شاہ رخ عبیر
دل خزاؤں میں بھی پھولوں کی طرح ہوتا ہے
جب ترا ذکر کتابوں کی طرح ہوتا ہے
ہوں گے منظوم کئی دل کے مضامیں لیکن
عشق تو میر کی غزلوں کی طرح ہوتا ہے
حُسن کی چھاؤں میں گزرا ہوا ایک اک لمحہ
دھوپ میں سرد ہواؤں کی طرح ہوتا ہے
مجھ کو جوگی نے سکھایا ہے انوکھا جادو
یہ بھی دھوکہ تری آنکھوں کی طرح ہوتا ہے
تیری پازیب کی جھنکار سے ہوتا ہے گماں
ہر کوئی وجد میں مستوں کی طرح ہوتا ہے
چند لمحوں میں بدل جاتا ہے غم کا موسم
زیست کا کھیل کھلونوں کی طرح ہوتا ہے
تیری باتوں میں کوئی رمز چھپا ہے شاید
ایک اک لفظ بھی قصوں کی طرح ہوتا ہے
بات سن دشت میں اے خاک اڑانے والے
ایک دن شہر میں صدیوں کی طرح ہوتا ہے