف رسالوں اور اخباروں میں وقتاًفوقتاً شائع ہوئے ہیں۔اسی طرح ”قدیم وجدید ادبیات“کے مضامین بھی مختلف اخباروں اور رسالوں کی زینت بن چکے ہیں۔اس کتاب میں شامل مضامین کچھ ہمارے کلاسیکی شعرا اور ادبا سے متعلق ہیں اورکچھ نئے اور منفرد مضامین بھی ہیں۔ اس بات کا دعویٰ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں بھی کیا ہے،وہ لکھتے ہیں:
”قدیم وجدید ادبیات“میں قارئین کو متفرق مضامین پڑھنے کو ملیں گے۔اس میں غزل، نظم، افسانہ، مثنوی، تحقیق، رباعی،ادبی صحافت اور شخصیات پر مضامین قلم بند کیے گئے ہیں۔جن شخصیات کے فن پر بات ہوئی ہے وہ سب اردو زبان وادب کی سربرآوردہ شخصیات میں شمار ہوتے ہیں۔میں نے ایسے موضوعات کو ترجیح نہیں دی ہے جن پر بہت خامہ فرسائی ہوئی ہو۔بالکل منفرد موضوعات ہیں اور جن میں قاری مختلف قسم کے نظریات سے آشنا ہوں گے۔“
”ص۱۱-۲۱،قدیم وجدید ادبیات“
”قدیم وجدید ادبیات“کی فہرست میں پہلا مضمون ”امیرخسرو کی غزلیہ شاعری“پر مبنی ہے۔امیر خسرو اردو ادب کے ایسے معتبر شاعر ہیں جو سب سے پہلے اپنے کلام میں اردو الفاظ لائے۔اس حوالے سے انہوں نے کئی تجربے کیے ہیں۔مصنف نے اپنے اس مضمون میں امیر خسرو کی شخصیت کا مختصر تعارف پیش کرنے کے ساتھ ان کی غزلیہ شاعری کے تمام اوصاف پر گہرائی کے ساتھ بحث کی ہے۔اس مضمون کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں غلام نبی کمارؔ نے امیر خسرو کے فارسی اشعار کا ترجمہ بھی ساتھ کیا ہے جس سے اس کی اہمیت میں اضافہ ہوتا ہے۔
اسی طرح غلام نبی کمارنے ”مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری“پر بھی ایک عمدہ مضمون قلم بند کیا ہے اس مضمون میں انہوں نے مولانا مملوک العلی کی مکتوب نگاری کی اہمیت اور خصوصیت پر روشنی ڈالی ہے۔مولانا مملوک العلی دہلی کالج کے ان تابناک ستاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اس کالج کو تاریخی حیثیت عطا کی ہے۔موصوف نے دلی کالج اور مولونا مملوک العلی کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”مولانا مملوک العلی دہلی کالج میں عربی کے معروف وممتازاستادوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے اعلیٰ مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب دہلی کالج کے پرنسپل کو فارسی کے استاد کی تلاش ہوئی تو اس نے یہی کہا کہ فارسی میں ہمیں ایسا آدمی درکار ہے جیسے کہ عربی میں مملوک العلی ہے۔“
”ص۱۴،قدیم وجدید ادبیات“
مذکورہ بالا اقتباس سے مملوک العلی کی استادی کا اچھی طرح سے اندازہ ہوجاتا ہے۔کتاب میں غلام نبی کمار کاایک اہم مضمون ”اردو میں مومن شناسی کی روایت“ہے۔اگر چہ اس مضمون کو مصنف نے فہرست میں تیسرے نمبر پر رکھا ہے البتہ ادبی اعتبار سے یہ مضمون اور بالخصوص مومنؔ شناسی کے حوالے سے یہ بہت ہی اہم اور دلچسپ ہے۔مومن خان مومنؔ اردو کے ان بلند پائے شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جن کا شمار نہ صرف اپنے دور کے معتبر شاعروں میں ہوتا ہے بلکہ موجودہ عہد میں بھی ان کے چاہنے والوں کی تعداد کچھ کم نہیں ہے اس بات کا اندازہ خود اس مضمون سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ نئی نسل کے لوگ آج بھی ان کی شاعری کا اسی شوق اور دلچسپی کے ساتھ پڑھتے ہیں۔مصنف نے اس مضمون میں مومنؔ شناسوں کی ایک فہرست تیار کرکے ان کے قلمی نسخوں پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے، ساتھ ہی انہوں نے مومنؔ شناسی کی اس پوری روایت کو بھی سامنے لایا ہے جس کا مطالعہ کرکے مومن خان مومنؔ کے کلام کے کئی باب کھل جاتے ہیں۔ موصوف نے اپنے اس مضمون میں لکھا ہے کہ:
”ڈیڑھ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن مومنؔکے حوالے سے بے اعتنائی اور ناانصافی برتی گئی اور مومن ؔپر جتنا کام ہونا چائیے تھا اسے بھی لااُبالی پن کی بوآتی ہے۔اس سے صرف ِنظر چند اہل قلم ایسے گزرے ہیں جنھوں نے مومن اور مطالعہ مومن میں خاصی دلچسپی دکھائی۔مومن کی شاعری اور زندگی کے بارے میں انہوں نے جو لکھا ہے اسے یہی خیال کیا جاسکتا ہے کہ مومن کی حق شناسی کسی حد تک ادا کرنے کی سعی کی گئی۔مومنؔکی قدر شناسی کر کے ان حضرات نے مومن کو وہ مقام عطا کیا جس کے مومن ؔصیح معنوں میں مستحق تھے۔“
”ص۰۵،قدیم وجدید ادبیات“
اس اقتباس سے یہ بات صاف طور پر واضح ہوجاتی ہے کہ مومنؔکوادب میں ان کا اصل مقام دلانے میں ان کے شناسوں نے اہم رول ادا کیا ہے۔مومنؔ جیسے باکمال شاعر کے بعد غلام نبی کمارنے سرسید جیسے مفکر انسان پر بھی قلم اُٹھایا ہے۔انہوں نے ”سرسید کے سماجی افکار کی عصری معونیت“کے عنوان سے ان پر ایک مختصر سا مضمون لکھا ہے جس میں انہوں نے سرسید کے سماجی افکار اور عصری معونیت کو ظاہر کرنے کی بے حد کوشش کی۔اس میں موصوف کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔سرسید ایسی شخصیت کے مالک ہیں جن کی اہمیت ہر دور میں باقی رہے گی۔ان کا مسلم امہ پر ایک بڑا احسان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہے جہاں سے ہر سال ہزاروں کی تعداد میں طالب علم علم کی دولت سے مالامال ہوکر فارغ ہوجاتے ہیں۔مسلم امہ ان کے اس احسان کا بدلہ کبھی نہیں چکا سکتی ہے۔حالاں کہ سرسید اپنے افکار وخیالات کی وجہ سے اپنے دور میں بھی طنز کے شکار ہوئے ہیں اور آج بھی ان کے مذہبی نظریات سے لوگ اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں البتہ ان کی تعلیمی،سیاسی،سماجی،معاشی اور اخلاقی نظریات کی خواص و عوام میں مقبولیت ہے۔مصنف نے بھی اپنے اس مضمون میں ان باتوں کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔
غلام بنی کمار نے ”داغؔ کی مثنوی نگاری: فریاد داغ کی روشنی میں“پر بھی ایک بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے۔یہ مضمون اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف کو کلاسیکی ادب سے کافی لگاؤ ہے۔اس مضمون میں انہوں نے داغ ؔکی مثنوی ”فریاد داغ“ کا اپنی نظر سے مطالعہ کر کے اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور ساتھ ہی دوسرے اردو کے بلند قامت شخصیات کی ان آرا کو بھی کوٹ کیا ہے جس کا اظہار انھوں نے مذکورہ مضمون میں کیا ہے۔یہ مضمون اپنے آپ میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔اسی طرح ”رباعیات حالی ؔمیں قومی اصلاح“یہ مضمون حالی ؔکے اس پہلو کو روشن کرتا ہے بقول ِمصنف کہ ان سے پہلے کسی نے اس پرتوجہ نہیں دی ہے۔وہ اس بات کا ذکر اپنی کتاب کے پیش لفظ میں کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ:
”حالیؔ کی رباعیات میں قومی اصلاح کے عنوان سے ابھی تک میری نظر سے کوئی مضمون نہیں گزرا ہے اس وجہ سے یہ مضمون بہت اہم ہے۔“
(ص۲۱،قدیم وجدید ادبیات)
غلام نبی کمار نے اپنے اس مضمون میں حالیؔ کی رباعیوں میں اصلاحی پہلو ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے اور کئی ایسی رباعیوں کا حوالہ دیا ہے جن میں حالیؔ لا اصلاحی نقطہ نظر واضح ہوتا ہے۔حالی ؔکی شاعری کی دیگر اصناف میں بھی اصلاحی پہلو موجود ہے۔نظم ”مسدس مدوجزراسلام“ لکھ کر انہوں نے قوم کی اصلاح کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ بے مثال ہے اور اسی کارنامے پر ہی توسرسید جیسے بلند پائے کے مفکر نے کہا تھا”کہ جب خدا پوچھے گا کہ دنیا سے کیا لایا۔میں کہوں گا کہ حالیؔسے مسدس حالی لکھوا کرلایا ہوں اور کچھ نہیں“اس بات سے حالی کی اصلاحی پہلو کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔ کتاب میں ”افسانوی ادب کا ایک گم شدہ فنکار:بلونت سنگھ“ کے عنوان سے بھی ایک مضمون ہے۔مضمون نگارکا یہ مضمون جب رسالہ ”ثالث“میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا تھا تواس وقت راقم نے ان سے”گم شدہ“لفظ عنوان سے باہر نکالنے کی صلاح دی تھی۔کیونکہ میرے خیال سے بلونت سنگھ گم شدہ فنکار نہیں ہے بلکہ اردو کی تمام اہم کتابوں میں کہیں نہ کہیں ان کا ذکر ملتا ہے اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے ”کلیات بلونت سنگھ“کو شائع کر کے ان کو گمشدہ ہونے سے بچا لیا۔اتنا ہی نہیں ملک اور بیرون ملک کی کئی اہم جامعات میں ان پر تحقیق ہو رہی ہے۔مصنف نے بھی اس بات کا ذکر کتاب کے پیش لفظ میں کیا ہے۔خود راقم بھی انہی پر تحقیق کررہے ہیں۔بہرکیف مصنف نے اس مضمون میں بلونت سنگھ کی پوری افسانہ نگاری کا احاطہ کیا ہے اور اور ان کے کئی اہم افسانوں کے موضوعات اور کردار نگاری کا جائزہ بھی لیا ہے اور ساتھ ہی کچھ قداور ناقدین کی آرا سے بھی ان کی افسانہ نگاری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش ؎کی ہے۔
غلام نبی کمارکی کتاب میں ہمہ جہت شخصیت کے مالک ”پروفیسر ظہیر احمد صدیقی:حیات و خدمات“ پربھی ایک اہم مضمون ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ظہیر احمدصدیقی کی ادبی خدمات کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی ان کی کتب کی فہرست بھی دی ہے جس کی وجہ سے یہ مضمون صدیقی کی حالات ِزندگی،ادبی خدمات اور ان کی تحقیقی وتخلیقی خدمات کو جاننے اور سمجھنے میں کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔”مقالات پروفیسر محمد ابراہیم ڈار:ایک تجزیاتی مطالعہ“ اس مضمون میں بھی غلام نبی کمار نے ”مقالات پروفیسرمحمد ابراہیم ڈار“ میں شامل مضامین کا بغور مطالعہ کیا۔اس مجموعے میں شامل موضوعات سے ڈار کی تحقیقی صلاحیتوں کا بھی اعتراف ہوتا ہے۔مصنف نے اس کتاب کے تمام مضامین کا ایک ایک کر کے تجزیہ کیا ہے۔مقالات پروفیسرمحمد ابراہیم ڈار کے مضامین پر تجزیہ کرکے وہ جس نتیجہ پر پہنچے ہیں اس کا ذکر مضمون کے آخر میں کچھ اس طرح کرتے ہیں:
”مقالات ڈار کے تقریباًسبھی مضامین تحقیق نوعیت کے حامل ہیں اور سب کو تحقیق کے میدان میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہوئی ہے۔زیر نظر جدید نظر ایڈیشن کے منظر عام پر آنے سے اس کی وقت میں قابل قدراضافہ ہوگیا ہے۔اس قدر دیر پا،مستند اور اعلیٰ تحقیقی سرمایے کی حفاظت بھی اردو کی بقا،ترقی اور اس کے تحفظ کا ضامن بنتی ہے۔ورنہ ہمارے بزرگوں کا بہت سا علمی وادبی تحقیقی سرمایہ دستبر وزمانہ ہوگیا ہے اور بہت سا اردو رسائل وجرائد کے اوراق میں دب کر رہ گیا ہے۔“
(ص۹۳۱،قدیم وجدید ادبیات)شوکت پردیسیؔ: شخصیت اور شاعری“ غلام نبی کمار نے اس مضمون میں مشہور شاعر شوکت پردیسیؔ کی شخصیت اور شاعری کا جائزہ لیا ہے۔شوکت پردیسی ؔایک ایسے شاعر ہیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کوئی بھی مجموعہ شائع نہیں کیا البتہ ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزندنے والد کے اس خواب کو پورا کیا ہے اور پھر۱۱۰۲ء سے۵۱۰۲ء تک ان تین شعری مجموعوں کے علاوہ ایک نثری کتاب بھی شائع ہوکر منظر عام پر آئی۔موصوف نے مضمون میں پردیسی ؔ کے تینوں شاعری مجموعوں کا مختصر سا تعارف اور ان کے کلام کا کچھ نمونہ بھی پیش کیا ہے جس سے اردو کے ہرایک قاری کو شوکت پردیسی کی شاعری اور ان کی شخصیت کو جاننے میں مدد مل سکتی ہے۔نیز ”زبیر رضوی کی ادبی خدمات“ پر بھی موصوف نے بڑی محنت کے بعدمضمون تحریر کیا ہے۔کیونکہ زبیر رضوی بیک وقت شاعر،محقق،ناقد،اور صحافی وغیرہ تھے۔ایسی شخصیت کے بارے میں لکھنا بہت مشکل کام ہوتا ہے البتہ مصنف کے اس مضمون سے اس بات کا علم صاف طور پر عیاں ہوجاتا ہے کہ انہوں نے زبیررضوی کے ہر ایک گوشے کو غور سے مطالعہ کیا ہے۔اس مضمون میں انھوں نے زبیر ضوی کی شاعری اور نثری خدمات کے علاوہ بحیثیت صحافی بھی ان کی خدمات پر روشنی ڈالی اور ان کی کتب کی فہرست بھی درج کی۔وہ ایک جگہ مضمون میں لکھتے ہیں:
”زبیر رضوی جنگ آزادی کے فوراًبعد شاعری کے اُفق پر چمکنے والے ایسے تابندہ وپائندہ ستارے ہیں جو ایسے طلوع ہوئے کہ ادب کی دنیا میں روشنی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔زبیر رضوی بیک وقت شاعر،ادیب،نقاد،مترجم،مبصر، مرتب،مکتوب نگار،سوانح نگار،صحافی اور دانشور کی حیثیت سے مشہور ہیں،غرض وہ ایک کثیر الجہات اور متنوع شخصیت کے مالک ہیں۔“
(ص۲۵۱،قدیم وجدید ادبیات)
”نورشاہ:فکروفن:ایک تجزیاتی مطالعہ“دراصل نورشاہ:فکروفن محمد اقبال لون کی مرتب کردہ تصنیف ہے۔غلام نبی کمار نے اس مضمون میں ان کی کتاب کاتجزیاتی مطالعہ کر کے اس میں شامل مضامین کے حوالے سے اپنے خیالات کا عمدہ اظہار بھی کیا ہے۔نورشاہ ارض کشمیر کا ایک ایسے ادیب ہیں جو بیک وقت کئی اصناف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں اور ابھی بقیدحیات ہیں۔انہوں نے اپنے قلم سے ادب کی کافی خدمت کی ہے اور امید ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں سلامت رکھا تو وہ اپنے قلم کے اور بھی جوہر دکھائیں گے۔مصنف نے ان کی شخصیت کا بھی مختصر تعارف اپنے مضمون کے شروع میں دیا ہے۔جس کی وجہ سے نورشاہ کی شخصیت کے بارے میں ہر اس قاری کو جاننے کا موقع مل جائے گا جو ان کی تحریروں کا شیدائی ہے۔نور شاہ اس وقت نہ صرف کشمیر کا بلکہ پورے ادب کا ایک ایساروشن ستارہ ہے جس کے چمکتے رہنے کی ہرکوئی دست بستہ ہیں۔
اس مضمون کے بعد غلام نبی کمار نے ”۰۶۹۱کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب“کے مضمون میں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کے بعد اردو نظم میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کے نقوش ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔مصنف نے اپنے اس مضمون میں کئی سارے شاعروں کا کلام پیش کیا ہے۔یہ مضمون تحقیقی نوعیت کا ہے۔اسی طرح ”دبستان دہلی کے چند اہم غزل گو شعراء“،”جموں وکشمیر کی معاصر اردو شاعری“،”بچوں کے چند اہم نمائندہ غزل گوشعراء“،”مشرقی پنجاب میں اردو نظم کا حالیہ منظر نامہ“ایسے موضوعات ہیں جن پر موضوع تحریر کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت اور مطالعے کی ضرورت ہوتی ہیں۔فاضل نقاد کے ان مضامین کے مطالعے سے اس بات کا صاف طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان مضامین کو ضبط تحریر میں لانے کے لئے ان کو کتنی محنت کرنی پڑی ہوگی۔ان مضامین کا مطالعہ کرنے کے بعد کافی نئی معلومات بھی مل جاتی ہے۔
”اردو زبان میں سائنسی صحافت“کتاب کی فہرست میں ایک انوکھا مضمون ہے۔ اس مضمون میں موصوف نے اردو صحافت میں سائنسی موضوعات کو کب اور کن اخباروں اور رسائل نے اپنی زینت بنایا ہے کو مدلل انداز میں بیان کیا ہے۔یہ بہت ہی اہم مضمون ہے اس کا مطالعہ کرنے سے قاری سائنسی صحافت کے حوالے سے بہت سی مفید جانکاری حاصل کرسکتا ہے۔کتاب میں ”کتاب نما اور بعض اہم خصوصی شمارے“کے عنوان پر بھی مضمون شامل ہے۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے رسالہ کتاب نما کی تاریخ کے ساتھ ساتھ اس کے چند خاص شماروں پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے جسے کئی فائدے ہوئے ہیں ایک تو قاری اس کے خاص شماروں سے واقف ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ اس میں کن اشخاص کے مضامین شامل ہے،کس نوعیت کے ہیں اس کا بھی علم ہوجاتا ہے۔اسی طرح کمار نے ”ذہن جدید اور زبیر رضوی“پر بھی ایک طویل مضمون لکھا ہے۔اس مضمون میں غلام نبی کمار نے ایک تو زبیر رضوی کی صحافتی زندگی پر بحث کی اور دوسرا رسالہ ”ذہن جدید“ کی ابتدا سے لے کر آخری دور تک کا بھر پور جائزہ لیا۔غلام نبی کمار نے اپنے اس مضمون میں ”ذہن جدید“کے تقریباً تمام شماروں کا ذکر کرکے ان میں شائع شدہ مضامین پر بھی گفتگو کی ہے۔”ذہن جدید“ کے حوالے سے لکھے گئے معتبر ناقدین کے تاثراتی کلمات کو بھی مصنف نے اپنے اس مضمون میں جگہ دی۔جس سے اس مضمون کی اہمیت میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ ”ذہن جدید“ کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔اس کتاب کے آخر پر مصنف نے ”خواتین کی خود نوشتوں کے تجزیوں کا تجزیہ“کے عنوان سے بھی ایک طویل مضمون قلم بند کیا ہے۔یہ دراصل آج کے دور کے معتبر ناقد حقانی القاسمی کی ادارت میں نکلنے والا رسالہ ”انداز بیان“کے اولین شمارے جو خواتین کی خودنوشتوں کے جائزے پر محیط ہے پر لکھا گیا ہے۔اس مضمون میں انہوں نے ان تمام مضامین کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے اس شمارے کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں ہے)

You may also like

Leave a Comment