Home تجزیہ غلام نبی آزاد کی وداعی پر وزیراعظم کے آنسو- معصوم مرادآبادی

غلام نبی آزاد کی وداعی پر وزیراعظم کے آنسو- معصوم مرادآبادی

by قندیل

 

اپوزیشن لیڈر غلام نبی آزاد کی وداعی پرراجیہ سبھا میں جو کچھ ہوا، اس پر لوگ اپنی اپنی سمجھ کے مطابق تبصرے کررہے ہیں۔ بعض حلقوں میں یہ اندیشے ظاہر کئے جارہے ہیں کہ وزیراعظم نے غلام نبی آزاد کی وداعی کے وقت جو قیمتی آنسو بہائے ہیں، وہ دراصل انھیں رام کرنے کے لیے ہیں، کیونکہ وہ آزاد کو کشمیر میں ’بی جے پی کا مسلم چہرہ‘ بنانا چاہتے ہیں۔یوں بھی غلام نبی آزاد نے جب سے کانگریس کی مستقل قیادت کا سوال اٹھایا ہے تب سے وہ پارٹی کے بعض لیڈروں کی آنکھوں میں کھٹک رہے ہیں۔ ایسا تاثر دیا جارہا ہے کہ کانگریس میں ان کا قافیہ تنگ ہوچکا ہے اور وہ اپنی نئی راہ تلاش کررہے ہیں۔ مگر جو لوگ غلام نبی آزاد اور ان کی سیا ست کو جانتے ہیں ان کے لیے یہ باتیں انہونی اور ناقابل یقین ہیں۔ میں بھی اپنے آپ کو ان لوگوں میں شمار کرتا ہوں جو غلام نبی آزاد اور ان کی سیاست کا قریب سے مطالعہ کرتے رہے ہیں۔ 71 سالہ غلام نبی آزاد نے اپنا سیاسی کیریر 1973میں جموں وکشمیر میں بلاک کانگریس سے شروع کیا تھا جہاں سے وہ صوبائی وزیراعلیٰ کی کرسی تک پہنچے۔وہ سب سے پہلے 1980میں مہاراشٹر سے لوک سبھا کے ممبر چنے گئے تھے اور یہیں سے 1990 میں پہلی بار راجیہ سبھا کے لئے ان کا انتخاب عمل میں آیا ۔اس کے بعد 1996 سے 2006 تک وہ جموں وکشمیر سے ایوان بالا کے ممبر رہے۔اس دوران انھیں تین سال کے مختصر عرصہ کے لیے جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ کی ذمہ داریاں سونپی گئیں اور اس کے بعد دوبارہ 2009میں انھیں ایوان بالا کا ممبر چن لیا گیا۔2014 میں انھیں پارٹی نے راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داری سونپی، جس سے وہ اب سبکدوش ہورہے ہیں۔اس طویل سفر میں ان کی سب سے بڑی پونجی کانگریس قیادت کاوہ اعتماد ہے جوانھیں ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ یہ اعتماد انھوں نے پارٹی سے اپنی اٹوٹ وفاداری کی بنیاد پر حاصل کیا ہے۔ ریٹائرمنٹ سے قبل راجیہ سبھا میں انھیں جو الوداعیہ دیا گیا،اس پر چہ میگوئیوں کا بازار اس لیے گرم ہے کہ وزیر اعظم نے اس موقع پر تین بارآبدیدہ ہوکران کو خراج تحسین پیش کیا اور ان کی انسانی ہمدردی کے جذبہ کو سراہا۔اس موقع پر اپنی الوداعی تقریر کے دوران خود غلام نبی آزاد بھی آبدیدہ ہوئے۔

میں ایک اخبار نویس کے طور پر گزشتہ تیس برس سے راجیہ سبھا کی کارروائی کا مشاہدہ کررہا ہوں اور پریس گیلری میں بیٹھ کر میں نے دلچسپ نظارے دیکھے ہیں۔ایوان میں ریٹائر ہونے والے ممبران کو الوداعیہ دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔جب بھی کسی ممبر کی معیاد پوری ہوتی ہے تو اسے عزت سے خوش کن الفاظ کے ساتھ وداع کیا جاتاہے۔ اگر کوئی خاص ممبر سبکدوش ہوتا ہے تو تمام پارٹیوں کے لیڈران اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ روایت صرف راجیہ سبھا میں ہے کیونکہ اس کے ممبران کا انتخاب اور ریٹائرمنٹ وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے جبکہ لوک سبھا میں یہ روایت نہیں ہے کیونکہ وہاں کے ممبران کا انتخاب ایک ہی وقت میں یعنی عام انتخابات کے موقع پر ہوتا ہے اور وہ سبھی ایک ساتھ لوک سبھا کی مدت ختم ہونے کے ساتھ ریٹائر ہوجاتے ہیں۔راجیہ سبھا جسے عرف عام میں ’ہاؤس آف ایلڈرز‘ بھی کہا جاتا ہے ایک ایسی جگہ ہے جہاں سنجیدہ بحث ومباحث ہوتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے عام طورپرتجربہ کار اور جہاندیدہ لوگوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ حالانکہ یہ روایت اب دم توڑ رہی ہے اور ایوان بالا میں ہرقسم کے لوگ پہنچ رہے ہیں۔ممبران کی وداعی تقریب میں اکثر دلچسپ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور اس موقع پر شعر وشاعری بھی خوب ہوتی ہے۔ غلام نبی آزاد نے بھی اپنی وداعی تقریر میں کئی شعر سنائے اور اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ جو بات ہم سیاستداں دس گھنٹے میں کہتے ہیں وہ شاعر اپنے دوشعر میں بیان کردیتا ہے۔مجھے یاد ہے کہ پچھلے دنوں ایک کمیونسٹ ممبر نے اپنی وداعی کے موقع پر یہ شعر پڑھا تھا۔

یہ کیسا وقت مجھ پر آگیا ہے

سفر جاری ہے لیکن گھر آگیا ہے

آج کل سیاست میں جس تیزی کے ساتھ لوگ اپنی وفاداریاں تبدیل کررہے ہیں، اس کے پیش نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ کون کب کس پارٹی میں چلا جائے، لیکن جو لوگ غلام نبی آزاد کے بارے میں اس قسم کے اندیشے ظاہر کررہے ہیں، وہ قطعی غلطی پر ہیں۔غلام نبی آزاد کا ذہن اور شخصیت جس سانچے میں ڈھلی ہے، اس میں ان کے بارے میں اس قسم کے تبصرے کرنا سیاسی ناپختہ کاری کا ثبوت دینا ہے۔غلام نبی آزاد نے کانگریس میں رہ کر جو کچھ حاصل کیا ہے اس میں ان کی ذاتی محنت کو بڑا دخل ہے۔ وہ سیاست میں کبھی کسی کے رہین منت نہیں رہے۔ انھیں جب بھی موقع ملا، انھوں نے اپنی بات پارٹی کے پلیٹ فارم پر پوری جرات کے ساتھ کہی ہے۔انھیں پارٹی کے انتظامی امور پر جو دسترس حاصل ہے وہ کانگریس میں بہت کم لوگوں کو حاصل ہے۔ جب جب کسی صوبہ میں پارٹی بحران کا شکار ہوئی ہے تب تب غلام نبی آزاد ہی کو وہاں بھیجا گیا ہے۔ انھیں ملک گیر سطح پر پارٹی کے امور کی جتنی جانکاری ہے اتنی شاید ہی کسی اور پارٹی لیڈر کو ہو۔ انھوں نے اندراگاندھی، راجیو گاندھی، نرسمہاراؤ اورمنموہن سنگھ کابینہ میں کلیدی عہدوں پر کام کیا ہے اور پارلیمانی امور کا بھی ان کو خاصا تجربہ ہے، جس کے وہ مرکزی وزیر رہ چکے ہیں۔ایسے میں کانگریس پارٹی کبھی نہیں چاہے گی کہ وہ اپنے اتنے سینئر اور تجربہ کار لیڈر کو کھونے کا جوکھم اٹھائے اور وہ بھی ایسے وقت میں جب پارٹی زبردست بحران سے گزر رہی ہے۔غلام نبی آزاد کانگریس میں جمہوری عمل کی بحالی اور مستقل صدر کی بات اٹھاتے رہے ہیں۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کی پچھلی میٹنگ میں صدارتی عہدے کے انتخاب کے موضوع پر ان کی وینو گوپال کے ساتھ تیکھی بحث ہوئی تھی۔ وہ دراصل صدارتی عہدے کا چناؤٹالنے کے خلاف تھے۔

غلام نبی آزاد کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ انھوں نے خود کو ایک قومی لیڈر کے طورپر تسلیم کروایاہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے 1980میں لوک سبھا کا پہلا چناؤ مہاراشٹر کی واشم سیٹ سے جیتا تھا ۔ انھوں نے نہ تو مسلمانوں کی سیاست کی اور نہ کبھی خود کو مسلم لیڈر کہلوایا۔ حالانکہ وہ اپنی بساط بھر مسلمانوں کی مدد کرتے رہے ہیں اور ہر ضرورت کے وقت ان کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب اردو اخبارات شدید مالی بحران سے گزررہے تھے تو انھوں نے شہری ہوابازی کے وزیر کے طورپر پہلی بار اپنی وزارت کے اشتہارات میں اردو اخبارات کا حصہ مختص کیا تھاجس سے اردواخبارات کو اپنی کمر سیدھی کرنے میں بہت مدد ملی تھی۔ اس مسئلہ پر انھیں متوجہ کرنے کا کام آل انڈیا اردو ایڈیٹرکانفرنس کے صدر م۔ افضل(سابق ایم پی اور سفارت کار)نے کیا تھا۔غلام نبی آزاد یوں بھی اردو کے شیدائی ہیں اور وہ لکھنے پڑھنے کانجی کام اردو میں کرتے ہیں۔ ان کی اردو معریٰ ہوتی ہے یعنی وہ اپنی تحریر میں زیر،زبر اور پیش کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

اب آئیے ان آنسوؤں کا رخ کرتے ہیں جو ان کی وداعی کے موقع پر وزیراعظم نریندر مودی نے راجیہ سبھا میں تین بار بہائے۔2006 میں جب غلام نبی آزاد جموں وکشمیر کے وزیراعلیٰ تھے تو وہاں سیاحوں کی ایک بس پر گرینیڈ حملہ میں ایک درجن سے زیادہ گجراتی سیاحوں کو موت ہوگئی تھی۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے۔ آزادنے اس سانحہ پر اظہار افسوس کے لیے مودی کو فون کیا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ ان کی یہ ادا مودی کو اتنی پسند آئی کہ وہ اسے یاد کرکے ہاؤس میں تین بار آبدیدہ ہوئے۔غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ وہ اپنی زندگی میں تین چار بار ہی پھوٹ پھوٹ کر روئے ہیں جن میں ایک موقع ان کی ریاست میں گجراتی سیاحوں کے قتل کا بھی تھا۔ایک ریاستی حکمراں کے طور پر ان کا یہ ردعمل فطری تھا اور یہ ان کی شخصیت کے انسانی پہلو کا بھر پور اظہار بھی ہے۔ اس موقع پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کاش وزیراعظم نریندر مودی بھی گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے اس وقت ایسا ہی ردعمل ظاہر کرتے جب گجرات میں 2002 میں قتل وغارت گری ہوئی تھی اور سینکڑوں بے گناہ لوگ موت کے آغوش میں چلے گئے تھے۔ اگر وہ کانگریس کے سابق ممبرپارلیمنٹ احسان جعفری کے بہیمانہ قتل پر ہی اظہار افسوس کرتے اور ان کی بیوہ ذکیہ جعفری کو فون کرکے اظہارتعزیت کرتے تو ان کا قد بڑھ جاتا، لیکن افسوس انھوں نے ایسا نہیں کیا اور اس قتل وغارتگری کے خلاف ذکیہ جعفری کی جدوجہد کو ناکام بنانے کی کوششیں کی گئیں۔

غلام نبی آزاد نے مسلم ملکوں کی باہمی چپقلش اور قتل وغارتگری کا حوالہ دیتے ہوئے خود کے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر کا بھی اظہار کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ ”میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جو کبھی پاکستان نہیں گئے۔ مجھے اپنے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر ہے۔“ کاش غلام نبی آزاد کایہ دوٹوک بیان حکمراں جماعت کے لوگوں کی سوچ بدلنے میں کارگر ہوسکے جو ہر وقت مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے رہتے ہیں اور انھوں نے پورے نظام کو اپنی اسی فاسد سوچ کے سانچے میں لیا ہے۔

You may also like

Leave a Comment