Home غزل غزل ـ شاہ رخ عبیر

غزل ـ شاہ رخ عبیر

by قندیل

 

دل نہیں ہے تو کوئی احساس بھی زندہ نہیں ہے
اب ہماری ذات میں اخلاص بھی زندہ نہیں ہے

راستے میں اتنے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں
اب بھٹکنے کا کوئی آبھاس بھی زندہ نہیں ہے

اب تو لگتا ہے یہ دنیا گھومتی ہے الٹی جانب
کچھ نیا ہونے کی اب اک آس بھی زندہ نہیں ہے

اس زمانے نے محبت کو دیے ہیں زخم اتنے
اس کے اندر گرمیِ انفاس بھی زندہ نہیں ہے

اپنے لہجے میں ذرا ٹھہراؤ کو ترجیح دیجے
آدمیت کی یہاں بوباس بھی زندہ نہیں ہے

عشق کے سپنے سنجونے والے میرے پیارے جوگی
آج کل سنیاسی کا بن واس بھی زندہ نہیں ہے

اپنی زلفوں کو بھگوئے بیٹھی ہے گھر میں اداسی
اس سے کہہ دو اب ترا عکاس بھی زندہ نہیں ہے

You may also like

Leave a Comment