آج پھر ان کی یاد آئی ہے
تحفةً اشک ساتھ لائی ہے
کوئی خوبی نہیں یہ خوبی ہے
بس وہی بوئے بے وفائی ہے
کیوں نہ قربان تجھ پہ ہوجاؤں
ہر ادا تیری دل رُبائی ہے
خود کی ہوتی تو درد بھی ہوتا
چھوڑیے! باپ کی کمائی ہے
دامنِ دل تو ہے گنہ آلود
اور ہمیں زعمِ پارسائی ہے
اپنے ایماں کی فکر کر پیارے!
ہر طرف سیلِ بے حیائی ہے
جتنےچہرے تھےاجنبی کل تک
آج ان سے ہی آشنائی ہے
غم غلط کررہاہوں میں شائؔق
ظاہراً یہ غزل سرائی ہے