Home غزل بدن میں کون اجالا لکیر کھینچتا ہے – دلاورعلی آزر

بدن میں کون اجالا لکیر کھینچتا ہے – دلاورعلی آزر

by قندیل

بدن میں کون اجالا لکیر کھینچتا ہے
کہ جیسے خاک پہ دریا لکیر کھینچتا ہے

کسی کسی کو ہے تربیتِ سخن سازی
کوئی کوئی ہے جو تازہ لکیر کھینچتا ہے

جب اور کوئی مدَد کے لیے نہیں آتا
تو عشق دشت میں تنہا لکیر کھینچتا ہے

مَیں دائرے کے تسلُط سے جب نِکلتا ہُوں
وہ اِسم پڑھ کے دوبارہ لکیر کھینچتا ہے

عجَب نہیں ہے کہ ہم خاک پر جُدا ہُو جائیں
غضَب نہیں ہے کہ لمحہ لکیر کھینچتا ہے

وہ اپنے بخت کا لکّھا بھی کاٹ سکتا تھا
جو اپنے ہاتھ پہ تازہ لکیر کھینچتا ہے

قبولیت کی گھڑی ہے دعا کریں آزَر
فلک پہ سُرخ ستارہ لکیر کھینچتا ہے

You may also like