صائمہ ثمرین
ہر شخص بے قرار سا انگنائیوں میں تھا
یہ کیسا درد گاؤں کی پروائیوں میں تھا
وہ بھی سفر میں چھوڑ کے رخصت ہوا مجھے
شامل جو ہم سفر مری پرچھائیوں میں تھا
گھر میں ادب خلوص کی شائد کمی رہی
ورنہ تو خوب پیار مرے بھائیوں میں تھا
جس شخص کو سمجھتی تھی اپنا میں ہم نشیں
معلوم اب ہوا کہ وہ ہر جائیوں میں تھا
مہندی کا رنگ خون میں تبدیل ہو گیا
کچھ ایسا زخم جشن کی شہنائیوں میں تھا
اپنی انا کی حد سے گزر کر پتہ چلا
سارا مزہ تو عشق کی رسوائیوں میں تھا
ثمرین پھر غزل سے وہ محروم رہ گیا
جو لفظ میری سوچ کی گہرائیوں میں تھا