فریدہ انجم،پٹنہ سٹی
زمانے نے یہ سمجھا ہی نہیں ہے
جو جیسا ہے وہ ویسا ہی نہیں ہے
کرے اس کا مداوا لاکھ کوئی
یہ زخم دل ہے بھرتا ہی نہیں ہے
دکھانے جو سبھی کا اصلی چہرہ
جہاں میں ایسا آئینہ ہی نہیں ہے
محبت ہی کا جزبہ دیکھے گا
کہ صدیوں تک یہ مرتا ہی نہیں ہے
نگاہوں سے نظر آتی ہے الفت
زباں سے کچھ وہ کہتا ہی نہیں ہے
دل بےتاب کی حالت نہ پوچھو
کہ اب تو یہ دھرکتا ہی نہیں ہے
یہاں پر عزتیں لٹتی ہیں ہر سو
یہاں جینے کا رستہ ہی نہیں ہے
رعایا سب پریشاں ہے یہاں پر
مگر شہ کو تو پروا ہی نہیں ہے
کہوں تو کیا کہوں میں اب اے انجم
وطن میں سارا”اچھا”ہی نہیں ہے
غزل
previous post