شہروں کے چہرہ گر جنہیں مرنا تھا مر گئے
پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے
اونچی مسہریوں کے دھلے بستروں پہ لوگ
خوابوں کے انتظار میں تھے اور مر گئے
کیا پوچھتے ہو یار کہ سیدھی سی بات ہے
جو لوگ راستوں میں نہیں ہیں وہ گھر گئے
دریا تھے اور ان کی گزرگاہ تھی مگر
اک دن سجے سجائے گھروں سے گزر گئے
ہم اپنی فصل کاٹ رہے تھے تو کھیت میں
اک تازہ فصل کے نئے امکاں ابھر گئے