کوئی آواز ہی لگا دو نا
خود سے باہر مجھے بلا دو نا
گرد جمنے لگی ہے آنکھوں میں
رخ سے پردہ ذرا ہٹا دو نا
دل نہیں لگ رہا پڑھائی میں
دوسرا راستہ بتا دو نا
عشق کا امتحان دینا ہے
تم مرا حوصلہ بڑھا دو نا
روح سے پھر شرارے نکلیں گے
جسم کی آگ کو ہوا دو نا
ہر طرف تم دکھائی دیتے ہو
آئینوں کو ذرا ہٹا دو نا
خواب میں ہم بچھڑنے والے ہیں
اب مجھے نیند سے جگا دو نا