کھیل دیکھا نہ کبھی کھیل دکھایا ہم نے
خود کو ہونے نہ دیا جزوِ تماشہ ہم نے
درمیاں حرف بھی آئے یہ گوارا نہ کیا
لب پہ آنے نہ دیا حرفِ تمنا ہم نے
اِس حوالے سے بھی احسان ہے اُن آنکھوں کا
ور نہ کوزے میں نہ دیکھا کبھی دریا ہم نے
جھریاں چہرے کی مانندِ زباں بول اٹھیں
کرب تا عمر عبث اپنا چھپایا ہم نے
پھر سے کرتی ہے زمیں اپنے سفر کا آغاز
جب بھی فطرت کے تقاضوں کو نہ سمجھا ہم نے
شہر کا شہر بغاوت پہ اتر آیا ہے
قفل ہونٹوں پہ نہ بے وجہ لگایا ہم نے
عکس آنکھوں میں لیے شام کی ویرانی کا
اک دیا نام سے اس کے بھی جلایا ہم نے
اہلِ منصب کے قصیدے میں زباں کیوں پڑتی
دل میں پالا ہی نہیں خواہشِ دنیا ہم نے
اب نظیر اس میں ہو ہلچل، کوئی امید نہیں
بلدۂ جاں میں بہت شور مچایا ہم نے