آکولہ مہاراشٹر انڈیا
شورش غم سے مری آنکھیں پریشاں ہوگئیں
ایڑیاں تھیں رقص میں، زلفیں ہراساں ہوگئیں
کان میں چیخیں مرے، کچھ اس طرح تنہائیاں
سر اٹھاتیں حسرتیں نذر چراغاں ہوگئیں
بعد مدت کے جو میرے فون کی گھنٹی بجی
بعد مدت بارشیں آنکھوں کی مہماں ہوگئیں
وجد کی حالت میں مجھ کو دیکھ کر ویرانیاں
رو پڑیں سجدے میں گر کر اور پریشاں ہوگئیں
کہہ رہی تھی میَں غزل کہنے کو اس قرطاس پر
سسکیاں قرطاس پر لیکن نمایاں ہوگئیں
عمر بھر جن کو دیا تھا آنسوؤں کا پیرہن
آج دنیا پر وہ سوچیں میری عریاں ہوگئیں
حضرت غالب کا نسخہ یوں مُجَرِب ٹھہرا ہے،
"مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں”
سوچتی ہوں آج میں زریاب جانے کس طرح
مشکلیں جو مشکلیں تھیں مجھ پہ آساں ہوگئیں
معین اقبال
27 اگست, 2020 at 21:10ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ
Khatib Afsar
31 اگست, 2020 at 19:38ماشاء اللہ بہت اچھی غزل ہے۔